بنوحنیفہ بڑے ماہر تیرانداز تھے۔ مسلمان بنوحنیفہ کے تیر اندازوں کے تابڑ توڑ حملوں سے منتشر ہونے لگے تو حضرت عمار بن یاسرؓ آگے بڑھ کر صحابہ کرامؓ کو پکارنے لگے: اے اہلِ ایمان! میں عمار بن یاسر ہوں‘ میری طرف آؤ، وہ سامنے جنت ہے‘ جنت سے کیوں فرار اختیار کررہے ہو؟ حضرت عمارؓ اس نازک مرحلے پر ایک بلند ٹیلے پر کھڑے تھے اور ان کا ایک کان شہید ہوچکا تھا مگر اس تکلیف سے بے پروا وہ مردانہ وار دشمن سے برسرپیکار تھے۔ حضرت سالمؓ نے ایک گڑھا کھود کر اس میں پاؤں جما لیے اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ حضرت عمارؓ کو آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہادت اور جنت کی بشارت دے رکھی تھی۔ شہادت تو ملی مگر حضرت علیؓ کے دورِ خلافت میں۔ صحابہ کرامؓ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے: جنتی کی پکار سنو اور جنت کی طرف بڑھو۔
حضرت زید بن خطابؓ، حضرت ثابت بن قیسؓ، حضرت ابوحذیفہؓ، حضرت سالمؓ اور عمار بن یاسرؓ مردانہ وار دشمنوں سے لڑرہے تھے۔ بہت سارے دشمنِ اسلام ان کے ہاتھوں جہنم رسید ہوئے۔ ان صحابہ کرام میں سے سب سے پہلے حضرت عمرؓ کے بھائی حضرت زیدؓ شہید ہوئے، پھر حضرت ابوحذیفہؓ اور حضرت سالمؓ نے جام شہادت نوش کیا۔ حضرت سالمؓ شہادت کے وقت حضرت ابوحذیفہؓ کے قدموں میں گرے ہوئے تھے اور ان کے دونوں ہاتھ بھی شہید ہوچکے تھے، مگر انہوں نے آخری وقت تک جھنڈا کٹے ہوئے بازؤں سے اپنے سینے کے ساتھ لگاکر بلند رکھا تھا۔ حضرت ثابت بن قیسؓ نے کفن زیب تن کررکھا تھا اور خود کو خوشبو میں بسا رکھا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ثابتؓ کو بھی ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی تھی۔ صحابہ کرامؓ ان کو دیکھ کر کہا کرتے تھے، وہ دیکھو جنتی آرہا ہے۔ آج وہ جنت کے شوق سے یوں سرشار تھے کہ ان کو دیکھ کر مسلمانوں کے حوصلے بڑھے اور وہ ان پر رشک بھی کرنے لگے۔ حضرت انسؓ فرمایا کرتے تھے کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے حضرت ثابتؓ کو جب شہادت اور جنت کی بشارت دی گئی تو اس کے بعد صحابہ کرامؓ جب بھی ان کو دیکھتے تو کہتے: وہ جنتی چلا آرہا ہے۔
جس طرح یہ صحابہؓ اپنے ساتھیوں کو جنت کی ترغیب دے کر جنگ پر ابھار رہے تھے‘ اسی طرح مسیلمہ کا بیٹا شرحبیل بن مسیلمہ بھی اپنے قبیلے کو عصبیتِ جاہلیہ کا واسطہ دے کر جنگ پر ابھار رہا تھا۔ اس نے کہا: اے بنوحنیفہ! آج اپنے قبیلے کی عزت خطرے میں ہے، قومی غیرت کا مظاہرہ کرنے کا یہی وقت ہے، آج دشمن کے مقابلے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھو، جان لو! یہ معمولی جنگ نہیں، اگر حملہ آور غالب آگئے تو تمہارے اہل وعیال ان کے قبضے میں ہوں گے، اپنی عزت وناموس کی حفاظت کرو اور دشمن کو صفحۂ ہستی سے مٹا دو۔
شہید ہونے والے صحابہ کرامؓ نے اپنی شہادت سے قبل جو تقاریر کی تھیں انہوں نے مسلمانوں کے جوش وجذبے کو بہت مہمیز دی۔ مسیلمہ اور اس کے ساتھی آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے اور اپنے قلعے کی طرف پسپائی اختیار کی۔ اس وقت حضرت خالدؓ نے موقع کو غنیمت جانا اور زوردار حملہ کرکے آگے بڑھے۔ بنوحنیفہ کا ایک بہادر اور ماہر جنگجو محکم بن طفیل بھی مسیلمہ کے بیٹے شرحبیل کی طرح اپنی قوم کو غیرت دلا رہا تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن ابوبکرؓ نے اس پر نشانہ باندھ کر تیر چلایا جو اس کی گردن میں جا لگا اور اسی سے وہ موت کے گھاٹ اتر گیا۔ اب مسلمانوں کی ہمت بڑھ گئی اور انہوں نے زور دار حملہ کردیا؛ تاہم لڑائی کی کیفیت اس وقت تک ایسی تھی کہ ابھی یہ کہنا مشکل تھا کہ نتیجہ کیا نکلے گا۔
اب حضرت خالدؓ نے ایک جنگی تدبیر کے تحت مسلمانوں کو حکم دیا کہ ہر قبیلہ اپنے الگ الگ نشان کے تحت دشمن سے لڑے۔ اس کا بہت اچھا اور مثبت نتیجہ نکلا۔ چنانچہ مسیلمہ اور اس کے ساتھی مسلسل پیچھے ہٹتے ہوئے اپنے قلعہ ''حدیقۃ الرحمن‘‘ میں داخل ہوگئے اور اندر سے تمام دروازے بند کردیے۔ شیطان کے حربے بڑے خطرناک ہوتے ہیں مگر اللہ فرماتا ہے کہ شیطان کی چالیں بودی اور ضعیف ہوتی ہیں۔ شیطان نے مسیلمہ کو پٹی پڑھائی کہ اپنے باغ اور قلعے کو رحمن کے نام سے منسوب کردو حالانکہ یہ حدیقۃ الرحمن نہیں بلکہ حدیقۃ الشیطان تھا۔
حضرت خالدؓ نے اپنے ساتھیوں کو فرمایا کہ تیزی اور بہادری کے ساتھ دشمن کا تعاقب کرو؛ چنانچہ صحابہ کرام کے حملوں میں بہت تیزی آئی۔ قلعے کے دروازے بند ہونے کے وقت بہت سارے مرتدین قلعے سے باہر رہ گئے جن میں سے بیش تر تہِ تیغ ہوگئے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ قلعے کے اندر کیسے جایا جائے؟ اس مشکل کو بھی اللہ نے آسان کردیا۔ مشہور انصاری صحابی حضرت براء بن مالکؓ، جو بڑے بہادر جنگجو تھے اور ان پر کبھی کبھار جنگ کے دوران ایسی کیفیت آتی تھی کہ جیسے لرزہ طاری ہوگیا ہو۔ اس کے بعد وہ شیر کی طرح دشمن پر جھپٹتے تھے۔ اس لڑائی میں بھی ان پر یہ کیفیت طاری ہوئی اور انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ مجھ کو اٹھا کر کسی طرح باغ کے اندر پھینک دو۔ ساتھیوں نے کہا کہ یہ مناسب نہیں کیونکہ آپ دشمن کے قابو میں آجائیں گے۔ حضرت براءؓ نے انہیں قسم دے کر سخت لہجے کے ساتھ کہا: مجھے باغ میں اتار دو۔ آخر مسلمانوں نے ان کو دیوار پر چڑھا دیا اور انہوں نے بے خطر قلعے کے اندر چھلانگ لگا دی۔ بے شمار مرتدین ان پر ٹوٹ پڑے، وہ تنہا سب کے ساتھ لڑتے بھڑتے قلعے کے پھاٹک تک پہنچ گئے اور اس کو کھول دیا۔
پھاٹک کھلتے ہی اسلامی لشکر‘ جو باہر انتظار میں کھڑا تھا‘ باغ کے اندر داخل ہوگیا اور فریقین میں خون ریز جنگ ہونے لگی۔ حضرت خالدؓ نے مسلمانوں کو للکار کر کہا: مسلمانو! ثابت قدم رہو، بس تمہارے ایک اور ہلّے کی دیر ہے کہ دشمن تباہ ہوجائے گا۔ اس للکار پر مسلمانوں نے اس قیامت کا حملہ کیا کہ مرتدین کے قدم اکھڑ گئے۔ مسیلمہ بھاگنے لگا تو اس کے ساتھیوں نے کہا: تیرا وعدہ کیا ہوا جو خدا نے‘ تیرے قول کے مطابق‘ تجھ سے کیا تھا؟ اس لعین وکذّاب نے کہا: یہ موقع ان باتوں کا نہیں ہے، اپنی جان اور اپنا ننگ وناموس بچانا ہے تو بچالو۔
جب یہ جھوٹا اور مکار انسان جان بچانے کے لیے بھاگاجارہا تھا تو عین اس وقت اس کذّاب پر دو حربے ایک ساتھ پڑے۔ ایک حضرت وحشی بن حربؓ (قاتلِ حضرت حمزہؓ) نے پھینکا اور دوسرا حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم انصاریؓ نے‘ جن کے بھائی حضرت حبیب بن زیدؓ کو کچھ عرصہ پہلے مسیلمہ نے نہایت سفاکی سے شہید کرڈالا تھا۔ ان کی بہادر والدہ خاتونِ احد ام عمارہؓ بھی اس وقت ان کے ساتھ تھیں اور مسیلمہ کو تباہ کرنے کے علاوہ اپنے مظلوم بیٹے کا اس سے بدلہ لینے کی خاطر میدانِ جنگ میں آئی تھیں۔ یہ حربے پڑتے ہی مسیلمہ ہلاک ہوگیا اور مرتدین حواس باختہ ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس لڑائی میں مرتدین کے دس ہزار آدمی مارے گئے۔ جس جگہ وہ قتل ہوئے اس کا نام حدیقۃ الرحمن کے بجائے پورے علاقے میں حدیقۃ الموت مشہور ہوگیا۔
مسلمان شہدا کی تعداد ایک ہزار سے بارہ سو تک تھی۔ ان میں تین سو سابقون الاوّلون انصار ومہاجرین تھے جبکہ مجموعی طور پر سات سو کلام اللہ کے حفاظ تھے۔ اس سے قبل کسی بھی جنگ میں کبھی اتنے جلیل القدر صحابہ کرامؓ اتنی بڑی تعداد میں شہید نہیں ہوئے تھے۔ ختم نبوت اتنا اہم موضوع ہے کہ اس کے لیے اتنی بڑی قربانی پیش کرنا پڑی۔ تاریخِ اسلامی کی پہلی تمام جنگوں کے اعداد وشمار دیکھیں تو سب شہدا مل کر بھی اتنے نہیں بنتے۔ ناموسِ رسالت پر حملہ کرنے والی شیطانی قوتوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس مسئلے پر کوئی مسلمان کبھی سمجھوتا کرسکتا ہے، نہ کمزوری دکھا سکتا ہے۔
عبرت ناک شکست کے بعد بنوحنیفہ کے جن مرتدین نے توبہ کرکے دوبارہ اسلام قبول کرلیا حضرت خالدؓ نے انہیں معاف کردیا اور پھر ایک قاصد کو فتح کی خوش خبری دے کر بنوحنیفہ کے ایک وفد کے ساتھ مدینہ منورہ بھیجا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اس وفد کے اراکین سے فرمایا: افسوس تمہارے حال پر‘ تم کس طرح مسیلمہ کذاب کے دامِ فریب میں پھنس گئے؟ انہوں نے ندامت کا اظہار کیا اور معافی کی التجا کی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پوچھا: اس کی تعلیم کیا تھی؟ انہوں نے عرض کیا: اس کے خود ساختہ الہام کا نمونہ یہ ہے:
یَا ضَفْدَعَ بِنْتِ الضَفْدَعَیْن، نَقِیٌّ کَمْ تَنْقِیْنَ، لَا الْمَآئَ تَکْدِرِیْنَ، وَلَا الشَّارِبَ تَمْنَعیْنَ، رَأسُکَ فِی الْمَائِ وَ ذَنْبُکَ فِی الطِّیْنِ۔
اے مینڈکی تو ایک مینڈک اور ایک مینڈکی کی بیٹی ہے۔ تو پاک صاف ہے، اتنی پاک کہ نہ تو پانی کو گدلا کرتی ہے اور نہ ہی پینے والوں کو روکتی ہے۔ تیرا سر پانی کے اندر ہوتا ہے اور تیری دم مٹی میں۔
اس کلام کو لسانی نزاکتوں کے تحت اور معانی کے لحاظ سے بھی، کوئی معقول اور بامعنی کلام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کجا یہ کہ اسے کلام ربانی تسلیم کرلیا جائے۔ ایسی لغو زبان کو خدا کا کلام ماننے والے اس سے بھی زیادہ بے وقوف تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ انسان کا نفس اسے دھوکے میں ڈال دے تو بڑے بڑوں کی عقل ماری جاتی ہے۔ اس کلام میں عربی زبان کے لحاظ سے جو سقم ہے‘ اسے اہلِ زبان خوب جانتے ہیں۔ اسی لیے اس کذّاب کی زبان سے ایسی ہفوات ولغویات سن کر اپنے قبول اسلام سے قبل حضرت عمرو بن العاصؓ نے اسے برملا کہا تھا کہ تیرے اس کلام کو وحی سے کیا نسبت ہوسکتی ہے۔ یہ تو کسی دیوانے، مخبوط الحواس بے عقل کا لغو کلام ہی ہوسکتا ہے اور یقینا توجھوٹا ہے۔