کفار کے تین سوال اور قرآن کا جواب…(1)

نبی اکرمﷺنے جب دعوت کا آغاز کیا‘ تو کفر کی صفوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اس کے نتیجے میں مشرکین ِ مکہ نے آنحضورﷺ اور آپؐ کے مٹھی بھر صحابہ و صحابیات کو ناقابل بیان آزمائشوں میں ڈالا‘ مگر ایمان کی حرارت کبھی ماند نہ پڑی۔ سردارانِ قریش کے یہودانِ مدینہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ یہ مکہ اور یثرب دونوں شہروں میں محفلیں جماتے تو میزبان اور مہمان شراب و کباب اور چنگ و رباب سے دل بہلاتے۔ قریش مکہ کی طرح یہودی بھی آنحضورﷺ کی بعثت پر آتش زیر پا تھے۔ بزعمِ خویش وہ سمجھتے تھے کہ آخری نبی ‘بنی اسرائیل میں سے آئے گا۔ جب وہ بنی اسماعیل میں سے آ گیا ‘ تو یہ بدبخت حق کو پہچانتے ہوئے بھی اس کے منکر ہو گئے۔ 
انہوں نے کفارِ مکہ کو کئی بار پٹی پڑھائی کہ آنحضورﷺ سے سوال کریں۔ سورہ یوسف کا پس منظر بھی یہی تھا کہ یہودیوں نے آپؐ کے دشمنوں کو کہا تھا کہ یہ اچھا موقع ہے کہ تم محمدؐ سے ایک سوال کرو‘ وہ اس کا جواب نہ دے پائیں گے۔ سوال یہ تھا کہ تم بنی اسرائیل کے مصر میں ہونے اور ان کی غلامی کا تذکرہ کرتے ہو۔ یہ کہاں کی منطق ہے‘ بنی اسرائیل کا وطن فلسطین ہے‘ نہ کہ مصر۔ اس سوال کے جواب میں سورہ یوسف کا نزول ہوا‘ جس میں نہ صرف سوال کا شافی جواب دیا گیا ‘بلکہ آنحضورﷺ کے دشمنوں پر بھی واضح کر دیا گیا کہ ان کا مقدر برادرانِ یوسف کی طرح ناکامی و ذلت ہے اور نبیٔ برحقﷺ کے نصیب میں کامیابی و کامرانی ہے۔ اس فاش شکست کے باوجود اسلام دشمنوں نے ملی بھگت کر کے آنحضورﷺسے تین مزید سوال برائے امتحان پوچھے۔ یہودیوں نے کفارِ مکہ سے کہا؛ محمدؐ سے تین سوال کرو۔ وہ جواب نہیں دے سکے گا اور اس کی ناکامی سارے عرب میں مشہور ہو جائے گی۔ وہ تین سوال یہ تھے:
۱-اصحابِ کہف کون تھے؟
۲-قصۂ موسیٰ و خضر علیہ السلام کی حقیقت کیا ہے؟
۳-ذوالقرنین کون تھا؟
اہلِ عرب کے کہانی قصّے‘ تاریخ اور شعر و ادب ان تینوں موضوعات کے بارے میں مکمل طور پر خاموش تھے؛ البتہ یہود و نصاریٰ کی کتب میں اُن کا تذکرہ موجود تھا‘ چونکہ مشرکین کا خیال تھا کہ محمدﷺخود یہ مضامین گھڑتے ہیں یا کسی دُوسرے انسان سے سیکھ کر بیان کرتے ہیں۔اس لیے وہ اس نوعیت کے سوالات کرتے رہتے تھے۔ ان کا زعمِ باطل یہ تھا کہ آپؐ کسی سے پوچھیں گے ‘تو آپؐ کا راز فاش ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان تینوں سوالوں کا جواب دیا ہے‘ بلکہ پہلے بیان کردہ سوال کی طرح تینوں سوالوں کے جواب میں معاندین ِاسلام کو بے نقاب بھی کر دیا ہے۔ تینوں واقعات میں عبرت کے پہلو بھی ہیں اور اللہ کے فرمانبردار اور نافرمان لوگوں کے کردار کا موازنہ بھی۔ 
تینوں سوالوں کے جواب دیتے ہوئے سب سے پہلے اللہ نے اصحابِ کہف کے بارے میں فرمایا کہ وہ چند نوجوان تھے‘ جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے اُن کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔ ان نوجوانوں کا واقعہ دقیانوس (جو249ء سے 251ء تک سلطنت ِروم پر حکمران رہا) کے دور میںرونما ہوا۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں پر ظلم و ستم ڈھانے میں بہت بدنام تھا۔ اُس کے مظالم کی وجہ سے لوگ شرک اور بت پرستی میں مبتلا ہو گئے تھے‘ لیکن ان نوجوانوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے آپس میں عہد باندھا ۔ وہ بڑے پرعزم لوگ تھے۔ شہر اور بستیاں جب اہلِ ایمان پر تنگ ہو گئیں‘ تو اُنہوں نے گھربار چھوڑ کر ایک غار میں پناہ لی۔ وہاں اُنہوں نے اللہ سے دعا مانگی: ''اے پروردگار ہم کو اپنی رحمتِ خاص سے نوازا اور ہمارے معاملے کو درست کر دے‘‘۔ چنانچہ اللہ نے اُنہیں سالہا سال اس غار میں گہری نیند سلائے رکھا۔
قیامِ غار کی یہ مدّت کتنی تھی؟ اللہ نے فرمایا کہ یہ طویل مدت تھی ‘لیکن اہم بات یہ نہیں ہے کہ اس مدّت کا تعین کیا جائے‘ نہ ہی یہ اہم ہے کہ اُن کی تعداد پر بحث کی جائے۔ اہم یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے اُنہوں نے یہ راہِ عزیمت اپنائی تھی‘ اُس پر نظر رکھی جائے۔ تعداد کے بارے میں بھی ارجح رائے یہ ہے کہ یہ سات نوجوان تھے اور آٹھواں اُن کا کتا تھا‘ جو اُن کے ساتھ غار کے دھانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا اور وہ منظر ایسا تھا اگر اس جانب جانے والا کوئی وہاں جاتا ‘تو اُس پر دہشت اور ہیبت چھا جاتی اور وہ اُلٹے پائوں بھاگ کھڑا ہوتا۔ 
قیامِ غار کا زمانہ تین سو سال سے زائد ہے۔ارجح یہ ہے کہ تین سو نو سال کا عرصہ ہے۔
مولانا مودودیؒ کی تحقیق کے مطابق یہ زمانہ 196سال بنتا ہے۔ مولانا نے بیان کیا ہے کہ قیصر تھیوڈوسیس کی سلطنت کے 38 ویں سال میں445ء یا 446ء میں یہ بیدار ہوئے۔ اس عرصے میں ساری رومی سلطنت مسیح کی پیروکار بن چکی تھی۔ اس طرح غار میں رہنے کی مدّت تقریباً 196 سال بنتی ہے۔ اس غار کے کھنڈرات ترکی کے موجودہ شہر ازمیر (سمرنہ) سے بیس پچیس میل جنوب کی جانب پائے جاتے ہیں۔
اللہ فرماتا ہے کہ جب یہ لوگ غار میں سوئے ہوئے تھے‘ تو ہم اُنھیں دائیں بائیں کروٹ بدلواتے رہتے تھے اور سورج بھی جب نکلتا تو اُن کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا اور جب غروب ہوتا تو اُن سے بچ کر بائیں جانب اُتر جاتا۔ ان لوگوں کو اللہ نے ایک معجزہ قرار دیا ہے۔ جب سال ہا سال کے بعد یہ بیدار ہوئے اور کھانا حاصل کرنے کے لیے اپنے کسی ساتھی کو شہر بھیجا تو اُس کے پاس جو سکہ تھا‘ اُسے دیکھ کر نان بائی چونک اُٹھا۔ بعض لوگوں کو یہ خیال گزرا کہ اس نوجوان کے ہاتھ کوئی پرانا دفینہ آ گیا ہے‘ جبکہ حقیقت کو جاننے والے‘ جو نسلاً بعد نسلٍ غائب ہو جانے والے سات نوجوانوں کا قصہ سنتے چلے آ رہے تھے‘ سمجھ گئے کہ یہ اُن میں سے کوئی ایک ہو گا۔ اُس وقت تک رومی سلطنت عیسائیت اختیار کر چکی تھی۔ اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات سے وہ بھی انحراف کر چکے تھے اور غلو میں مبتلا ہو چکے تھے۔ عیسیٰ علیہ السلام اور اُن کی والدہ کو اُلوہیت میں شریک کر کے تثلیث کے قائل یہ لوگ بت پرست اور قبر پرست بھی بن چکے تھے‘ لیکن سلطنت کا سرکاری مذہب مسیحیت تھا۔
جب راز کا انکشاف ہوا تو بادشاہ اور اُس کے درباری اس غار کے دھانے پر آئے اور اُن نوجوانوں کاحال احوال معلوم کیا‘ لیکن اس گفتگو کے دوران ہی اللہ نے اُنہیں طبعی موت کی نیند سلا دیا۔ اُن کی زندگی میں گمراہی کی صورت یہ تھی کہ توحید پرستوں پر ظلم ڈھایا جاتا تھا۔ اب گمراہی کی ایک دوسری صورت تھی اور وہ یہ کہ اُن کو تقدس مآب بنا کر اُن کی قبریں سجدہ گاہ بنانے کا فیصلہ ہوا۔ آیت نمبر21 میں اللہ نے بیان فرمایا ہے: ''جو لوگ اُن کے معاملات پر غالب تھے۔ اُنہوں نے کہا ہم تو اُن پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے‘‘۔ اس سارے واقعے کو اللہ نے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے اللہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ قیامت کے برپا ہونے میں جن لوگوں کو شک ہے‘ اُن کی آنکھیں کھل جائیں ‘لیکن لااُبالی پن کی وجہ سے انسان ہمیشہ حقیقت سے آنکھیں موند لیتا ہے۔اس واقعے میں سوال پوچھنے والوں کے لیے بھی عبرت کا سامان ہے کہ اس ظالم بادشاہ کی طرح یہ بھی اہلِ ایمان پر سرزمین تنگ کرتے جا رہے ہیں۔ غار والے نوجوانوں نے بھی اپنے دِین کی حفاظت کے لیے گھر بار چھوڑ دیے تھے۔ اب بھی اہلِ ایمان اس مشکل گھاٹی کو عبور کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں‘ کچھ حبشہ پہنچ چکے ہیں اور باقی بھی تیار ہیں۔ یہاں اللہ ان کی اسی طرح حفاظت کر رہا ہے‘ جس طرح اس نے اصحابِ کہف کے لیے اہتمام فرمایا تھا۔
قصۂ موسیٰ و خضر علیہ السلام پر بھی قرآن نے سوال کرنے والوں کو آئینہ دکھایا ہے اور حق کی خاطر ظلم برداشت کرنے والوں کو حوصلہ دیا ہے کہ بظاہر کوئی بات تکلیف دہ ہوتی ہے‘ مگر اللہ کی کیا حکمت اس میں پنہاں ہے‘ یہ اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بظاہرایک واقعہ شر ہوتا ہے‘ مگر اس کے نتائج ثابت کرتے ہیں کہ وہ شر نہیں خیر تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات ایک بڑا عظیم الشان تاریخی واقعہ ہے۔ 
اس پورے واقعہ کا خوبصورت تذکرہ سورہ الکہف میں آیا ہے۔اس کی تمہید یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب کارِ نبوت سونپا گیا‘ تو بڑے کٹھن مرحلے درپیش تھے۔ اُنہیں اللہ رب العالمین نے حکم دیا کہ وہ مصر سے سوڈان کی طرف سفر کریں‘جہاں دو دریا آپس میں ملتے ہیں ‘وہاں ایک شخص ملے گا‘ جس کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کچھ وقت گزارنے کا حکم ہوا۔اس مقام کی جو نشانی بتائی گئی تھی‘ وہ یہ تھی کہ مچھلی جو بھونی ہوئی ہے‘ وہ اس مقام پر تھیلے سے نکل کر دریا میں چھلانگ لگا دے گی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خادم نے جب اس کے بارے میں بتایا تو فرمانے لگے ‘یہی وہ مقام ہے‘ جہاں ہمیں ہمارا مطلوبہ شخص ملنے کا اشارہ دیا گیا تھا؛ چنانچہ وہاں اُن کی ملاقات خضر علیہ السلام سے ہوئی۔ (جاری ہے)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں