اللہ اپنے بندوںکو آزمائش میں بھی ڈالتا ہے اور بے پناہ کامیابیوں اور درجات سے بھی نوازتاہے۔ انبیاء کرام کی آزمائش سب سے سخت ہوتی ہے۔ اکثر انبیائ‘ دنیا کی اس زندگی میں ظالم قوتوں کے انکار اور مظالم کی وجہ سے زندگی بھر مشکلات سے گزرتے رہے‘ مگر اپنے مشن میں کبھی ایک لمحے کے لیے بھی کوئی غفلت یا سستی و کمزوری نہیں دکھائی۔ اللہ نے اپنے بعض انبیاء کو دنیوی کامیابی عطا فرمائی اور حکمرانی کے مقام پر سرفراز فرمایا۔ ان انبیا میں بالخصوص سید الاوّلین والآخرین حضور ختم المرسلینﷺ کا مقام بہت بلند ہے۔ آپ سے قبل سیدنا یوسف علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے بے پناہ آزمائشوں سے گزار کر مصر کی حکمرانی عطا فرمائی تھی۔ بنی اسرائیل میں کئی انبیاء کرام ‘ حکومت و خلافت کے منصب پر فائز کیے گئے۔ ان میں سب سے اہم نام حضرت دائود علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہے۔ ان کا دور‘ بنی اسرائیل کی تاریخ میں سنہری دور کہلاتا ہے۔
اللہ رب العالمین نے قرآن ِپاک میں اپنے ان دو جلیل القدر پیغمبروں کا کئی مقامات پر ذِکر کیا ہے۔ ان کے پاس نبوت کا تاج بھی تھا اور سلطنت کا تاج و تخت بھی۔ اُن کی قوت و شوکت اپنے دور میں تمام ہم عصر قوتوں پر فائق تھی‘ مگر پھر بھی اُنہوں نے کبھی تکبر اور غرور نہیں کیا۔ اُن سے معمولی تساہل بھی ہو جاتا‘ تو اللہ سے معافی مانگتے‘ سجدے میں گرتے اور گڑگڑاتے۔جب شان و شوکت اور اپنی قوت کے مناظر دیکھتے ‘تو اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے کہ یہ اللہ کی طرف سے آزمایش ہے۔ وہ ہمیں پرکھنا چاہتا ہے کہ ہم کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔
حضرت دائود علیہ السلام کی سلطنت اور عسکری قوت ایک جانب اور اُن کی عبادت گزاری اور عجز و انکسار دوسری جانب۔ وہ جب اللہ کی تسبیح اور ذِکر میں مشغول ہوتے‘ تو پہاڑ اور پرندے بھی اُن کی تسبیح کی طرف متوجہ ہو جاتے اور کیف و سرور اور محویت کے عالم میں اُن کی آواز میں اپنی آواز ملا دیتے تھے۔
نبی اکرمﷺ کے صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو اللہ تعالیٰ نے لحنِ دائودی عطا فرمایا تھا۔ ترمذی شریف کی روایت کے مطابق حضرت ابوموسیٰؓ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے کہ نبی اکرمﷺ ان کی پشت پر آ کر کھڑے ہو گئے اور تلاوت سنتے رہے‘ پھر آپ نے فرمایا: ''اے ابو موسیٰ ! تجھے آل دائود ﷺ کی خوش الحانی میں سے حصۂ وافر عطا کیا گیا ہے۔‘ ‘
انبیا کرام میں سے جن کو بھی اللہ نے حکومت پر فائز کیا ‘ان کی حکومت خلافت تھی۔آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد خلفائے راشدین کی حکومت ہو گی‘ جو تیس سال تک رہے گی۔ ساتھ ہی آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جس طرح تمہارے لیے میری سنت پر عمل کرنا فرض ہے ‘اسی طرح میرے بعد خلفائے راشدین کے طریقے پر عمل کرنا لازمی ہے۔ قرآن نے اس مضمون کو انبیاء کے حوالے سے حضرت دائود علیہ السلام کے تذکرے میں واضح فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اے دائود! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے‘ لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی‘جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں‘ یقینا ان کے لیے سخت سزا ہے کہ وہ یوم الحساب کو بھول گئے۔‘‘(سورۂ صٓ‘ آیت:۲۶)
حضرت دائود علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ نے اُن کی دعا کے جواب میں ایسی بادشاہت عطا فرمائی‘ جو اُن کے بعد کسی کو نہ عطا کی گئی‘ یعنی ہوا بھی مسخر ہو گئی‘ جن بھی تابع فرمان ہو گئے۔ وہ تمام جانوروں کی بولیاں بھی سمجھتے تھے اور اُن کو حکم بھی جاری کرتے تھے۔ قرآن ان کا تذکرہ کر کے متوجہ فرماتا ہے کہ وہ اتنی قوت کے باوجود حق پرقائم اور انکسار کا نمونہ تھے۔اُن کے مقابلے میں قریش کی کیا حیثیت تھی۔ یہ معمولی قوت و اقتدار پا کر مخمور ہو گئے اور بہک گئے۔
سورہ نمل میں ہدہد کا ذِکر ہے‘ جس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو اطلاع دی تھی کہ دور جنوب کے ملک میں ایک طاقت ور ملکہ حکمران ہے۔ اس کے پاس بڑے وسائل اور سروسامان ہے‘ لیکن وہ ہدایت اور ایمان سے محروم ہے۔ ملکہ اور اُس کی قوم اللہ کی بجائے سورج کی پوجا کرتی ہے۔ اس موقع پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہد ہد کے ہاتھ وہ مشہور خط‘ ملکہ سبا کی طرف بھیجا‘ جس میں اسلام کی دعوت دی گئی تھی۔ خط میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنا تعارف بھی کرایا تھا اور مضبوط مؤقف اختیار کرتے ہوئے اپنی مخاطب ملکہ اور اُس کی قوم کو یہ پیغام دیا تھا کہ سرکشی چھوڑ دیں‘ ملکہ نے خط پڑھتے ہی اپنی کابینہ کا اجلاس بلایا۔ وزراء اور فوجی سپہ سالار اپنی قو ّت کے گھمنڈ میں بدمست تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم بڑے طاقت ور ہیں؛ البتہ آپ جو بھی فیصلہ کریں ‘ ہم مانیں گے۔ملکہ‘ خط کامضمون دیکھ کر اور جس انداز میں خط اُس تک پہنچا تھا‘ اُس کا ادراک کر کے سمجھ گئی تھی کہ خط بھیجنے والا بڑا طاقتور ہے۔ اُس نے کابینہ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بادشاہ اپنے لائولشکر کے ساتھ جب کسی علاقے میں داخل ہو جاتے ہیں‘ تو بڑی خون ریزی اور فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے۔ بستیاں اور شہر برباد ہو جاتے ہیں۔ عزت والے رسوا اور ذلیل کر دیے جاتے ہیں۔ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس بادشاہ کی خدمت میں تحفے تحائف بھیج کر اُسے خوش کر دوں‘ تاکہ وہ حملہ نہ کرے۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ملکہ سبا کا سرکاری وفد پہنچا اور تحفے پیش کیے‘ تو اُنہوں نے فرمایا:''اللہ کے بندو! مجھے ان چیزوں کی ضرورت اور لالچ نہیں۔ مجھے اللہ نے اس سے کہیں زیادہ عطا کیا ہے۔ جائو اپنے تحفے واپس لے جائو۔ اگر میری دعوت قبول نہیں تو پھر مقابلے کے لیے تیار ہو جائو‘‘۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں اس دوران ہد ہد کے بیان کی روشنی میں ملکہ کے تخت کا بڑا چرچا تھا۔ اُنہوں نے اپنے درباریوں سے کہا کہ کون یہ تخت یہاں ملکہ کی آمد سے پہلے لا سکتا ہے ‘تو ایک طاقتور جن نے عرض کیا کہ آپ کی مجلس برخاست ہونے سے پہلے ہی میں تخت لا سکتا ہوں۔ یہاں اللہ رب العالمین نے فرمایا ہے کہ مجلس میں موجود ایک شخص ‘ جس کے پاس الکتاب کا علم تھا‘ نے کہا میں آنکھ جھپکنے سے پہلے ہی وہ تخت پیش کر سکتا ہوں؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب تخت کو اپنے سامنے دیکھا‘ تو اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایا:'' ان انعامات سے اللہ تعالیٰ مجھ کو آزمانا چاہتا ہے کہ میں اُس کا شکر گزار بندہ بنتا ہوں یا ناشکرا اور جب کوئی شکر کرتا ہے‘ تو وہ اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور کوئی ناشکری کرے‘ تو میرا رب بے نیاز اور اپنی ذات میں بزرگ ہے‘‘۔یہ شخص کون تھا ‘جو تخت لے کر آ گیا۔ مفسرین نے مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی ایسی طاقتور شخصیت تھی ‘جو بیٹھے بیٹھے اپنے ہاتھ سے ہزاروں میل دور پڑے ہوئے تخت کو وہاں حاضر کر سکتی تھی۔ حدیث میں نبی کریمﷺ نے حضرت جبریل امین علیہ السلام کو ان کی اصلی شکل میں دیکھنے کا جو نقشہ پیش کیا ہے ‘تو وہ اُفق تا اُفق اپنے پر پھیلاے ہوئے تھے اور الکتاب کا علم بھی اللہ نے اُنہی کو عطا فرمایا ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ یہ جبریل امین علیہ السلام ہوں‘ جنہیں اللہ نے اس کام پر لگایا ہو۔واللہ اعلم بالصّواب۔
ادھر ملکہ دوسرا پیغام ملنے کے بعد اپنے منتخب درباریوں کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے چل پڑی تھی۔ آپ کا محل اتنا شان دار تھا کہ اُس میں شیشے کا چمکتا فرش لگا تھا‘ جسے بظاہر نظر دیکھ کر یہ معلوم ہوتا تھا کہ پانی کا حوض ہے۔ ملکہ نے اُسے پانی کا حوض ہی سمجھااور اپنے پائنچے اُوپر اُٹھانا چاہے‘ مبادا پانی میں بھیگ جائیں ‘مگر اُسے بتایا گیا کہ یہ شیشے کا شفاف فرش ہے۔ اس موقع پر ملکہ نے اپنے کفر و شرک کے عقیدے سے برأت کا اظہار کیا اور اللہ رب العالمین پر ایمان لانے کا اعلان کر دیا۔
ملکہ سبا کا قبولِ اسلام ‘سورہ نمل کا اہم موضوع ہے۔ بعض لوگ زیب ِ داستان کے لیے بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سے شادی کر لی تھی۔ قرآن و حدیث سے اس بارے میں کوئی اشارہ نہیں ملتا؛ البتہ اسرائیلی روایات میں اس قدر گند ہے کہ بیان کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔بعید نہیں کہ آپ نے ملکہ سے شادی کر لی ہو‘ مگر اس کا کوئی مصدقہ ذریعہ ہمارے علم میں نہیں۔خیر یہاںملکہ سے نکاح کا معاملہ کوئی مرکزی مضمون نہیں۔ آپ نے اگر اس سے نکاح کیا ہو‘ تو اس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ ملکہ ایک شریف النفس اور باعفت خاتون تھیں۔