ایک عظیم صحابیہؓ (حضرت اُمِّ ابی ہریرہؓ)

قبیلہ دوس عرب کے معروف قبائل میں سے تھا۔ اس قبیلے سے اسلام کو کافی افرادی قوت حاصل ہوئی۔ اسی قبیلے سے دو عظیم شخصیات حلقہ بگوشِ اسلا م ہوئیں جنھیں تاریخ میں بڑی شہرت ملی۔ ایک ابتدائی دنوں ہی میں اس نعمت سے مالا مال ہو گئے اور ایک قدرے تاخیر سے منزلِ مقصود پر پہنچے مگر انھوں نے تاخیر کی خوب تلافی کی کہ تاریخ بھی عش عش کر اٹھی۔ ابتدائی دنوں میں مسلمان ہونے والے خوش بخت مسلمان حضرت طفیلؓبن عمرو دوسی اپنے قبیلے کے معزز سرداروں میں سے تھے۔ اس کے ساتھ وہ بہت بڑے شاعر بھی تھے۔انھیں اپنی قوم کے درمیان ذہین و حکیم ہونے کی وجہ سے بڑی عزت حاصل تھی۔ وہ مکے میں عمرہ کرنے کے لیے آئے تو اس دوران آنحضوؐرکی دعوت خوب پھیل چکی تھی۔ قریش نے آپؓ کی مخالفت بھی شروع کر دی تھی۔ قریش نے جناب طفیل کو آنحضوؐرسے بہت زیادہ ڈرایاتاکہ وہ آپؐ سے متنفر ہو جائیں لیکن اللہ نے ان کی قسمت میں دولتِ ایمان لکھی تھی اور وہ مسلمان ہو گئے۔ 
حضرت طفیلؓ صحیح معنوں میں ایک مبلّغ اسلام تھے۔ اپنے قبیلے میں واپس جا کر انھوں نے دعوت و تبلیغ کا کام شروع کر دیا لیکن جس طرح آنحضوؐرکی عزت و احترام کے باوجود کلمہ توحید کا اعلان سن کر آپؐ کی ساری قوم آپؐ کی دشمن بن گئی تھی، اسی طرح طفیل بن عمرؓو دوسی کا قبیلہ بھی ان کی عزت وسرداری کے باوجود ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا۔ طفیل بن عمروؓ بڑے پر عزم انسان تھے اس لیے مخالفتوں کی پروا کیے بغیر اپنا کام جاری رکھا۔ اللہ کے نبیؐ نے ان کے حق میں خصوصی دعا ئیں بھی کیں اور ان کی دعوت جڑیں پکڑنے لگی۔ آنحضوؐرکی دعا سے حضرت طفیلؓ کو ایک خاص روشنی بھی عطا کی گئی تھی جسے آنحضوؐر کے معجزات میں شمار کیا جاتاہے۔ ان کی کاوش سے کئی لوگ مسلمان ہو گئے۔ مسلمان ہونے والے ان لوگوں میں سب سے زیادہ عظمت اور ناموری جس شخصیت کو حاصل ہوئی، تاریخ انھیں ابو ہریرہؓ کے نام سے جانتی ہے۔ ان کا پرانا اور جاہلی نام عبدشمس اور اسلامی نام عبدالرحمنؓتھا۔ ہجرت کرکے مدینہ آئے تو مسجد نبوی میں صُفّہ ہی ان کا ٹھکانہ تھا۔ وہ ایک ذہین اور محنتی طالب علم تھے۔ ابو ہریرہؓان کی کنیت ہے جس کا مفہوم ہے بلیوں والا۔ [مسجد نبوی کی بلیاں ان سے مانوس تھیں اور ان کے گرد جمع ہوجاتی تھیں]
ابو ہریرہؓایک غریب اور یتیم بچے کی حیثیت سے قبیلے والوں کی نظروں میں کوئی وقعت نہ رکھتے تھے لیکن قبولِ اسلام کے بعد اللہ اور اس کے رسولؐ کی نظروں میں تارا بن کر چمکے اور امت کے ہیرو کہلائے۔ بچپن حالت اسلام میں قبیلہ دوس ہی میں گزرا۔ جب جوان ہوئے تو آنحضوؐرکی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے رختِ سفر باندھا۔ آنحضوؐر غزوۂ خیبر کے لیے مدینہ سے نکل چکے تھے۔ جب آپ نے خیبر کے قلعے فتح کیے تو وہیں ابو ہریرہؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضوؐران سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ مدینہ میں ایک چھوٹے سے کچے جھونپڑے میں انھوں نے رہایش اختیار کی۔ ان کے بیوی بچے تو تھے نہیں، ایک والدہ تھیں اور سوئے اتفاق سے وہ ابھی تک شرک و کفر میں مبتلا تھیں۔ کفر وشرک کے باوجود بیٹے کی محبت انھیں یہاں لے آئی تھی۔ بیٹا بھی ماں کا بہت فرمانبردار تھا۔ مدینہ آمد کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ اپنی ماں کی خدمت میں تھوڑی دیر کے لیے حاضر ہوا کرتے تھے اور ان کی ضروریات فراہم کر کے فوراً صفہ پر چلے جاتے۔ 
حضرت ابو ہریرہؓکا اپنا بیان ہے کہ لوگوں کی دلچسپیاں علمِ دین اور جہادِ اسلامی کے علاوہ دنیوی معاملات و کاروبار سے بھی وابستہ تھیں جبکہ میری ساری توجہ علمِ دین اور خدمت ِرسولؐ کے لیے وقف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت مختصر وقت میں انھوں نے ہزاروں احادیث حفظ کیں اور آگے انھیں لوگوں تک پہنچایا۔ تمام صحابہؓمیں سب سے زیادہ احادیثِ نبویؐ امت تک منتقل کرنے کا شرف اسی شخصیت کو حاصل ہے۔ صفہ کی پاکیزہ یونیورسٹی کا یہ طالب علم صفہ کا افتخار تھا۔ ان کی مرویات کی تعداد پانچ ہزار تین صد چوہتر ہے۔ آنحضوؐرکو ابو ہریرہؓسے جو محبت تھی اس کا تذکرہ حدیث کی کتابوں میں جگہ جگہ ملتاہے۔ آنحضوؐرکے معجزات کے واقعات میں بھی ابو ہریرہؓ جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ آپؐ محبت سے انھیں ''یا ابا ہر‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ 
ابوہریرہؓجب سے مسلمان ہوئے نہایت ادب و محبت سے اپنی والدہ کو دینِ اسلام کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن والدہ اسلام کی طرف راغب ہونے کے بجائے مزید متنفر ہوتی چلی گئیں۔ اپنے بیٹے سے بے پناہ محبت نہ ہوتی تو شاید وہ قبیلہ دوس سے یثرب کی جانب سفر نہ کرتیں۔حضرت ابو ہریرہؓایک دن آنحضوؐرکی خدمت میں حاضر ہوئے تو بڑے افسردہ اور غم زدہ تھے۔ آنحضوؐرنے پوچھا کہ ابو ہریرہؓکیا بات ہے۔ انھوں نے عرض کیا: ''یار سول اللہ! کیا بتائوں میں نے اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی مگر وہ ہیں کہ کفر و شرک پر نہ صرف ڈٹی ہوئی ہیں بلکہ بدقسمتی سے آپؐ کی شان میں گستاخی بھی کر جاتی ہیں۔ میں سخت پریشان ہوں۔ آپؐ میری والدہ کے لیے ہدایت کی دعا فرمائیے۔‘‘
آنحضوؐر ہمیشہ اپنے صحابہؓکو دعائوں سے نوازا کرتے تھے اور آپؐ کی دعائیں در استجاب پر فوراً پہنچتی تھیں۔ آپؐ نے اس موقع پر اللہ سے نہایت عاجزی کے ساتھ گڑ گڑا کر دعا کی: ''پروردگار، اُمِّ ابی ہریرہؓکو ہدایت کی دولت عطا فرما۔‘‘ ابو ہریرہؓکو یقین تھاکہ آنحضوؐرکی دعا قبول ہو گئی ہے۔ وہ اسی یقین کے ساتھ اس روز صفہ سے اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چلے۔ دروازے پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ اندر سے کواڑ بند ہے۔ اندر سے پانی گرنے کی آواز بھی آرہی تھی۔ اس وقت حضرت ابو ہریرہؓکی والدہ غسل کر رہی تھیں۔ تھوڑی دیر میں غسل سے فارغ ہوئیں اور دروازہ کھولا۔ 
قبل اس کے کہ ابو ہریرہؓکچھ عرض کرتے ان کی والدہ گویا ہوئیں: ''اے لخت جگر میںتمھیں گواہ بنا رہی ہوں کہ میں اللہ اور اس کے رسول ؐپر صدق دل سے ایمان لے آئی ہوں۔‘‘ حضرت ابوہریرہؓ کے لیے اس سے بڑی خوشی اور کیا ہو سکتی تھی۔ وہ اپنی والدہ سے لپٹ گئے۔ پھر فوراً آنحضوؐرکی خدمت میں حاضر ہو کر آپؐ کو اطلاع دی کہ آپؐ کی دعا قبول ہو گئی ہے اور ان کی والدہ حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئی ہیں۔ آنحضوؐر بھی یہ خبر سن کر بہت خوش ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد اس کاشکر ادا کیا۔ حضرت ابوہریرہؓکی والدہ حضرت اُمَیمہؓ قبول اسلام کے بعد آنحضوؐرسے بے پناہ محبت کرتی تھیں۔ ابوہریرہؓ پہلے بھی ماں کے بہت خدمت گزار تھے لیکن اب ان کا انداز اور بھی مثالی بن گیا۔ 
دونوں ماں بیٹا ایک دوسرے کو دعائیں دیا کرتے تھے۔ ابو ہریرہؓفرماتے کہ میری والدہ کے مجھ پر بڑے احسانات ہیں کہ جس نے غربت میں میرے یتیم ہو جانے کے بعد میری پرورش کی اور میری خاطر زندگی بھردوسرا نکاح نہیں کیا۔ ان کی والدہ اپنے بیٹے کے بارے میں فرمایا کرتی تھیں کہ وہ انتہائی اطاعت گزار اور فرمانبردار بیٹا تو تھا ہی، میری ہدایت کا ذریعہ بھی بنا اس لیے وہ میرا محسن ہے۔ ابو ہریرہؓخود بڑے عالم ہونے کے ساتھ عابد و زاہد بھی تھے۔ ان کی والدہ بڑھاپے میں داخلِ اسلام ہوئیں، اس لیے وہ بھی سابقہ دور جاہلیت کی تلافیِ مافات کے لیے اپنا بیش تر وقت اللہ کی یاد اور عبادت میں گزارتی تھیں۔ والدہ کی زندگی میں ابو ہریرہؓان کی خدمت کی وجہ سے حج اور عمرے کی سعادت حاصل نہ کرسکے۔ ان کی وفات کے بعد انھوں نے حج اورعمرہ ادا کیا۔ اُمِّ ابی ہریرہؓاسلام میں داخل ہوئیں تو انتہائی عمر رسیدہ اور کمزور تھیں، اس لیے وہ حج کی سعادت سے محروم رہیں۔ 
آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ام ابی ہریرہ بہترین ماں ہیں۔ زندگی بھر اپنے اکلوتے بیٹے کی پرورش اور دیکھ بھال میں مصروف رہیں اور اسے ہر طرح کا آرام بہم پہنچایا۔ قبول اسلام سے قبل محض بیٹے کی محبت میں گھربار چھوڑا اور مدینہ آگئیں۔ اسی طرح ابوہریرہؓ اپنی ماں کے بہترین فرزند ہیں کہ انھوں نے غربت وافلاس کے باوجود اپنی ماں کی خدمت میں کوئی کوتاہی نہ کی۔ پھر سب سے بڑی بات یہ کہ ابوہریرہؓ نے اپنی ماں کو دوزخ کی آگ سے بچا کر جنت کا مستحق بنا دیا۔ حضرت ابوہریرہ کی والدہ امیمہ بنتِ صبیح بن حارث الدوسیہ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اسلام میں داخل ہوکر صحابیات کی صف میں شامل ہوگئیں۔ 
والدین اور اولاد ایک دوسرے کے لیے ڈھال بھی ہوتے ہیں اور رضائے الہٰی کے حصول کا ذریعہ بھی۔ والدین کا کام اولاد سے محبت، ان کی خاطر قربانی و ایثار اور ان کی تربیت کی سنجیدہ کوشش ہے تو اولاد کا کام والدین کی خدمت، دلجوئی اور ہر طرح انھیں آرام و راحت پہنچانے کی جدوجہد ہے۔ یہ ماں بیٹا دنیوی لحاظ سے مثالی تھے۔ اللہ نے بیٹے کے ذریعے انھیں دینی لحاظ سے بھی یکتا بنا دیا۔ نیک اولاد صدقۂ جاریہ ہوتی ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو والدین کا سچا خادم بنائے اور تمام اہلِ ایمان کو اولادِ صالح کی نعمت سے نوازے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں