اُفق کے اُس پار جانے والے!

15سال قبل 28 اپریل2003ء کودل دوز خبر ملی کہ سندھ کے غازی، مولانا جان محمدعباسی داغِ مفارقت دے گئے ہیں۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ یہ پرعزم مسافر اپنی زندگی کے 78سال کا سفر کامیابی سے طے کرکے اپنی منزل سے ہم کنار ہوگیا مگر اپنے چاہنے والوں کے دلوں کو اداسی و حزن کے صحرا میںچھوڑ گیا۔ بے ساختہ آنکھوں میںآنسو آگئے اور زبان پراسترجاع اور مغفرت کی دعا جاری ہوگئی۔ مولانا عباسی سے طویل عرصے کا تعلق اور رفاقت رہی مگر افسوس کہ ان کے جنازے میں شرکت نہ کرسکا۔ مولانا کی وفات کے بعد ان کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس محترم پروفیسر عبدالغفور احمد کے فیڈرل بی ایریا والے مکان پر منعقد ہوا۔ دوستوں کی دعوت پر میں نے اس میں شرکت اپنے لیے اعزاز سمجھی۔ بہت سے جماعتی احباب کے خطابات تھے۔ میں نے بھی مولانا سے وابستہ اپنی یادوں کے دریچے کھولے۔ پرانے نوٹس کہیں گم ہوگئے ورنہ ارادہ تھا کہ مولانا عباسی صاحب کی یاد میں مضمون لکھوں گا۔
میری تالیف عزیمت کے راہی (اول) منظر عام پر آئی تو دو قدر دانوں نے دیکھتے ہی شکوہ کیا کہ اس میںسندھ کے غازی کا تذکرہ کیوں شامل نہیں؟ میں نے ان سے عرض کیا کہ اس تسامح پر معذرت قبول فرمائیں۔ محض یہ ایک ہیرا نہیں کئی دیگر بھی اس لڑی میں نہ پروئے جاسکے۔ اگلی کتاب میں دیگر شخصیات کے ساتھ مولانا کا تذکرہ بھی نذرِ قارئین کیا جائے گا۔ اس کے بعدبھولی بسری یادوں کو مجتمع کیا اور یہ سطور قرطاس پر منتقل ہوگئیں۔ ہم برسیوں کے قائل ہیں نہ اسے پسند کرتے ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے کہ ماہ اپریل کی انھی تاریخوں میںایک مقالہ رقم ہواجو مولانا کی وفات سے مطابقت رکھتی ہیں۔ 
مولانا جان محمد عباسی اپنی ذات میںانجمن تھے۔ علمائے سلف کے اخلاق و کردار، سنجیدگی و متانت اور تفکر و تدبر کا نمونہ، سندھ کی مخصوص مہمان نوازی، شیریں کلامی اور حسنِ اخلاق کا مجسمہ، تحریک اسلامی کی قیادت میں روشن ستارہ اور سید مودودی ؒ کے خوب صورت گل دستے کا پھول! سیاسی میدان میں بہترین تجزیہ کار اور عملی جدو جہد میںان تھک کردار کے مالک ! دوستوں کے ساتھ بے تکلف، ہمدرد اور غم گسار، بدخواہوں کے لیے جذبہ خیر خواہی سے سرشار اور معاندینِ حق کے لیے ننگی تلوار! یہ تھے مولاناجان محمد عباسی، جن کے اندر بیان کردہ تمام روپ میں نے جلوہ نما دیکھے۔
مولاناکو پہلے پہل گزشتہ صدی کے چھٹے عشرے میں قدرے دور سے دیکھا۔ مرکزی مجلس شوریٰ کا موسم سرما کا اجلاس ۵،اے ذیلدار پارک اچھرہ میں ہورہا تھا۔ ہم اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کی خواتین یونیورسٹی مہم چلارہے تھے۔ اسی سلسلے میں سندھ سے تعلق رکھنے والے ارکان مغربی پاکستان اسمبلی سے ملاقاتیں کرنے کا بھی پروگرام تھا۔ ہم سندھ کے ارکان شوریٰ سے اس معاملے میں معلومات لینا چاہتے تھے۔ عباسی صاحب نے مفید معلومات بلکہ سندھ کے ایک ایم پی اے (غالباً نور محمد لُنڈ نام تھا ) سے ملنے کا مشورہ بھی دیا۔ مذکورہ ایم پی اے سے بھی ہماری بہت اچھی ملاقات پیپلز ہاؤس میں ہوئی۔ مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں مولانا نہایت نفیس، خوش لباس اور موٹے شیشوں کی عینک پہنے ایک مدبر سیاسی و دینی راہ نما نظر آئے۔ اگلے چند سالوں میں مولانا مرحوم کو اور قریب سے دیکھا۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ اور دیگر برادرتنظیموں کے حالات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ جماعت اسلامی کی قیادت میں ابھی بہت نمایاں نہیں تھے لیکن ان سے مل کر یہ احساس ضرور ہوتا تھا کہ مولانا کسی بڑے مقام پر فائز ہوں گے۔
1970ء میں ون یونٹ ختم ہونے کے بعد مغربی پاکستان میں صوبائی نظم قائم ہوا تو صوبہ سندھ کی امارت پر مولانا جان محمد عباسی کو مقرر کیا گیا، اس سے قبل وہ ضلع لاڑکانہ اور بالائی سندھ کے اضلاع پر مشتمل خیر پور ڈویثرن کے امیر بھی رہے۔ 1972ء میں میاں طفیل محمد صاحب پہلی مرتبہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوئے تو انھوں نے کچھ ہی عرصے بعدمولانا جان محمد عباسی صاحب کو مرکزی نائب امیر بھی مقرر کردیا۔ وہ کئی سالوں تک نائب امارت اور امارت صوبہ سندھ، یہ دونوں ذمہ داریاں بحسن و خوبی نبھاتے رہے۔ امارت صوبہ پر وہ30؍ ستمبر 1997ء تک فائز رہے، جس کے بعد صوبائی امارت سے اپنی صحت کی کمزوری کی وجہ سے سبک دوش ہوگئے اور ان کی جگہ اسد اللہ بھٹو صاحب امیر صوبہ مقررکیے گئے۔ مرکزی نائب امارت پر مولانا زندگی کے آخری لمحات تک فائز رہے۔
مولانا جان محمد عباسی یکم جنوری 1925ء کو ضلع لاڑکانہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں بیڑو چانڈیو میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولانا غلام رسول عباسی ایک عالم دین اور ماہر طبیب تھے، ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا عالم دین بنے اور قرآن و سنت کے علم کو لوگوں تک پہنچاکر ان کے حق میں صدقہ جاریہ ثابت ہو۔ انھوں نے اپنے بیٹے کو گھر پر بھی تعلیم دی اور مختلف جید علما کے ہاں بھی حصول علم کے لیے بھیجا، مولانا کے اساتذہ میں ایک معروف نام مولانا علی محمد کاکیپوٹوکا آتا ہے، جو سندھ بھر میںمعروف اور دیوبند کے فارغ التحصیل تھے۔ مولانا جان محمدعباسی صاحب نے درس نظامی کے ساتھ ساتھ فاضل عربی اور رائج الوقت عصری مضامین کی تعلیم بھی حاصل کی۔ اگر چہ باقاعدہ سکول میں وہ مڈل تک زیر تعلیم رہے مگر ان کی علمی استعداد گریجوایٹس سے کسی طرح کم نہ تھی۔ مولانا اپنے والد مر حوم کے ساتھ ہی اپنے گاؤں سے لاڑکانہ تشریف لائے، جہاں رہائش کے علاوہ ان کے والد نے اپنا مطب بھی قائم کرلیا۔ مولانا کے والد اچھے طبیب تھے۔ معاشرے میں ان کی عزت بھی تھی اور عالم دین ہونے کی وجہ سے لوگ ہر معاملے میں ان پر اعتماد بھی کیا کرتے تھے۔ لاڑکانہ میں ا ن کی تعمیر کردہ مسجد اللہ والی اب بھی مینارہ نور ہے۔
مولانا جان محمدعباسی صاحب بہت اچھے مدرس بھی تھے۔ ان کے دروسِ قرآن و حدیث میں علمی نکات کے ساتھ ساتھ بہت دلچسپ تجزیے اور قرآن و سنت کے پیغام کو حالاتِ حاضرہ پر منطبق کرنے کی بہترین مثال بھی نظر آتی تھی۔ ابتداہی سے مولانا کا رجحان فرقہ واریت سے کوسوں دور تھا اور وہ اتحادِ امت کے ہمیشہ متمنی و داعی رہے۔ ان کے مزاج و فطرت کے قریب تر اگر کوئی پلیٹ فارم تھا تو وہ جماعت اسلامی ہی تھی۔ انھیں جماعت سے تعارف لاڑکانہ کے مقامی ساتھیوں کے ذریعے ہوا۔ ان کے بے تکلف دوست اور ہمارے مہربان بزرگ جناب عبدالسلام آرائیں مرحوم اپنی محفلوں میں اپنی جوانی کے واقعات کا تذکرہ کرتے تو اکثر واقعات میں مولانا جان محمدعباسی بہت نمایاں نظر آتے۔ عبدالسلام آرائیں صاحب کو مولانا جان محمدعباسی سے بے پناہ محبت بھی تھی اور انتہائی بے تکلفی کا تعلق بھی تھا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ مولانا جان محمدعباسی میری اور ابراہیم قریشی صاحب کی دریافت ہیں۔ عبدالسلام صاحب سے کھلی گپ شپ رہتی تھی، میں انھیں کہتا کہ شکاری کی قدر شکار ہی سے ہوتی ہے تووہ خوب قہقہے کے ساتھ کھلکھلاتے۔ عباسی صاحب کو مولانا جان محمد بھٹو صاحب سے بھی فیضان حاصل ہوا۔ 
میں نے مولانا جان محمد بھٹو مرحوم کے حالات پر جو مضمون ان کی وفات پر لکھا تھا، اس میں ایک جگہ مولانا عباسی صاحب کا بھی تذکرہ آیا: ''سندھ کی رونق دوجان محمدتھے۔ ایک چلے گئے اور خلا چھوڑ گئے۔ دوسرے موجود ہیں، اللہ انھیں سلامت رکھے اور اپنے دین کی خدمت کی مزید توفیق عطا فرمائے۔‘‘ دل کی کیفیت بقول شاعر یوں ہے : 
میں ہوں دشتِ غم کا سناٹا
کوئی آواز دور دور نہیں
(بحوالہ:مسافران راہِ وفا، صفحہ 65)
عباسی صاحب ابھی رکن جماعت نہیں بنے تھے کہ مولانا مودودی ؒ کو قادیانی مسئلے کا بہانہ بنا کر حکومت پاکستان کی طرف سے 11؍ مئی 1953ء کو ایک فوجی عدالت کے ذریعے سزائے موت سنائی گئی۔ اس موقع پر جن لوگوں نے مولانا کے حق میں تحریک چلائی، ان میںنوجوان جان محمد عباسی لاڑکانہ میں پیش پیش تھے۔ وہ وادی پرخار میں رواں دواں تھے اور ان کے جذبے پیہم جواں تھے۔ مولانا عباسی 1955ء میںجماعت کے رکن بن گئے۔ پھر اس کے بعد جلدہی وہ لاڑکانہ اور بعد ازاں خیر پور ڈویثرن کے امیر بنے۔ اس عرصے میں وہ مرکزی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے اور عاملہ میںبھی نامزد کیے گئے۔ پھر جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے کہ امارت صوبہ اور مرکزی نائب امارت کی ذمہ داریاں بھی انھیں سونپی گئیں۔
آج مولانا جان محمدعباسی صاحب پر لکھتے ہوئے مجھے پھر بے ساختہ مولانا جان محمد بھٹو صاحب یاد آرہے ہیں۔ عبدالسلام آرائیںبیان کرتے تھے کہ مولانا جان محمدعباسی کے درس سن کر ہم نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ شخص ابھی راہ گزرمیں ہے اور اس شخص کی منزل کاروان ِ مودودی ؒ ہے۔ چنانچہ ہم نے اسی ارادے سے ان سے قریبی تعلق قائم کیا۔ کچھ زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ مولانا جان محمد عباسی کے گہرے فکری سمندر میں اچانک ارتعاش پیدا ہوا اور انھوںنے جماعت کے کسی نمایاں قائد سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، چنانچہ سندھ کے مودودی مولانا جان محمد بھٹو صاحب سے ان کی ملاقات کرائی گئی۔ بھٹو مرحوم ولی کامل تھے۔ پہلی ہی نظرمیںسلیم الفطرت انسان ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ جان محمدعباسی بھی اسیرِ محبت ہوئے اور قافلہ راہ حق کے ساتھ بادیہ پیمائی شروع کر دی، جو زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہی تاآنکہ وہ منزل پہ پہنچ گئے اور میٹھی نیند سو گئے۔ اللہ ان کی قبر کو جنت باغات میں سے ایک باغ بنا دے۔ آمین!

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں