اہلِ اقتدار کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ بیرونی اشاروں پر محسنِ وطن کی دلجوئی اور قدر افزائی کی جگہ دل آزاری اور ناقدری کے ریکارڈ قائم کر دیے۔ حکومتی فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں نظربندی کے خلاف رٹ دائر کی تو عدالت عالیہ نے کیس کی سماعت کے بعد آخر 6 فروری 2009ء کو آپ کی نظربندی کو ختم کرنے کا فیصلہ سنایا۔ اس کے باوجود یہ المیہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب پر لگائی گئی پابندیوں میں خاص کمی نہ آئی۔ ان دنوں امریکا میں بارک اوباما صدر تھے۔ انہوں نے بھی بش کی طرح حکمرانوں کو ڈرا دھمکا کر ڈاکٹر صاحب کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگوا دی۔ پرویز مشرف کے بعد زرداری دور میں بھی ڈاکٹر صاحب مسلسل زیرِنگرانی تھے؛ تاہم اب پہلے کے مقابلے میں کچھ نرمی تھی‘ پھر بھی آپ سرکاری نگرانی میں ہی کہیں جا آ سکتے تھے۔
اسی دور میں آپ نے سیاست کی وادیٔ پُرخار میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کی ایک نئی مگر دلچسپ مہم جوئی تھی جس کا تجربہ انہوں نے سیاسی میدان میں کیا۔ 2012ء میں آپ نے ''تحریکِ تحفظِ پاکستان‘‘ کے نام سے ایک سیاسی پارٹی رجسٹرکروائی تھی۔ آپ نے کئی شہروں میں سیاسی جلسے منعقد کرنے کا پروگرام بنایا۔ اسی عرصے میں آپ سے گجرات میں ایک جلسۂ عام اور اس کے بعد کھانے کی میز پر وہ ملاقات ہوئی جس کا میں نے تذکرہ کیا تھا۔ میرا خیال یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب قوم کے بارے میں غلط اندازے لگا رہے ہیں۔ جلسۂ عام میں سٹیج پر ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے میں نے دبے لفظوں میں ان کے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے میری بات سن کر دھیمے، مگر قدرے ترش لہجے میں فرمایا کہ مجھے بھی کبھی کبھار اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قوم سیاسی لحاظ سے بہت نابالغ ہے، لیکن مجھے یہ بھی احساس ہے کہ لوگ میری خدمات کی وجہ سے مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ اس قوم کی تاریخ عجیب ہے۔ آج کی بات نہیں‘ زمانہ قدیم سے یہی ریت چلی آ رہی ہے ۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب کو انتخابات میں وہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہو گئی جو ہمیں تو طویل تجربات کے بعد ازبر ہو چکی تھی۔اچھائیاں بیان کرنے اور تعریفیں کرنے والے ووٹ دینے کے وقت کسی اور کی جھولی میں جا بیٹھتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب نے اپنی خودنوشت میں پاکستان ہی نہیں مغربی ممالک کی شخصیات کا بھی نہایت معلومات افزاتذکرہ کیا ہے۔ اچھے انسانوں کی تعریف کا حق ادا کیا ہے اور برے کرداروں کو بھی پورے استدلال کے ساتھ بے نقاب کیا ہے۔ اس کتاب میں مرحوم نے اپنی سیاسی مہم جوئی پر تو کچھ نہیں لکھا؛ البتہ ایٹم بم بنانے کے پورے عمل اور انتہائی اعصاب شکن مراحل میں اپنی اور اپنی ٹیم کی استقامت اور مقصد سے لگن کو بہترین انداز میں بیان فرما دیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ''قبل اس کے کہ میں اپنے نہایت قابل، محب وطن رفقائے کار کا تذکرہ کروں‘ اپنے ایٹمی پروگرام کی تاریخ کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ بھارت کی ایٹمی صلاحیت کے بارے میں جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے بار بار انتباہ کے باوجود دنیا نے اس پر قطعی دھیا ن نہ دیابلکہ ایک خاص پالیسی کے تحت بھارت کی حوصلہ افزائی کی اور مالی اور فنی مدد کی تاکہ وہ اس علاقہ میں بالادستی حاصل کر کے مغربی ممالک کے مفادات کی حفاظت کرے۔ اس سے مجبور ہو کر ہی ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے وہ محاوراتی جملہ کہا تھا کہ اگر بھارت نے ایٹم بم بنایا تو ہم بھی بنائیں گے خواہ ہمیں گھاس کھا کر ہی کیوں نہ گزارہ کرنا پڑے۔ ان کا یہ فقرہ بے حد مشہور ہو گیا تھا۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ ایٹم بم بنانے کا کام، وہ بھی پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں، تقریباً ایک ناممکن کام تھا۔ غیر تو غیر اپنے بھی مذاق اڑانے لگے تھے۔
سابق چیئرمین اٹامک انرجی کمیشن ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی نے ہمارے سابق وزیر خارجہ اور میرے پیارے دوست ریاض محمد خان سے امریکا میں کہا تھا کہ ایک لڑکا آیا ہے اور قوم کو بے وقوف بنا رہا ہے کہ مکھن بنانے والے طریقہ (مدھانی) سے ایٹم بم بنا کر دے گا۔ گویا سینٹری فیوج ٹیکنالوجی کو مکھن بنانے والی مشین سے مشابہت دی تھی۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن غالباً 1958ء میں بنایا گیا تھا اور جب میں نے ان کے ایڈوائزر کے طور پر کام شروع کیا تھا تواس میدان میں کوئی بھی کام نہیں ہوا تھا‘‘۔ (داستانِ عزم: ص34 تا 35)
اسی طرح ایک دوسرے واقعہ یعنی طویل رینج کے میزائل کے کامیاب تجربے کی نقشہ کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''یہاں ایک اہم واقعہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں‘ جہلم اور ٹلہ رینج کور کمانڈر منگلا کے انڈر آتی ہے۔ اس وقت وہاں کا کور کمانڈر پرویز مشرف تھا۔ میں نے ازراہ خوش اخلاقی اس کو فون کیا کہ ہم آپ کے علاقہ سے لمبی مار کے ایٹمی ہتھیار لے جانے والے بیلسٹک میزائل فائر کرنے والے ہیں، میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں اور یہ لانچنگ دیکھیں۔ اس نے کہا: چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت کی اجازت کے بغیر میں نہیں آ سکتا‘ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائیں۔ جنرل جہانگیر کرامت نے پرویز مشرف کو اجازت دے دی۔ دوسرے دن صبح سات بجے جنرل مشرف اپنے ہیلی کاپٹر میں آئے۔ مجھ سے میرے ساتھیوں جن میں جنرل چوہان (سابق سرجن جنرل پاکستان آرمی اور پھر ہمارے میڈیکل ڈویژن کے سربراہ) بھی شامل تھے، ملاقات کی۔ ہم اوپر چھت پر بیٹھ گئے جہاں سے ہر چیز بہت صاف نظر آ رہی تھی...
میں نے ٹلہ کے مقام پر فوج کے لیے اعلیٰ سہولتیں بنوا دی تھیں جہاں آج بھی فوج ہتھیار ٹیسٹ کرنے اور مشقوں کے لیے جاتی ہے اور میری بنائی ہوئی سہولتوں سے فائدہ اٹھا رہی ہے‘‘۔ (ص:69 تا 70)
ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے عظیم سائنسدان نے زندگی عیش و عشرت میں نہیں بلکہ تنگی اور عسرت میں گزاری۔ اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ یہ نیک نفس، متقی اور غیرت مند بندۂ مومن دنیا کی تنگ نائیوں سے نکل کر جنت کی وسعتوں میں خوش و خرم ہو گا۔ 10 اکتوبر کو محسنِ وطن کی وفات کی خبر نے سخت غمزدہ کر دیا۔ آپ کے انتقال کی خبر سن کربے ساختہ میری زبان پر احمد ندیم قاسمی مرحوم کا یہ شعر آیا ؎
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
اس کے بعد خود ڈاکٹر صاحب کا شعر بھی بار بار زبان پر آتا رہا۔ اس شعر میں موصوف نے اپنے ساتھ بیتنے والے واقعات کو چند الفاظ میں بیان کر دیا ہے ؎
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیرؔ
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
حکومتِ وقت کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کے جنازے اور تجہیز و تکفین کی ذمہ داری وزیر داخلہ شیخ رشید کو دی گئی یا موصوف نے خود سنبھال لی۔ جنازے میں وزیراعظم، صدر اور اعلیٰ ذمہ داران میں سے کسی کو شرکت کی توفیق نہ ہوئی؛ البتہ مرحوم کی تعریف و توصیف کے بیانات ذرائع ابلاغ کو جاری کیے گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق شدید بارش اور ژالہ باری کے باوجود شہریوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جنازے میں شرکت کے لیے امڈ آیا۔ ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد ملک بھر اور بہت سے بیرونی ممالک میں بھی مرحوم کی غائبانہ نماز ہائے جنازہ کا اہتمام ہوا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق صاحب ڈاکٹر صاحب کی وفات کے وقت بہاولپور میں تھے۔ انہوں نے وہیں غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ اگلے روز جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیا۔
محترم امیر جماعت نے سوگوار سامعین کے سامنے ڈاکٹر عبدالقدیر مرحوم کو زبردست الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ آپ کی بے مثال قومی خدمات اور آپ پر ہر حکومت کے یکے بعد دیگرے مظالم کی جھلکیاں بھی پیش کیں۔ پھر آپ نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں نماز جنازہ پڑھائوں۔ میں نے مرحوم کی اسلام آبادمیں ہونے والی نماز جنازہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تدفین کے بعد قبر پر پھولوں کی چادرچڑھانے والو، تمھارا معاملہ عجیب ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی میں پتھر پھینکنے والوں کے یہ پھول بھی مرحوم کو پتھروں کی طرح ناگوار گزر رہے ہوں گے۔ مقتدر ٹولے کی بے اعتنائی دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ملک کو ایٹمی قوت بنانے والے عظیم سائنس دان، محسنِ پاکستان عبدالقدیر خان کی قبر سے آواز آ رہی ہو ؎
مری نمازِ جنازہ پڑھی ہے غیروں نے
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے
اردو شاعر بیدم نے تواور بھی کمال الفاظ میں ایسے مواقع کی تصویر کشی کی تھی ؎
جیتے جی تو بہرِ عیادت آ نہ سکے
اب آ رہے ہیں خاک اڑانے مزار کی
ان مختصر معروضات کے بعد میں نے مرحوم کی نماز جنازہ (غائبانہ) پڑھانے کی سعادت حاصل کی۔ حق تعالیٰ اپنے مخلص بندے کو انبیا ء کرام و صدیقین اور شہداء و صالحین کے ساتھ جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین! (ختم)