رسول رحمتؐ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کے علم میں آتا ہے کہ آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کا بہت بڑا مقام تھا اور اسی مقام عالی کی مناسبت سے ابتلا وآزمائش کے مرحلے بھی شدید تر تھے۔ ماہ صفر ۴ھ میں یکے بعد دیگرے دو مختلف علاقوں میں اہل ایمان کو دو حادثے پیش آئے۔ ان کی تفصیلات پڑھ کر رونگٹے ہی کھڑے نہیں ہوجاتے بلکہ آنکھوں میں بے ساختہ آنسو بھی آجاتے ہیں۔ جاں نثارانِ رسول کے سروں سے قیامت گزر گئی۔ ان میں سے ایک واقعہ نجد کے علاقے میں پیش آیا اور دوسرا سرزمین حجاز میں۔ ان دونوں واقعات کو مؤرخین اور محدثین نے سرایا کی حیثیت سے نقل کیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ دونوں مہمیں دعوتی اور تبلیغی سرگرمیوں کے زمرے میں آتی ہیں۔ ایک واقعہ بمقام بئر معونہ (نجد) میں پیش آیا جس میں مستند روایات کے مطابق اڑ سٹھ یا ستر صحابہ نے شہادت پائی۔ دوسرا واقعہ رجیع کے مقام پر (حجاز) میں پیش آیا جس میں چھ صحابہ اور بروایات بعض سات یا دس صحابہ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ اس مضمون میں دونوں واقعات کا مختصر تذکرہ نذر قارئین کیا جا رہا ہے۔واقعہ رجیع میں چھ صحابہ کی شہادت ہی مستند ہے۔
واقعہ بئر معونہ
صفر ۴ھ میں نجد کے سرداروں میں سے ایک سردار ابوبراء عامر بن مالک بن جعفر آنحضورؐ کے پاس آیا۔ یہ شخص بنو عامر کے معزز لوگوں میں سے تھا۔ مگر قبیلے کی حقیقی قیادت اس کے بھتیجے عامر بن طفیل بن مالک کے ہاتھ میں تھی۔ آنحضور ؐ سے ملاقات کے وقت ابوبراء جو ملاعب الاسنہ (نیزے چمکانے والا یعنی بڑا جنگجو) کے نام سے معروف تھا، آپؐ سے بڑے ادب و احترام سے پیش آیا۔ آنحضورؐ نے اس کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تو اس نے اسلام قبول کرنے کی بجائے کہا آپ اپنے منتخب ساتھیوں کا ایک وفد میرے ساتھ بھیج دیں تاکہ یہ اہل نجد کو اسلام کی دعوت پیش کریں اور لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں۔ آنحضور ؐ نے فرمایا میں اہل نجد کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں۔ میرے ساتھیوں کو وہاں خطرہ پیش آ سکتا ہے۔ اس پر ابوبراء نے کہا آپ اس کی فکر نہ کریں یہ تمام لوگ میری امان میں ہوں گے۔ اس گفتگو کے بعد آنحضورؐ نے اپنے چیدہ چیدہ ساتھیوں کا ایک وفد ترتیب دیا جو سب صاحب علم اور نوجوان تھے۔ آپؐ کے دامن میں سبھی قیمتی ہیرے تھے اور یہ انھی میں سے بڑی شان کے مالک نفوسِ قدسیہ ہیں۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا اﷲ کے نبی کو یہ خدشہ تھا کہ ان کے ساتھیوں کے ساتھ کوئی حادثہ نہ پیش آجائے مگر بعد میں انہوں نے ابو براء کی یقین دہانی پر یہ وفد بھیج دیا۔ اللہ عالم الغیب کے سوا کسی کو معلوم نہ تھا کہ موت ان لوگوں کے انتظار میں تھی۔ رسول رحمت خود ان کو رخصت فرما رہے تھے۔ اس واقعہ کو جب بھی پڑھا جائے یہ حقیقت ذہن میں راسخ ہو تی چلی جاتی ہے کہ کلّی علم غیب اﷲ تبارک و تعالیٰ ہی کی صفت ہے۔ نیز قضا و قدر کے اٹل فیصلے نافذ ہو کر رہتے ہیں۔ ان سے کوئی مفر نہیں، اس لیے بندہ مومن کا قضا و قدر کے بارے میں ایمان اسے ہر مصیبت اور حادثے پر صبر و تسکین کی دولت عطا کرتا ہے۔
مدینہ سے اپنے پیارے ساتھیوں کو رخصت کرتے ہوئے آنحضورؐ نے سیدنا منذر بن عمرو ساعدیؓ کو امیر قافلہ مقرر فرمایا۔ وفد کے تمام لوگ صاحبِ سیف وسنان بھی تھے، حفاظ قرآن اور عالم دین بھی۔ مؤرخ ابن سعد کے الفاظ میں یہ لوگ قرّاء کہلاتے تھے۔ جب یہ لوگ بئر معونہ کے چشمے پر پہنچے جو سلیم اور بنو عامر دوقبائل کے درمیان واقع تھا تو وہاں انہوں نے قیام کیا۔ یہاں سے مشہور صحابی حضرت حرام بن ملحانؓ کو عامر بن طفیل کے پاس آنحضورؐ کے خط کے ساتھ بھیجا گیا۔ اس بدبخت نے خط پڑھے بغیر ان کو دیکھتے ہی حملہ کرکے شہید کر دیا۔ پھر اس نے اپنے قبیلہ بنو عامر میں منادی کرائی کہ بئر معونہ پر مقیم کارواں کو تہہ تیغ کر دیا جائے۔ بنو عامر نے یہ سننے کے بعد کہ یہ لوگ ابوبراء کی امان میں ہیں، حملہ کرنے سے انکار کر دیا۔ بنو سلیم کے قبائل عصبیہ، رعل اور ذکوان کے لوگوں نے بدبخت عامر بن طفیل کا ساتھ دیا اور ایک بڑی جمعیت کے ساتھ بئر معونہ کی طرف بڑھے۔
صحابہ کرام اپنے ساتھی حضرت حرام بن ملحانؓ کے انتظار میں تھے کہ وہ کیا جواب لے کر آتے ہیں۔ اچانک انہوں نے اپنے آپ کو دشمنوں کے گھیرے میں پایا۔ اس صورت حال میں بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ دھوکہ اور غدر کرنے والوں کو اسلام کا پیغام تلواروں کی چھاؤں میں پہنچایا۔ ابوبراء نے ان مہمانانِ عزیز کو بچانے کی کوشش کی مگر اس کی کوئی نہ سنی گئی۔ صحابہ کرام ایک ایک کرکے شہید ہو گئے۔ حضرت عمرو بن امیہؓ کو جو زخمی ہو چکے تھے، عامر بن طفیل نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی۔ زخمیوں کے درمیان حضرت کعب بن زیدؓ بچ رہے اور دشمنوں کے چلے جانے کے بعد شدید زخموں کے باوجود وہ بھی زندہ سلامت مدینہ واپس پہنچ گئے۔
روایات میں آتا ہے کہ حضرت منذر بن عمروؓ اپنے ساتھیوں کے شہید ہو جانے کے بعد ابھی زندہ تھے۔ انہیں عامر بن طفیل نے پیشکش کی اگر وہ چاہیں تو انہیں امان دے دی جائے۔ انہوں نے فرمایا جہاں میرے ساتھی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ وہیں میں بھی اپنی جان قربان کر دوں گا جس جگہ حضرت حرام بن ملحانؓ کو شہید کیا گیا تھا۔ منذر بن عمروؓ بھی دشمن سے لڑتے بھڑتے اسی مقام پر شہید ہوئے۔ جب آنحضورؐ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپؐ نے فرمایا کہ منذرؓ نے موت کے سامنے بزدلی نہیں دکھائی۔ موت آنکھوں کے سامنے تھی مگر وہ جوانمرد اپنی بات پر ڈٹا رہا۔
مؤرخین نے اس واقعہ کی تفصیلات لکھتے ہوئے مجاہد حضرت عامربن فہیرہ کی شہادت کا واقعہ بھی نقل کیا ہے۔ انہیں بنی کلاب کے ایک شخص جبار بن سلمیٰ نے شہید کیا۔ جب نیزہ ان کے جسم کے پار ہوا تو انہوں نے جوش ایمانی سے نعرہ لگایا۔ ''خدا کی قسم میں کامیاب ہو گیا ہوں۔‘‘ شہیدِ وفا کے انہی الفاظ نے ان کے قاتل کو ہلا کر رکھ دیا۔ مؤرخ ابن سعد کے مطابق عامر بن فہیرہ کی شہادت کے بعد اﷲ کے فرشتوں نے ان کا جسم آسمان کی طرف اٹھا لیا۔ وہ طبقات میں آنحضور ؐسے ایک روایت نقل کرتے ہیں جس میں آپؐ نے فرمایا کہ فرشتوں نے عامر بن فہیرہ کے جسم کو اٹھا لیا اور علیین میں لے گئے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو طبقات کبریٰ ابن سعد جلد دوم ص ۵۲-۵۳)۔ عامر بن فہیرہ کے قاتل جبار بن سلمیٰ نے ان کے آخری الفاظ کو سن کر اسلام قبول کر لیا۔ سچ ہے کہ مبلغ تبلیغ کرنے کے لیے گیا تھا اور اس نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا۔ تاریخی روایات کے مطابق آنحضور کو اس واقعہ کی اطلاع اﷲ کے حکم سے جبریل نے پہنچا دی تھی۔ آنحضورؐ کے دل پر اس واقعہ کا اتنا شدید اثر ہوا کہ آپ نے پورا ایک مہینہ قاتلوں کے خلاف صبح کی نماز میں مسلسل قنوت نازلہ پڑھی۔ اس کا تذکرہ صحیحین میں بھی ملتا ہے۔ انس بن مالکؓ بیان فرماتے ہیں کہ بئر معونہ کے واقعہ سے آنحضور جس قدر غمزدہ ہوئے اس کی کوئی دوسری مثال آپ کی پوری زندگی میں نہیں ملتی۔
بئر معونہ کے مقام پر امت مسلمہ کے بہت سے روشن ستارے فلک دنیا سے محو ہو کر افق جنت پر طلوع ہو گئے۔ انہی میں حارث بن صمہ جیسا جری مجاہد تھا۔ جس کی بہادری کے واقعات کا تذکرہ غزوہ احد کے باب میں تمام سیرت نگاروں نے کیا ہے۔ محمد احمد باشمیل نے غزوۃ الاحزاب میں ابن اسحاق کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ عمرو بن امیہ ضمری کے ساتھ ایک اور انصاری صحابی بھی بچ گئے تھے کیونکہ حملے کے وقت یہ موقع پر موجود نہیں تھے۔ جب انہوں نے اپنے ساتھیوں کو خون میں لت پت دیکھا تو دونوں صحابہ نے آپس میں مشورہ کیا۔ حضرت عمرو بن امیہ نے کہا، ہمیں مدینہ کی طرف چلے جانا چاہیے تاکہ آنحضورؐ کو اس حادثۂ فاجعہ کی اطلاع دے دیں۔ یہ سن کر انصاری صحابی نے کہا جس مقام پر منذر بن عمروؓ جیسے چاند ڈوب گئے ہیں وہاں سے واپس جانے کو میرا جی نہیں چاہتا۔ چنانچہ وہ انصاری دشمن سے لڑے اور شہید ہو گئے۔
مدینہ منورہ میں اس حادثے کے بعد غم کے بادل چھا گئے۔ آنحضورؐ اور تمام صحابہ سخت دل گیر تھے۔ احد کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے کہ یہ نئے زخم لگ گئے۔ ستر صحابہ احد میں شہید ہوئے تھے اور ستر کے قریب ہی یہاں قربان ہو گئے۔ یہ اتنی بڑی آزمائش تھی کہ اس کے سامنے استقامت کا مظاہرہ وہی لوگ کر سکے جو اﷲ کے ہاتھ اپنا سب کچھ فروخت کر چکے تھے۔ اس واقعہ کی اطلاعات دور و نزدیک پھیلیں اور اسلام دشمنوں نے خوب بغلیں بجائیں۔ ان کا خیال تھا کہ اسلام کا چراغ گل ہو جائے گا مگر ان کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے۔ سرور عالمؐ کا حوصلہ اس صدمے کے باوجود پست نہیں ہوا اور آپ نے مسلسل اسلام کا پرچم بلند کرنے کے لیے اس کے متصلاً بعد کئی جرأت مندانہ اقدام کیے۔ (جاری)