اس دنیا میں ظلم وستم کی داستانیں ہر دور میں رقم ہوتی رہی ہیں۔ خالق ومالکِ کائنات کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔
اس کا ارشاد ہے: وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنََ۔ وَأُمْلِیْ لَہُمْ إِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ۔ (الاعراف:182 تا 183)
ترجمہ: رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلادیا ہے تو انہیں ہم بتدریج ایسے طریقے سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی۔ میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں‘ میری تدبیر کا کوئی توڑ نہیں ہے۔
ڈاکٹر محمد مرسی شہید مصر کے پہلے منتخب صدر اور انتہائی باکردار اور متقی مسلمان تھے۔ شہید صاحبِ علم، حافظِ قرآن، تہجد گزار اور ہر لحاظ سے قابلِ احترام شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں مصری عوام نے انتخابات میں مصر کا صدر منتخب کیا تھا۔ انہیں قصرِ صدارت میں صرف ایک سال (30 جون2012ء تا3 جولائی 2013ء) ہی گزرا تھا کہ مصر کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل عبدالفتاح السیسی نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے تمام ممالک اور شخصیات نے اس پر نہ صرف چپ سادھ لی بلکہ ظالم غاصب کو تھپکی دی اور اس کے اس غیرآئینی عمل کو سراہا۔ یہ کہاں کی جمہورتیں ہیں جو ووٹوں سے منتخب اور عوام کے معتمد لیڈر کے مقابلے پر جمہوریت کے قاتل اور درندہ صفت آمر کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ یہ دوغلے پن اور کمینگی کی بدترین صورت ہے۔ آدمیوں کے بھیس میں یہ ظالم درندے ہیں۔
2013ء کے فوجی انقلاب میں ڈاکٹر حافظ محمدمرسی کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اخوان المسلمون کی باقی ساری قیادت بھی حوالۂ زنداں کردی گئی۔ اس ظالمانہ اقدام پر عوامی احتجاج ہوا تو پرامن عوام کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ سینکڑوں بے گناہ لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ اس ظلم وستم پر سوائے ترکی اور چند دیگر ممالک کے‘ پوری دنیا خاموش رہی۔ مردوں کے ساتھ عفت مآب خواتین کو بھی زنداں خانوں میں دھکیل دیا گیا۔ چھوٹی عمر کے بچے اور طلبہ بھی پس دیوارِ زنداں مقید کردیے گئے۔ صدر مرسی کو عدل وانصاف کا خون کرنے والی نام نہاد عدالتوں کی طرف سے بار بار سزائے موت اور عمر قید سنائی گئی۔ ان کی اپیل چھ سال سے عدالتوں میں چل رہی تھی۔ جیل میں بھی انہیں ایک پنجرے میں بند کرکے رکھا جاتا تھا۔ علالت کی وجہ سے وہ گر کر بے ہوش ہوجاتے، مگر ان کے علاج کی طرف جیل حکام نے کبھی توجہ نہ دی۔ ان باتوں کا اظہار صدر مرسی نے عدالت میں 17 جون 2019ء کو اپنے بیس منٹ کے بیان میں کیا۔ اس کے بعد شیر‘ جو پنجرے میں بند تھا‘ بے ہوش ہو کر گرا اور ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں جام شہادت نوش کرگیا۔
صدر مرسی کی المناک شہادت دنیا بھر کے اہلِ ایمان کو درد وکرب میں مبتلا کرگئی؛ تاہم مرسی شہید دنیا کی تنگنائیوں اور مصائب سے آزاد ہو کر عالم بالا کی طرف کوچ کرگئے۔ ہمیں امید ہے کہ اللہ کی رحمت نے اس مردِ مومن کو ڈھانپ لیا ہوگا اور وہ شہدا کے ساتھ اعلیٰ علیین میں خوش وخرم ہوں گے۔ ظالم وغاصب جنرل سیسی اور اس کے غیرمسلم سرپرست کس انجام سے دوچار ہوں گے، خالق کائنات ایسے ظالموں کو ڈھیل دیتا ہے، مگر یہ اس کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔
صدر محمد مرسی قاہرہ کے شمال میں ایک چھوٹے سے گاؤں عَدوہ (ضلع شرقی) میں 1951ء میں ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد انتہائی نیک اور دین سے محبت رکھنے والے مسلمان اور پیشے کے لحاظ سے کاشتکار تھے۔ ان کی والدہ عبادت گزار گھریلو خاتون تھیں۔ جناب محمد مرسی پانچ بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ سب بھائی انتہائی ذہین اور شریف النفس تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے قریب ایک دوسری بستی میں حاصل کی۔ صدر مرسی کے بقول: ''مجھے یاد ہے کہ میں گدھے پر سوار ہو کر سکول جایا کرتا تھا‘‘۔ ابتدائی مراحل کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے قاہرہ میں آئے اور 1975ء میں قاہرہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں بی ایس سی کی ڈگری اعلیٰ اعزاز کے ساتھ حاصل کی اور 1978ء میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
حافظ محمد مرسی سرکاری وظیفے پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا چلے گئے۔ امریکہ میں جنوبی کیلیفورنیا یونیورسٹی سے 1982ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری اعلیٰ اعزاز کے ساتھ حاصل کی۔ ان کا خاص مضمون ایلومینیم ایکسائیڈ تھا۔ آپ نے ریاست کیلیفورنیا میں نارتھ برج یونی ورسٹی میں 1982ء سے 1985ء تک اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریس کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔ ان کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے انہیں ناسا (National Aeronautics and Space Administration) میں کام کرنے کی دعوت دی گئی۔ یہاں انہوں نے سپیس شٹل انجن ایجاد کرنے کا اعزاز حاصل کیا جسے اس فیلڈ کے ماہرین نے بہت سراہا۔ یہاں کی انتظامیہ اس جوہرِ قابل سے مزید استفادہ کرنے کیلئے بہت پرامید تھی مگر یہ نوجوان دولت اور عیش وعشرت کی ہوس سے پاک تھا۔
امریکا میں تعلیم اور تجربہ حاصل کرنے کے بعد جناب محمد مرسی، جو اخوان المسلمون سے اپنی جوانی ہی کے دور سے منسلک ہو گئے تھے‘ نے وطن واپس آنے کا فیصلہ کرلیا۔ بہت پرکشش ملازمت کو چھوڑ کر وطن آگئے اور زقازق یونیورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات سرانجام دیں۔ اخوان کے ساتھ تعلق اور مصر کے آمرانہ ماحول میں محمد مرسی کو سرکاری ملازمت چھوڑ کر سیاسی میدان میں آنا پڑا۔ اس وقت حسنی مبارک مصر کا صدر تھا اور اخوان پر بطور سیاسی جماعت پابندی تھی۔ اخوان سے تعلق رکھنے والے سیاسی لوگ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑتے اور پارلیمان میں اپنا گروپ تشکیل دیتے تھے۔ ان ناقابل بیان اور ناروا غیراخلاقی پابندیوں کے باوجود اخوان کی پارلیمانی کارکردگی ایک بہت بڑا کارنامہ اور مقبولیت کی دلیل ہے۔
محمد مرسی دو مرتبہ پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے۔پہلی بار 1995ء میں حسنی مبارک حکومت کی تمام تر دھاندلی کے باوجود اچھی خاصی اکثریت کے ساتھ پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے۔ دوسری مرتبہ 2000ء میں رکن منتخب ہوئے۔ اس دوران وہ اخوان المسلمون کی مجلس شوریٰ (مکتب ارشاد) کے رکن بھی تھے۔ 2002ء سے 2005ء تک پارلیمان میں ان کی کارکردگی اتنی عظیم تھی کہ انہیں عالمی سطح پر دنیا کا بہترین پارلیمانی رکن قرار دیا گیا۔ یہ اعزاز خاصی چھان بین کے بعد دیا جاتا ہے اور ایک نظریاتی مسلمان قانون ساز کو یہ اعزاز ملنا اس کی عظمت کی گواہی ہے، جو نظریاتی مخالفین نے بھی تسلیم کی۔ یہ اخوان اور ان کے مخلص ممبر پارلیمان کے ساتھ خود اس اسمبلی اور پورے ملک کیلئے ایک بڑا اعزاز تھا۔
جب عالم عرب میں ''عرب بہار‘‘ وجود میں آئی تو تیونس کے بعد دیگر ممالک بالخصوص مصر میں بھی اس نے زور پکڑا۔ رابعہ بصریہ کے میدان اور تحریر سکوائر میں روزانہ لاکھوں لوگ جمع ہوتے اور بنیادی حقوق اور آزادی کے لیے آواز بلند کرتے۔ حکومت نے ان پُرامن عوامی اجتماعات پر کئی مرتبہ گولیاں چلائیں اور کم وبیش سات سو بے گناہ افراد ان دنوں میں موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ دس ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے اور ہزاروں لوگ جیلوں میں بند کردیے گئے۔ ڈاکٹر محمد مرسی کو بھی 28 جنوری 2011ء کو اخوان کے 24 دیگر رہنماؤں کے ساتھ گرفتار کرکے پابند سلاسل کر دیا گیا۔ اس سب کچھ کے باوجود تحریک کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوتی گئی۔ انہی دنوں ایک عوامی ریلے نے جیل پر دھاوا بولا اور جمہوریت کی آواز بلند کرنے والے کارکنوں کو جیل سے نکال لیا۔ قصہ مختصر یہ کہ مصر کے ظالم صدر حسنی مبارک کو 11 فروری 2011ء کو تیس سال مصر پر حکومت کرنے کے بعد اقتدار سے محروم کردیا گیا۔ فوجی جرنیل محمد طنطاوی نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
عرب لہر اتنی مضبوط تھی کہ فوجی حکومت کو انتخابات کا اعلان کرنا پڑا۔ ان انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اخوان المسلمون نے 2011ء میں فریڈم اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی۔ اس کے پہلے صدر ڈاکٹر محمد مرسی منتخب ہوئے۔ انہوں نے اخوان کے دیگر قائدین کے ساتھ مل کر بہت تھوڑے عرصے میں اپنی سیاسی پارٹی کو عوام الناس میں شاندار مقبولیت کے مقام پر پہنچا دیا۔ تمام اخوانی کارکن، مردوخواتین، مزدور وکسان، ڈاکٹر وانجینئر، طلبہ اور اساتذہ سبھی میدان عمل میں سرگرم عمل ہوگئے۔ اس نئی سیاسی جماعت نے 2012ء کے عام انتخابات میں حصہ لیااور سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کے طور پر کامیابی حاصل کی۔ اخوان کی تحریک اپنے نئے نام کے ساتھ اپنے دستور کے مطابق سرگرم عمل رہی۔ سیاسی جماعت مکتب ارشاد کی ہدایت کے تابع سیاست کرتی رہی۔
فریڈم اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے اخوان کے معروف رہنما اور عالمی شہرت کے مالک سکالر ڈاکٹر محمد خیرات الشاطر کو صدارتی انتخابات کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا جبکہ ڈاکٹر محمد مرسی ان کے کورنگ امیدوار کے طور پر نامزد کیے گئے۔ ڈاکٹر خیرات کو الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دیا تو محمد مرسی صدارتی انتخابات کے میدان میں اترے۔ انہوں نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے مگر اکثریت نہ مل سکی۔ اس پر دوسرا راؤنڈ ہوا اور انہوں نے اپنے مدمقابل احمد شفیق کو‘ جسے مصری فوج کے علاوہ دیگر تمام پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی‘ شکست دے کر فتح حاصل کی۔ ڈاکٹر حافظ محمد مرسی کو 51.73 فیصد ووٹ ملے۔
صدر مرسی نے حلف اٹھانے کے بعد سرکاری پروٹوکول ختم کرکے بالکل عوامی انداز اختیار کیا۔ انہوں نے حکم جاری کیا کہ صدر کی گاڑی اسی طرح ٹریفک کے اشاروں پر رکے گی جس طرح عام گاڑیاں رکتی ہیں۔ اسی طرح انہوں نے ایوانِ صدارت کے اخراجات پہلے کے مقابلے میں بہت کم کردیے۔ (جاری)