رسولِ رحمتؐ کے اسمائے گرامی

رسولِ مجتبیٰ کہیے، محمد مصطفی کہیے
خدا کے بعد بس وہ ہیں پھر اس کے بعد کیا کہیے
[ماہرالقادریؒ]
مورخ ابن سعد نے طبقات الکبریٰ میں حضرت عثیمہ کے آزاد کردہ غلام سہل کی زبانی یہ روایت نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مریس کے علاقے کا ایک نصرانی عرب میں مقیم تھا اور اکثر انجیل پڑھا کرتا تھا۔ اس کا بیان ہے کہ انجیل میں رسول اللہ کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں یہ صفت موجود ہے کہ وہ اسماعیلؑ کے خاندان سے ہوں گے اور ان کا نام احمدؐ (اللہ کی بہت زیادہ حمد کرنے والا) ہوگا۔ ابوجعفر محمد بن علی سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ ابھی رحم مادر ہی میں تھے کہ آپ کی والدہ سیدہ آمنہ کو حکم ہوا: ان کا نام احمدؐ رکھنا۔ آپؐ کا یہ نام آپ کی والدہ ہی نے رکھا تھا۔ 
حضرت علی کے بیٹے محمد بن علی، جو محمد ابن الحنفیّہ کے نام سے معروف ہیں، نے اپنے والد حضرت علیؓ بن ابی طالب کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ رسول اللہ ؐنے خود فرمایا:''میرا نام احمدؐ رکھا گیا۔‘‘ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے نام احمد کا تذکرہ سورۂ الصف میں حضرت عیسیٰؑ کی زبانی فرمایا ہے۔ ارشادِ باری ہے: 
اور یاد کرو عیسیٰؑ ابن مریم کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ اے بنی اسرائیل، میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں، تصدیق کرنے والا ہوں اس تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا۔ مگر جب وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انھوں نے کہا یہ تو صریح دھوکہ ہے۔ (الصف61:6)
جبیر بن معطمؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐکو یہ کہتے ہوئے سنا: میں محمد ہوں، احمد ہوں، حاشر ہوں، ماحی ہوں، خاتم ہوں، عاقب ہوں۔ آپؐ کے ان سب ناموں کی تشریح خود ان کے اندر واضح ہے، مگر محدثین وشارحین نے بھی ان کی تشریح لکھی ہے۔ 
قرآن پاک میں آپ کے نام ''محمد‘‘ کا تذکرہ چار مقامات پر آیا ہے جبکہ احمد صرف ایک مقام پر مذکور ہے۔ محمدؐ سورۂ آلِ عمران آیت نمبر441، سورۂ الاحزاب آیت نمبر40، سورۂ محمد جسے سورۂ قتال بھی کہا جاتا ہے، میں آیت نمبر2 اور سورۂ الفتح میں آیت نمبر29 میں آیا ہے۔ احمد سورۃ الصف آیت نمبر6 میں نازل ہوا ہے۔ آپ کی پیدایش پر آپ کے دادا عبدالمطلب نے آپ کا نام محمدؐ رکھا۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کی ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ آپؐ کے دادا نے آپؐ کی پیدایش کے ساتویں دن آپؐ کا عقیقہ کیا اور مینڈھے ذبح کیے، پھر آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا ہے۔ ان کی قوم نے کہا کہ ابوالحارث آپ نے محمد نام کس بنیاد پر رکھا ہے؟ آپ کے آباؤاجداد میں تو کہیں یہ نام نہیں پایا جاتا، نہ ہی آپ کی قوم میں اس نام کا کوئی اور شخص ہوا ہے۔ 
جناب عبدالمطلب نے اس کے جواب میں کہا: اردت ان یحمدہ اللّٰہ فی السماء وتحمدہ الناس فی الارض۔ یعنی میں نے اس نیت سے یہ نام رکھا ہے کہ اللہ رب العزت آسمانوں میں اس کی تعریف فرمائے اور خلقِ خدا زمین پر اس کی تعریف کے گُن گائے۔ حسّان بن ثابتؓ نے ایک شعر میں اس مضمون کو یوں باندھا ہے:
فشق لہ من اسمہ لیجلّہ
فذو العرش محمود وہذا محمد
آپؐ کے اسم گرامی سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ آپ سراپا عظمت ہیں۔ عرش کا مالک محمود ہے اور آپ محمد ہیں۔ (آپ کا نام اللہ کے نام سے مشتق ہے، دونوں کا مادہ حمد ہے۔)
حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐکو مدینہ کی ایک گلی میں یہ فرماتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: میں محمد ہوں، احمد ہوں، حاشر ہوں، مقفّی ہوں، نبی رحمت ہوں۔ مقفّی کا معنی ہے عزت والا اور فصیح وبلیغ۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐنے ہمیں اپنے نام بتائے جن میں سے بعض نام ہم نے یاد کرلیے۔ آپ نے فرمایا تھا: ''میں محمدہوں، احمدہوں، مقفی ہوں، حاشر ہوں، نبی رحمت ہوں، نبی توبہ ہوں، نبی ملحمہ ہوں۔ (المستدرک، حدیث4185)
آنحضور ؐکے اسمائے گرامی حضرت نافع بن جبیر بن مطعم نے بیان فرمائے۔ بنوامیہ کے حکمران عبدالملک بن مروان نے اپنے دربار میں حضرت نافع سے پوچھا کہ آپ کے والد جبیر ابن مطعم آنحضورؐکے جو نام گنوایا کرتے تھے کیا تمھیں وہ یاد ہیں؟ انھوں نے فرمایا ہاں۔ پھر انھوں نے چھ نام گنوائے: 
1۔ محمد: یہ نام آنحضور ؐکے دادا جناب عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ اس کا معنی ہے وہ شخصیت جس کی تمام مخلوق میں سب سے زیادہ تعریف کی جائے۔ واقعی آپ اسم بامسمّٰی تھے۔ 
2۔ احمدؐ: یہ نام آپؐ کی والدہ ماجدہ کے دل پر القا کیا گیا تھا۔ سابقہ کتابوںمیں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے۔ خود قرآن پاک میں حضرت عیسیٰؑ کی زبانی یہ نقل ہوا ہے کہ میں تمھیں بشارت دیتا ہوں اپنے بعد آنے والے رسول کی جس کا نام احمدؐ ہے۔ (بحوالہ سورۂ الصف، آیت نمبر6)۔احمد کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ حمد بیان کرنے والا اور اس میں ذرا بھر مبالغہ نہیں۔ آپ سے زیادہ اللہ کی حمد نہ کسی نے کی ہے نہ کوئی کرسکتا ہے۔
3۔ خاتم: مہر یا مہر لگانے والا۔ آپ پر انبیا کا سلسلہ مکمل ہوگیا ہے۔ آپ پر نبوت ختم ہو چکی ہے۔ اب آپ کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول۔ آپؐ خاتم النبیین ہیں۔ قرآن کی سورۂ الاحزاب میں اللہ نے واضح طور پر یہ حکم ارشاد فرما دیا ہے:
(لوگو) محمدؐ تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ (الاحزاب33:40)
آنحضورؐنے کئی احادیث میں اپنے خاتم النبیین ہونے کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ایک حدیث ملاحظہ کیجیے:
رسول اللہ ؐنے فرمایا: رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔ (ترمذی، کتاب الرؤیا، باب ذہاب النبوۃ۔ مسند احمد، مرویات، انس بن مالک)
4۔ حاشر: آپؐ سب لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے والے اور میدان حشر کی طرف لے جانے والے ہیں۔ آپؐ اور قیامت کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں۔ آپ نے انگلیوں کو آپس میں ملاتے ہوئے خود ارشاد فرمایا: ''انا والساعۃ کھاتین۔‘‘
5۔ عاقب: سب پیغمبروں کے بعد آنے والے، اللہ کے آخری نبی اور رسول۔
6۔ ماحی: کفر وشرک کو مٹا دینے والا، نیز ان تمام لوگوں کے گناہ دھو ڈالنے والا جو اس پر ایمان لائیں۔ (طبقات ابن سعد، ج1، ص104، 105، السیرۃ الحلبیۃ، ص115، 120)
عربوں کے ہاں اصلی نام کے ساتھ باپ یا بیٹے یا کسی خاص صفت کی نسبت سے کنیت کا رواج عرف کی حیثیت رکھتا تھا، مثلاً ابوزید، ابوہریرہ، ابن ہاشم وغیرہ۔ نام سے بلانے کی بجائے کنیت سے بلانا ادب واحترام اور محبت کی علامت تھی۔ نبی اکرمﷺ نے اپنی کنیت اپنے پہلے بیٹے سیدنا قاسم بن محمدکی نسبت سے ابوالقاسم رکھی۔ آپ نے فرمایا کہ میرے نام پر نام تو رکھا کرو، میری کنیت پر کوئی کنیت نہ رکھو۔ میں ابوالقاسم ہوں اور قاسم بھی ہوں۔ یعنی قاسم کا باپ ہوں اور اللہ کے حکم اور عطا سے لوگوں کے درمیان مال ومتاع اور رحمت تقسیم بھی کرتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ جسے خیر عطا فرمانا چاہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ عطا فرمانے والا ہے۔ یہ امت قیامت تک مخالفین کے ہر ضرر سے محفوظ رہے گی جب تک اللہ کے حکم پر ثابت قدم رہی۔ (متفق علیہ)
آنحضور ؐنے اپنے بیٹے قاسم کی نسبت سے اپنے آپ کو ابوالقاسم کہا اور صحابہ کرامؓ بھی آپ کو ابوالقاسم ہی کہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میرے نام پر اپنے نام رکھو، مگر میری کنیت استعمال نہ کیا کرو۔ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبی اکرم ؐکی خدمت کیا کرتا تھا، وہ بیمار پڑ گیا تو آنحضورؐ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپؐ اس کے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا: کلمہ پڑھ لو۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا تو اس کے یہودی باپ نے کہا: اَطِعْ اَبَا الْقَاسِم۔ یعنی ابوالقاسم کی بات مان لو۔ چنانچہ اس بچے نے کلمہ پڑھ لیا۔ آنحضورؐان کے گھر سے نکلے تو بہت خوش تھے۔ آپؐ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے، جس نے اس بچے کو دوزخ کی آگ سے بچا لیا ہے۔ اس کے بعد اس بچے کی وفات ہوگئی۔ (بخاری، روایت انس بن مالکؓ)
شروع میں بعض صحابہ کا خیال تھا کہ آنحضورؐکے مقام ومرتبہ سے فروتر ہے کہ کوئی دوسرا شخص آپ کا نام اختیار کرے۔ چنانچہ انصار کے ہاں ایک بچہ پید اہوا تو انھوں نے اس کا نام محمد رکھا۔ اس پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ ہم آنحضورؐسے پوچھے بغیر یہ نام قبول نہیں کریں گے۔ آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: میرا نام رکھو، میری کنیت نہ رکھو۔ حضرت ابوہریرہؓ سے ایک حدیث مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورؐنے فرمایا: میرے نام اور میری کنیت کو جمع نہ کرو۔ (طبقات ابن سعد، ج1، ص106، 107)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں