اہل ایمان ذرا غور کیجیے!

وطن عزیز میں سیرت النبیﷺ کا ایمان افروز تذکرہ ہر جگہ ہو رہا ہے اور اسی دیس میں ایک عجیب جنگ بھی جاری ہے۔ سیاست دان ایک دوسرے پر دن رات رکیک حملے کر رہے ہیں۔ خدا کے لیے سوچیں کہ ہم سب محمد عربیﷺ کا کلمہ پڑھنے والے ہیں، پھر غیر اسلامی روش ہمیں کہاں زیب دیتی ہے۔ ہر ایک کی گردن میں سریا ہے، کوئی بھی اپنا محاسبہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اللہ اس ملک پر رحم فرمائے!
کبر و غرور بندۂ مومن کا شیوہ نہیں ہوتا۔ مومن اس شاخِ شجر کی طرح ہوتا ہے جو پھل سے لدی ہو‘ وہ ہمیشہ نیچے جھکی ہوتی ہے۔ مومن کے دل میں سچا ایمان ہو تو عجزوانکسار اس کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے، کبروغرور سے اس کا کیا واسطہ؟ اللہ رب العالمین نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انسان کے لیے سب کچھ مسخر کردیا گیا۔ قرآنِ مجید میں انسان کے لیے تسخیرِ کائنات کاجگہ جگہ تذکرہ ملتا ہے، بالخصوص سورۂ نحل میں جانوروں سے لے کر دن رات، شمس و قمر اور نجوم و کواکب، دریا و سمندر، خشکی کے جانور اور آبی حیات، سمندری جہاز، ہوا اور بادل غرض ارض و سما کی ہر چیز کو انسان کے لیے مسخر کرنے کا ایمان پرور بیان موجود ہے۔ ان سب کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ نے فرمایا: ''اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گِن نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘ (النحل16:18) 
جس انسان کے لیے یہ مقامِ بلند متعین کیا گیا اور جسے کلامِ ربانی سے بذریعہ وحی نوازا گیا، اسے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا کہ انسان ہونے کے ناتے اس کی عزت اور نجات کا دارومدار بندگیٔ رب پر منحصر ہے۔ غرور و تکبر بندے کو ہر گز زیب نہیں دیتا۔ اس سے ہزاروں سال کی عبادت بھی تباہ وبرباد ہوجاتی ہے۔ عاجزی اور انکسار انسان کی عظمت کی دلیل ہے اور یہی اہل اللہ کی شان ہے۔ دنیا کی یہ زندگی امتحان گاہ ہے اور اس امتحان کا نتیجہ آخرت میں سامنے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں تکبر کرنے والوں اور زمین میں فساد پھیلانے والوں کو ناکام قرار دیا ہے جبکہ خوفِ خدا کے جوہر سے مالا مال خوش نصیب بندوں کو کامیابی کی بشارت دی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ''وہ آخرت کا گھر تو ہم اُن لوگوں کے لیے مخصوص کر دیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں اور انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے‘‘۔ (القصص28:83) 
اس آیت سے قبل پورا ایک رکوع قارون اور اس کی ظاہری شان و شوکت کی نقشہ کشی کرتا ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں اور دنیا کے ہر خطے میں فرعون و نمرود اور ہامان و قارون موجود رہے ہیں۔ اگرچہ یہ متعین و معلوم تاریخی شخصیات کے نام ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک مخصوص ذہنیت و کردار کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ ہر دور اور ہر ملک میں موجود ہوتے ہیں، کوئی بڑا فرعون تو کوئی چھوٹا۔ ان کے مقابلے پر اللہ اپنے کسی خاص بندے کو کھڑا کر دیتا ہے، اسی لیے ضرب المثل ہے کہ ''ہر فرعونے را موسیٰ‘‘۔ نبیِ مہربانﷺ قائدِ بشریت، سید الرسل اور خاتم الانبیاء ہیں۔ آپؐ کی حیاتِ مبارکہ کا ایک ایک لمحہ نورِ مجسم اور اسوۂ ہدایت ہے۔ آپؐ کو اللہ نے وہ مقام دیا جو کسی اور کو نصیب نہ ہوا لیکن قربان جائیں ختمی مرتبتﷺ پر کہ آپؐ سادگی، عجزو انکسار اور غریب پروری کے ایسے مقام پر نظر آتے ہیں جس پر عقل حیران رہ جاتی ہے اور دل اَش اَش کر اٹھتا ہے۔ آپؐ جس دور میں فاتح اور حکمران کی حیثیت سے پورے عرب میں غالب اور ساری دنیا میں مشہور ہوگئے تھے‘ اس وقت بھی آپؐ کا عجز اور سادگی دلوں کو مسخر کر لیا کرتی تھی۔ 
ایک مرتبہ کوئی بدو آپؐ سے ملنے کے لیے آیا تو اس پر شانِ نبوت کا رعب طاری ہوگیا اور وہ کانپنے لگا۔ آپؐ نے بدو کی اس کیفیت کو دیکھ کر محبت بھرے لہجے میں اس سے فرمایا: ''خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں (دنیا کے بادشاہوں کی طرح) بادشاہ نہیں ہوں۔ مجھے تو قریش کی ایک خاتون نے جنم دیا جو اتنی سادہ زندگی گزارتی تھیں کہ خشک گوشت پکا کر کھالیتی تھیں‘‘ (مستدرک)۔ اس طرح کے بہت سے واقعات آنحضورﷺ کی سیرت میں ملتے ہیں۔ آپؐ کے گھر میں فقرو فاقہ کا منظر سب صحابہ کرامؓ پنی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ آپؐ کی سادہ زندگی سے بعض اوقات صحابہ کرامؓ دل میں کڑھتے تھے کہ آپؐ پُر مشقت زندگی گزارتے ہیں۔ ایک مرتبہ گرمیوں کی دوپہر کو آپؐ کھجور کی بنی ہوئی چٹائی پر استراحت فرما تھے۔ گرمی کی وجہ سے آپؐ نے کرتا مبارک اتار رکھا تھا۔ آپؐ کے جسمِ اطہر پر چٹائی کے نشانات نظر آرہے تھے۔ ایسے میں آپؐ کے جاں نثار عمرؓ بن خطاب خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپؐ کے جسم پر چٹائی کے نشانات دیکھ کر بے اختیار آبدیدہ ہوگئے۔ حضرت عمرؓ جیسے مضبوط اعصاب کے مالک کو جب آنحضورﷺ نے یوں غم زدہ دیکھا تو پوچھا: ''عمر! تم کس بات پر پریشان ہو‘‘؟ عرض کیا: ''اے اللہ کے رسولؐ ! قیصر وکسریٰ عیاشی میں زندگی گزاریں اور آپؐ یوں مشقت کا سامنا کریں، یہ چیز ہمارے لیے پریشان کن ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ''اے عمر! کیا تم اس چیز کو پسند نہیں کرتے کہ ان کے لیے فانی دنیا کی عیش و عشرت ہے اور ہمارے لیے دائمی زندگی کے لا زوال انعامات ہیں‘‘۔ 
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو پوری انسانیت اور بالخصوص آپؐ کی امت کے سامنے بطورِ مثال پیش کرنا تھا ورنہ دولت کی ریل پیل جو اللہ کے باغیوں کو نصیب ہوتی ہے‘ وہ اللہ کے پیارے رسولؐ کو کیوں نہ ملتی۔ آپؐ فقروفاقہ کی اس زندگی پر راضی اور خوش تھے۔ آپؐ نے خود ہی اس کا انتخاب بھی کیا تھا۔ آپؐ کی انہی عملی مثالوں اور تعلیمات کا اثر تھا کہ آپؐ کے جانشین خلیفۂ اول ابوبکر صدیقؓ خلیفۃ المسلمین ہونے کے باوجود ایک بیوہ خاتون اور اس کی یتیم بچی کے لیے اس کی بکریوں کا دودھ نکالا کرتے تھے۔ یہ اسی تربیت کا اثر تھا کہ دنیا کے عظیم فاتح اور ہیبت وشوکت میں بے مثال مرتبے کے مالک عمرؓ بن خطاب بیت المال کے اونٹوں کا معائنہ کرنے کے بعد‘ گرمیوں کے دنوں میں دوپہر کے وقت مدینہ سے باہر کسی درخت کے نیچے اپنے ہاتھ کا سرہانا بنائے محوِ استراحت ہوجایا کرتے تھے۔ قیصر روم کا نمائندہ آپؓ کی خدمت میں مدینہ آیا تو آپ کے محل کو تلاش کر رہا تھا۔ جب اسے بتایا گیا کہ خلیفۂ راشد چراگاہ کی طرف جارہے تھے تو وہ اسی طرف چل دیا۔ جب وہ چراگاہ میں داخل ہوا تو درخت کے نیچے زمین پر سوئے ہوئے فاتح فارس و روم کی اس سادگی اور خاکساری سے اس پر ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ تھر تھرکانپنے لگا۔
یہ اسی تربیت اور مدرسۂ نبوی کا فیضان تھا کہ سیدنا عثمانؓ بن عفان‘ جن کی دولت، سخاوت اور فیاضی ضرب المثل تھی، خلیفہ بننے کے بعد ایسی سادہ زندگی گزارنے لگے تھے کہ کپڑوں کے صرف دو جوڑے زیر استعمال رہتے تھے۔ ایک دھلنے کے لیے اتارتے تو دوسرا پہنتے۔ سواری کے لیے صرف دو اونٹ رکھے ہوئے تھے جو مدینہ سے مکہ کے سفر اور واپسی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ باقی ساری دولت راہِ خدا میں صَرف کردی تھی۔ ایک وسیع و عریض سلطنت کے حکمران اس خلیفۂ راشد نے اپنی شہادت سے پہلے اپنے مکان کی چھت سے شرپسند لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے اپنی زندگی کا یہ پہلو اُن کے سامنے نمایاں کیا تو کوئی ایک مخالف بھی اس کی نفی نہ کر سکا تھا۔ سیدنا عثمانؓ بن عفان کو آنحضورﷺ نے غنی کا خطاب دیا تھا اور آپؓ واقعی سلطنتِ غنا کے تاجدار تھے۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سادگی و فقر کی راہوں پر چلنا عالی ہمت لوگوں ہی کی شان ہوتی ہے۔ سیرتِ مصطفیﷺ کی کرنوں کی جھلک آپؐ کے تربیت یافتہ صحابہ کی زندگیوں میں نمایاں نظر آتی ہے۔ یہی حبِّ رسولﷺ کا تقاضا اور وفاداری کا ثبوت ہے۔ 
سیدنا علیؓ بن ابی طالب حکمران تھے‘ مگر پیوند لگے کپڑے زیب تن ہوتے اور نانِ جویں آپؓ کی خوراک ہوتی ۔راستے میں کوئی حاجت مند روک کر اپنا دکھڑا سنانے لگتا تو دیر تک اس کی بات پوری توجہ سے سنتے اور داد رسی فرماتے۔ کوئی بڑھیا اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ ہوتی تو اس کا بوجھ خود اٹھالیتے۔ اس کے باوجود اللہ نے ایسا رعب بخشا تھا کہ کوئی بڑے سے بڑا سورما بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کرسکتا تھا۔ انسان کی عزت اور اس کا مقام و مرتبہ زرق برق لباس اور ہٹو بچو کے جھوٹے نعروں کا نہیں، کردار کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ آنحضورﷺ کی دعا ہے: اَللّٰہُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا وَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًا وَاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْن۔
''اے اللہ مجھے فقر کی زندگی دے اور اسی حالت میں مجھے دنیا سے بلا لے اور روزِ حشر مجھے مساکین کے ساتھ اٹھا‘‘۔ (حاکم عن ابی سعید، صحیح)
آقا و مولاؐ کے زیر تربیت حضرت علیؓ نے یہ درس خوب یاد کر لیا تھا کہ انسان کا مقام و مرتبہ دولت کی ریل پیل سے نہیں بلکہ کردار سے متعین ہوتا ہے۔ آپؓ نے اسی لیے فرمایا کہ 
رَضِیْنَا قِسْمَۃَ الْجَبَّارِ فِیْنَا
لَنَا عِلْمٌ وَّ لِلْجُہَّالِ مَالُ
ہم ربِّ جبار کی تقسیمِ رزق پر بدل و جان خوش ہیں۔ ہمیں اطمینان ہے کہ ہمارے مقدر میں علم ہے اور جہلا کی تجوریوں میں مال وزر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں