ہجرت کے کٹھن سفر میں آنحضورﷺ کو جو خطرات درپیش تھے‘ وہ کسی بیان کے محتاج نہیں‘ لیکن اہم بات یہ ہے کہ قدم قدم پر اللہ کی نصرت شاملِ حال رہی۔ حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ بیان کرتی ہیں کہ آپ کے مکہ سے چلے جانے کے کچھ دن بعد لوگوں نے بلدالحرام کے نشیبی علاقے سے کسی کے اشعار سنے۔ شعر کہنے والا تیزی کے ساتھ بالائی مکہ کی طرف بڑھ گیا‘ مگر وہ کسی کو نظر نہیں آیا۔ کیا معلوم یہ اشعار کسی مسلمان جن نے پڑھے ہوں یا اللہ کے کسی مقرب فرشتے نے۔ اس وقت تک آنحضورﷺ ریگستان میں پہنچ چکے تھے اور ابومعبد کے خیمے میں آپ نے استراحت فرمائی تھی۔
مؤرخین نے جو اشعار اس موقع پر نقل کیے ہیں‘ وہ کم و بیش تمام کتب ِسیرت میں موجود ہیں۔ ابن ِسعد جلد اول میں صفحات ۲۲۹ اور ۲۳۱و ۲۳۲ پر یہ اشعار لکھے ہیں ‘ جبکہ ابن ہشام نے السیرۃ النبویۃ القسم الاول میں ان اشعار کا تذکرہ صفحہ ۴۸۷ پر کیا ہے۔ یہ پوری نظم بہت متاثر کن اور فصاحت وبلاغت کا بہترین نمونہ ہے‘ مگر ہم یہاں پوری نظم تو نہیں لکھ سکتے‘ البتہ دو اشعار نذرِ قارئین کر رہے ہیں۔
جَزَی اللّٰہُ رَبُّ النَّاسِ خَیْرَ جَزَائِہٖ
رَفِیْقَیْنِ حَلَا خَیْمَتَیْ اُمِّ مَعْبَدٖ
لَیُہْنِ بَنِیْ کَعْبٍ مَکَانَ فَتَاتِہِمْ
وَمَقْعَدَھَا لِلْمُؤْمِنِیْنَ بِمَرْصَدٖ
اللہ ‘تمام انسانوں کا پروردگار‘ ان دونوں ساتھیوں کو اپنی جانب سے بہترین اجر عطا فرمائے‘ جو دونوں ام معبد کے دو خیموں میں فروکش ہوئے۔ بنی کعب (کی شاخ بنو خزاعہ) کو مبارک ہو‘ انہیں اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ ان کا زنان خانہ اور مردانہ بیٹھک (سبھی خیر و برکت سے مالا مال ہیں کہ وہ) اہلِ ایمان کے لیے انتظار گاہ اور قیام گاہ کا کام دیتے ہیں۔
ام معبد کا نام عاتکہ بنت خالد بن منقذ اور ابومعبد کا نام اکتم بن عبدالعزیٰ بن منقذ تھا۔ وہ آپس میں چچا زاد تھے۔ یہ خوش بخت میاں بیوی اسلام میں داخل ہوئے اور صحابہ میں ان کو بڑا مقام حاصل ہوا۔ ام معبد کے خیمے پر آپﷺ کی آمد اور اس کے حالات تاریخ‘حدیث اور معجزات کی کتب میں بہت ایمان افروز انداز میںبیان ہوئے ہیں۔علامہ ابن ِکثیر البدایۃ والنہایہ میں تحریر فرماتے ہیں ''آنحضورﷺ ‘ سیدنا ابوبکر صدیقؓ ‘ عامر بن فہیرہؓ اور اپنے رہنمائے سفر عبداللہ بن اریقط کے ہمراہ وسیع وعریض صحرا میں اس خیمے پر پہنچے‘ تو دیکھا کہ ایک عمر رسیدہ خاتون وہاں بیٹھی ہیں۔ ایک خیمہ اس خاندان کی رہائش گاہ تھا اور دوسرا خیمہ آنے جانے والوں کے لیے بطور مہمان خانہ استعمال ہوتا تھا۔ دوسرے خیمے میں ایک مریل سی بکری بھی ایک کھونٹے کے ساتھ ایک کونے میں بندھی ہوئی تھی۔ مسافرانِ راہِ وفا کا یہ قافلہ بھوک‘ پیاس محسوس کر رہا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اس خاتون کے پاس سے کھانے پینے کے لیے کچھ چیزیں قیمتاً مل جائیں گی۔ آپﷺ نے اس سے گوشت اور کھجور خریدنا چاہی‘ مگر اس کے پاس یہ سامانِ تجارت نہ تھا۔ قبیلہ قحط سالی اور بھوک کا شکار ہوچکا تھا۔ آنحضورﷺنے خیمے کی چوب سے ایک بکری بندھی ہوئی دیکھی اور پوچھا: ''ام معبد! تم نے یہ بکری یہاں کیوں باندھ رکھی ہے؟‘‘ اس نے کہا: ''یہ کمزور اور بیمار ہے۔ یہ ریوڑ کے ساتھ جا نہیں سکتی‘ اس لیے یہیں ہے۔‘‘ آپﷺ نے پوچھا: ''کیا یہ دودھ دیتی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ''یہ بے چاری کیا دودھ دے گی‘ یہ تو جان سے عاری سمجھیں۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ''کیا مجھے اجازت ہے کہ میں اسے دوہ لوں؟‘‘ اس نے کہا: '' اگر آپﷺ کو دودھ کہیں نظر آتا ہے‘ تو دوہ لیجیے۔‘‘آپﷺ نے اس کمزور بکری کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا اور بسم اللہ پڑھی اور بکری کو پیار سے پچکارا۔ خدا کی قدرت سے اس کے خشک تھنوں میں دودھ اتر آیا اور وہ دودھ سے خوب پھول گئے۔ آپﷺ نے ایک بڑا برتن طلب کیا۔ یہ برتن اتنا بڑا تھا کہ سب حاضرین کے لیے کافی تھا۔ آپﷺ نے اس میں دودھ دوہنا شروع کیا اور برتن پوری طرح بھر گیا اور اس کے اوپر سفید جھاگ آگیا۔ آپﷺ نے سب سے پہلے ام معبد کو پلایا‘ وہ خوب سیر ہوگئی‘ پھر آپﷺ نے اپنے صحابہؓ کو پلایا‘ انہوں نے سیر ہوکر پی لیا ‘تو سب سے آخر میں آپﷺ نے خود نوش فرمایا۔برتن خالی کرنے کے بعد آپﷺ نے دوبارہ بکری دوہی اور پھر برتن بھر گیا۔ آپﷺ نے وہ بھرا ہوا برتن‘ ام معبد کے پاس چھوڑا‘ اس سے اسلام کی بیعت لی اور پھر وہاں سے منزل کی جانب چل پڑے۔ ام معبد اب مسلمان ہوچکی تھی۔ کچھ دیر کے بعد ابومعبد جنگل سے بکریوں کو ہانکتا ہوا واپس لوٹا۔ قحط کی وجہ سے بکریاں خالی پیٹ اور لاغر تھیں۔ ابومعبد نے دودھ دیکھا‘ تو حیران ہو کر پوچھا: ''ام معبد! یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟‘‘ گھر میں بیمار اور خشک بکری ہے اور کوئی جانور دودھ دینے والا نہیں ہے۔‘‘ام معبد نے کہا: ''خدا کی قسم! یہ معاملہ بڑا عجیب ہے۔ ایک بابرکت آدمی کا یہاں سے گزر ہوا‘ جس کا حلیہ یوں تھا اور اوصاف یوں تھے۔‘‘ (ام معبد نے حضورﷺکے بارے میں طویل گفتگو کی‘ جس میں حقیقت بیان کی گئی تھی)۔ ابومعبد نے کہا: ''مزید صفات اس مبارک ہستی کی بیان کرو۔‘‘ ام معبد نے مزید حالات تفصیلاً بیان کیے۔ ہم یہاں اختصار کے ساتھ اس عظیم خاتون کی بیان کردہ صفاتِ نبویؐ کا تذکرہ اپنی سعادت سمجھ کر نذرِ قارئین کر رہے ہیں:۔
ام معبد نے فرمایا: ''اس مہمانِ مکرم کا کیا پوچھتے ہو۔ خدا کی قسم! وہ سرتاپا خوبیوں کا مالک تھا۔ پاکیزہ روح‘ کشادہ و خنداں چہرہ‘ بھرے ہوئے گال‘ پسندیدہ خصلت‘ خوبصورت جسم‘ نہ پیٹ بڑھا ہوا‘ نہ سر کے بال گرے ہوئے۔ دیکھنے میں صاحبِ جمال‘ اخلاق میں صاحبِ کمال‘ زیبا رو‘ سیاہ اور فراخ آنکھیں جن میں سرخ ڈورے حسن کو چار چاند لگا رہے تھے۔ پلکوں پر لمبے اور گھنے بال‘ آواز میں رُعب اور وقار‘ گردن بلند‘ قد متناسب نہ بہت لمبا ‘ نہ پستہ قامت۔ باریک و نفیس ابرو‘ سیاہ گھنگریالے بال‘ جب خاموش ہوتے تو وقار جھلکتا‘ جب بولتے‘ تو پھول جھڑتے۔ دُور سے نظر آتے‘ تو حسن نمایاں ہوتا‘ قریب سے دیکھتے تو حسن اور دوبالا ہوجاتا۔ لب انتہائی نرم و نازک اور ازحد خوبصورت‘ گفتگوواضح‘ کلام شیریں‘ ہر لفظ الگ الگ موتیوں کی طرح منہ سے نکلتا اور کانوں میں رس گھول دیتا۔ غرض پوری گفتگو موتیوں کی لڑی کے مشابہہ۔ نظریں جھکاتے‘ تو حسن اور بڑھ جاتا‘نظریں اٹھاتے تو روشنی پھیل جاتی۔اس کے ساتھی ایسے باوفا و اطاعت شعار کے اس کے اشارۂ ابرو کو سمجھتے اور ہر وقت اس کے گردوپیش رہتے۔ جب کوئی حکم دیتا تو تعمیل کے لیے لپکتے‘ وہ نہ کوتاہ سخن تھا‘ نہ فضول گو۔ نہ کسی وقت ترش روئی کرتا‘ نہ ٹھٹا مذاق کرتا۔ سر تاپا حسن ہی حسن! ‘‘۔ ابومعبد نے یہ سن کر کہا: ''خدا کی قسم! یہ تو صاحب قریش ہیں‘ جن کے بارے میں ہم نے کافی مرتبہ سن رکھا ہے کہ وہ مکہ میں مبعوث ہوچکے ہیں۔ میں نے مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ ان کی صحبت اختیار کروں گا۔ مجھے موقع ملا تو ضرور ان کی خدمت میں حاضری دوں گا۔‘‘اب پروانے کو شمع کی تلاش نے بے قرار کردیا۔ وہ اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا اور منزل مقصود پالی!۔
جیسا کہ ہم اس سے قبل لکھ چکے ہیں‘ مورخین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ آنحضورﷺکی روانگی سے قبل ‘ام معبد نے آپ پر ایمان لا کر درجۂ صحابیت حاصل کرلیا تھا۔ابن ِکثیر کے مطابق ام معبد اور ابو معبد دونوں ہجرت کرکے آپ ﷺکے پاس مدینہ منورہ آگئے اور پھر زندگی بھر وہیں آنحضورﷺکے ساتھ ہی رہے۔ جب ابو معبد نے ام معبد کی زبانی آنحضورﷺ کی صفات سنیں‘ تو فوراً آپﷺ کے پیچھے روانہ ہوگئے۔ راستے ہی میں آپﷺ سے ملاقات کی۔ آپﷺ پر ایمان لائے اور پھر واپس اپنے خیمے کی طرف چلے گئے۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے ہجرت کی۔ اوپر کے واقعات میں زیادہ تر البدایۃ والنہایۃ سے ہم نے محض خلاصہ پیش کیا ہے‘ تفصیلات البدایۃ والنہایۃ‘ طبقات ابن سعد‘ سیرۃ ابن ہشام‘ السیرۃ الحلبیۃ‘ اور ''رسول ِرحمتﷺ‘ مکہ کی وادیوں میں‘‘ دیکھی جاسکتی ہیں۔
عرب کے درّیتیم کی زندگی کا ہر لمحہ سبق آموز اور ایمان افروز ہے۔ یہ مقام پوری کائنات میں آپﷺ ہی کو حاصل ہے۔ اس میں کوئی دوسرا آپﷺ کا ثانی نہیں۔ آپ کے قبیلے کے ظالم سرداران نے آپؐ کو ختم کرنا چاہا‘ تو ان کے مظالم سے تنگ آکر آپﷺ نے گھربار چھوڑا۔ ان کٹھن گھڑیوں میں بھی قدم قدم پر فتوحات نے آپﷺکے قدم چومے۔ غارِ ثور میں بیتے ہوئے لمحات ‘اللہ کی نصرت اور معجزاتِ نبوی سے مالا مال ہیں۔ ام معبداور ابومعبد کا خیمہ اور ان کی بکری کا دودھ‘ اللہ رب العالمین کی طرف سے عظیم عطیہ ہے۔ سراقہ کی مہم جوئی اور ناکامی‘ پھر آنحضورﷺ کا اسے معافی دینا اور تحریری امان عطا فرمانا‘بھی معجزات میں شمار ہوتا ہے۔ اسی راستے میں آنحضورﷺ ‘حضرت ابوبکرصدیقؓ کے ساتھ ام معبد کے خیمے سے نکل کر اگلی منزلیں طے کررہے تھے‘ تو بھی قدم قدم پر اللہ کی نصرت شامل حال تھی۔ سلامتی اور سعادت کی بشارتیں مل رہی تھیں۔ مطالعۂ سیرت کے دوران ہر قدم پر محسوس ہوتا ہے کہ آنحضورﷺ کی مبارک رفاقت حاصل ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آنحضورﷺ کی سنتِ مطہرہ کے اتباع کی توفیق عطافرمائے!۔ آمین