دینِ حق کے دیوانے!

یہ دنیا دارالعمل اور آخرت دارالحساب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا کے دارِعمل اور امتحان گاہ میں حق و باطل کی راہ اختیار کرنے کی مکمل آزادی دی ہے۔ اس کا ارشادِ گرامی ہے کہ ''اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟ کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا، اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ اُن پر گندگی ڈال دیتا ہے‘‘۔ (یونس: 99 تا 100)
عبرت کی نگاہ سے تاریخ انسانی کا مطالعہ کیا جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کئی لوگ برائی کے علمبردار اور اگلے مورچوں میں حق کے خلاف برسرپیکار ہوتے ہیں، مگر اللہ ان کے دل میں خیر کے کسی جذبے کی قدر کرتے ہوئے انہیں حق کا علمبردار بنا دیتا ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے پر فرعون کے حامی جادوگروں کا بھی یہی معاملہ قرآن نے بیان کیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ دیکھتے ہی ان پر حقیقت کھل گئی۔ پس انھوں نے بلاتاخیر عین میدانِ مقابلہ میں، فرعون کے سامنے اپنے ایمان کا اعلان کر دیا۔ فرعون نے اس پر غضبناک ہو کر ان کو تختۂ دار پر لٹکانے کا حکم صادر کر دیا۔ اس اعلان کے باوجود ان کے پائے استقامت میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔ اس مشکل ترین مرحلے پر بے ساختہ ان کی زبان سے ایمان افروز کلماتِ دعا نکلے۔ قرآنِ مجید کے الفاظ میں‘ انھوں نے کہا:
رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَo (الاعراف:126)
اے رب! ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں۔
یہ مختصر مگر نہایت معرکہ آرا دعا ہے۔ یہ دعا تختہ دار پر چڑھنے سے پہلے ﷲ کے بندوں نے ﷲ کے دربار میں بھیجی تھی۔ ہر مومن جانتا ہے کہ یہ دعا مانگنے والے کون تھے؟ یہ وہ لوگ تھے جنہیں دنیا جادوگر کے نام سے جانتی تھی۔ یہ فرعون کے دربار میں کلیم ﷲ علیہ السلام کو اپنے جادو کے زور سے شکست دینے آئے تھے۔ سبھی معجزاتِ موسیٰ بڑے حیرت انگیز اور پُراثر تھے لیکن یہ معجزہ کہ جادوگروں کی زبان اس دعا سے تر ہو گئی‘ دنیا کی تاریخ میں ایک زندۂ جاوید واقعہ اور ناقابلِ فراموش یادگار کی حیثیت سے ہمیشہ درخشاں رہے گا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ مدین سے مصر کی جانب سفر کرنے والا ایک مسافر دامن طور میں سخت بارش‘ سردی اور طوفان سے بچنے کے لیے آگ کی تلاش میں نکلتا ہے اورتاریکی شب میں اسے نورِ رسالت سے نواز دیا جاتا ہے۔ اور پھر کتنا حیرت انگیز ہے یہ منظر کہ اس نورِ رسالت کو بجھانے کے لیے فرعون کے دربار میں کچھ نامور جادوگر جمع ہوتے ہیں مگر آناً فاناً وہ اس نور کی شمع کو اور تیز کرنے کے لیے پھانسی کے پھندوں کو پروانہ وار چوم لیتے ہیں۔ یہ ﷲ کی حکمت وقدرت ہے جسے وہی سمجھتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وادیٔ ایمن میں تاجِ نبوت پہنانے کے بعد حکم ہوا کہ فرعون کے دربار میں جا کر اسے راہِ حق کی دعوت دیں۔ آپ علیہ السلام نے ایک قبطی کو کچھ عرصہ قبل اپنی مدین روانگی سے پہلے قتل کیا ہوا تھا‘ نیز آپ کی زبان میں ابھی پو ری روانی بھی نہ تھی‘ اس لیے آپ نے اس بارِ عظیم کے اٹھانے کے لیے اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کا نام پیش کیا۔ ﷲ تعالیٰ نے حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی آپ کے ساتھ معاون پیغمبر بنا دیا اور حکم ہوا کہ بغیر کسی خوف وخطر کے تم دربارِ فرعون میں چلے جاؤ اور اسے سمجھاؤ کہ اس کا دعویٰ خداوندی بالکل غلط اور باطل ہے۔ یہ واقعہ قرآنِ مجید میں بڑی تفصیل کے ساتھ کئی مقامات پر آیا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام حسبِ حکم دربار شاہی میں چلے گئے اور فرعون کو مخاطب کر کے بلاخوف و خطر اس کے سامنے دعوتِ حق پیش کر دی۔ کافی سوال وجواب ہوئے۔ آخر فرعون نے کہا: ''اگر تم ﷲ کا پیغمبر ہو تو لائو‘کوئی نشانی پیش کرو‘‘۔ آپ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر پھینکا تو وہ بہت بڑا اژدھا بن گیا اور اپنا ہاتھ بغل میں دبا کر باہر نکالا تو یہ روشنی کا منبع بن گیا۔ یہ معجزات عطائے نبوت کے وقت ہی وادیٔ طور میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا فرما دیے گئے تھے۔ ان معجزات کو دیکھ کر فرعون سمجھا کہ یہ سب جادو کا کرشمہ ہے۔ اس نے اپنی مجلسِ مشاورت طلب کی اور اہل الرائے لوگوں سے پوچھا: ''اب بتاؤ کیا کرنا چاہیے۔ یہ تو ایک بڑا جادوگر ہے۔‘‘ درباریوں نے کہا: ''ہم ملک کے نامور جادوگروں کو بلا لاتے ہیں اور ان دونوں بھائیوں کا مقابلہ کر کے انہیں شکست دیتے ہیں‘‘۔ فیصلے کے مطابق جادوگر ملک بھر سے اکٹھے ہو گئے اور قبطیوں کی عید کے روز مقابلہ شروع ہوا۔ مقابلہ شروع ہونے سے قبل جادوگروں سے فرعون کی خصوصی ملاقات ہوئی تو فرعون نے کہا: اگر تم لوگ غالب آ گئے تو تمہیں دربارِ شاہی میں مقربین کی صف میں جگہ ملے گی۔
وقتِ مقررہ پر دونوں فریق مقابلے کے میدان میں پہنچ گئے۔ جادوگروں نے پوچھا: ''اے موسیٰ ہم پہلے کرتب دکھائیں یا تم اپنے فن کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہو؟‘‘ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ''تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو‘ پہلے کر لو۔‘‘ ان لوگوں نے اپنی چھڑیاں اور رسیاں زمین پر پھینک دیں۔ وہ جادو کے زور سے انہیں سانپوں کا روپ دے کر سارے میدان میں دوڑانے لگے۔ اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ ﷲ کا نام لے کر اپنا عصا زمین پر پھینک دیں۔ آپ نے عصا پھینکا تو وہ بہت بڑا اژدھا بن گیا اور جادوگروں کے بنائے ہوئے سب سانپوں کو نگل گیا۔ اس منظر سے سارے مجمع پر رعب وہیبت طاری ہو گئی۔ فرعون اور اس کے درباریوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ادھر جادوگروں نے یہ حال دیکھاتو دل کی آنکھیں ایک دم کھل گئیں۔ وہ سمجھ گئے کہ موسیٰ کے ہاتھ سے جو کچھ رونما ہوا ہے وہ جادو نہیں ہے۔ وہ تو کوئی ایسی قوت ہے جس کا مقابلہ انسانی طاقت سے باہر ہے۔ وہ اسی جگہ مجمع عام میں خدا کے حضور سجدہ ریز ہو گئے اور زبان سے اقرار کیا: ''اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ O رَبِّ مُوْسٰی وَہَارُوْنَO‘‘ (الاعراف: 121 تا 122)
ہم تمام جہانوں کے رب پر ایمان لائے، یعنی موسیٰ اور ہارون کے پرودگار پر۔
فرعون جادوگروں کا یہ عمل دیکھ کر اور بھی سیخ پا ہو گیا۔ کہنے لگا: ''میں سمجھ گیا ہوں۔ یہ جادوگری میں تمہارا استاد ہے۔ تم نے اس کے ساتھ مل کر ملک اور حکومت کے خلاف سازش کی ہے۔ میں ابھی تمھیں مزا چکھاتا ہوں۔ تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ کر تم سب کو تختہ دار پر لٹکا دوں گا‘‘۔ جادوگر‘ جو اب حلاوتِ ایمانی کا مزہ چکھ چکے تھے‘بلاخوف بولے: ''ہمیں کوئی پروا نہیں ہے تو جو چاہے کر لے ہم ﷲ کی آیات دیکھ کر مومن بن چکے ہیں‘‘۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
پھر جب ان کی پھانسی کا حکم ہوا تو انہوں نے اپنے مولا کے سامنے وہی درخواست پیش کی جو اوپر منقول ہوئی ہے: ''اے ہمارے مالک! ہماری جبین نیاز تو اب سوائے تیرے کسی کے سامنے نہ جھکے گی۔ تو ہمیں ثابت قدمی وصبر کی دولت بخش اور موت ہم پر اس حال میں بھیج کہ ہم تیرے مطیع فرمان ہوں‘‘۔ یہ دعا کتنی انقلابی ہے اور کیسے انقلابی لوگوں نے مانگی تھی! وہ لوگ کہ جن کی زندگی جادوگری میں گزر گئی۔ حقیقت حال کھل جانے کے بعد ایسے مسلم بنے کہ گردن کٹ جانے کی قطعاً کوئی پروا نہ کی۔ اس سے بڑا انقلاب اور کیا ہو سکتا ہے۔ ﷲ تعالیٰ ہر بندہ مومن کو یہی جذبۂ صادق اور عزمِ پُرخلوص عطا فرمائے، آمین! یہ واقعہ قرآنِ مجید کی کئی سورتوں میں دہرایا گیا ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے اقبالؒ یاد آ جاتے ہیں ؎
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی
ان اہلِ ایمان کی روشن کی ہوئی یہ شمع ہر دور میں اہلِ ایمان کے خون سے سیراب ہوتی رہی اور اپنی نورانی کرنیں عالم ہست وبود میں بکھیر کر اہلِ وفا کو راستہ سجھاتی رہی۔ آپﷺ کے جاں نثار صحابی حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ نے مکہ میں اس کی لو تیز کی اور تاریخ کے ہر دور میں ان کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا۔ حضرت خبیبؓ نے تختۂ دار پر جس جرأتِ ایمانی کا مظاہرہ کیا وہ ہر بندۂ مومن کے لیے ایسا ایمان افروز ہے کہ آنکھیں بے ساختہ بھیگ جاتی ہیں اورصحابہ کرامؓ کی عظمت دل میں نقش ہو جاتی ہے۔تاریخ انسانی میں کوئی ایک واقعہ نہیں بلکہ ہر دورمیں تاریخ دہرائی جاتی رہی ہے۔ کتنے ہی پروانے اس شمع پر نچھاور ہو گئے۔
ہمارے زمانے میں سیّد قطب شہید‘ عبدالقادر عودہ شہید اور ان کے عالی قدر رفقا نے سرزمین فرعون میں ایک مرتبہ پھر اس سنت کو زندہ کر دیا۔ حالیہ دنوں میں صدر محمد مرسی شہید اور دیگر ساتھی بھی اسی شان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔ وادیٔ نیل کے ان شہدا کے مبارک چہروں کی مسکراہٹ قافلہ راہِ حق کے راہیوں کے سامنے آج بھی پھولوں کی طرح بکھری ہوئی ہے اور ان کے مقدس خون کی مہک سے سارا عالم معطر ہے۔ اسی کاروانِ عزیمت کے حالیہ نقیب عبدالقادر ملا شہید بھی جذبوں کو جلا بخشتے ہیں۔ وہ سرزمین بنگلہ دیش کے پہلے شہید ہیں جنھوں نے تختۂ دار کو مسکراتے ہوئے چوما، پھر مولانا مطیع الرحمن نظامی، علی احسن محمد مجاہد، قمرالزمان، میر قاسم علی اور دیگر عظیم فرزندانِ اسلام بھی اس منزل سے پورے ایمانی جذبے کے ساتھ گزرے اور زندہ و جاوید ہو گئے۔ عامر عثمانیؒ نے کیا خوب فرمایا ؎
یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں