ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا!
موت برحق ہے۔ جو دنیا میں آیا ہے‘ اسے اپنے وقت پر یہاں سے چلے جانا ہے، مگر بعض شخصیات کی موت پوری دنیا کو ہلا کررکھ دیتی ہے۔ 26 ستمبر 2022ء کو ایک ہر دلعزیز ، انتہائی عظیم اور جامع شخصیت دنیا سے رخصت ہو گئی۔ مشرق و مغرب میں سب لوگ ان کو الشیخ یوسف القرضاوی کے نام سے جانتے ہیں۔ آپ کا مختصر تعارف اس مضمون میں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ الشیخ یوسف القرضاوی سرزمین مصر کے مردم خیز خطے کے قابلِ فخر سپوت تھے۔ 9ستمبر 1926ء کے روز آپ کی پیدائش مصر کے مغربی صوبے کے ضلع المحلّۃ الکبریٰ کے گائوں صفت تراب میں ایک معمولی کاشتکار گھرانے میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کی حکمت و مصلحت وہ ذاتِ مقدس خود ہی جانتی ہے۔ انسانی عقل کے پیمانوں سے اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کو نہیں ناپا جا سکتا۔
یوسف قرضاوی کی پیدائش سے قبل ان کے والدعبداللہ القرضاوی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ یوسف قرضاوی ابھی ایک سال کے بھی نہیں ہوئے تھے کہ آپ کی والدہ بھی وفات پا گئیں۔ آپ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ آپ کے دادا‘ نانا بھی سر پر نہیں تھے اور خاندان مالی وسائل کے لحاظ سے بھی انتہائی عسرت میں تھا۔ آپ جس مصری قصبے میں پیدا ہوئے‘ اس قصبے کے متعلق تاریخ میں ایک واقعہ ابن حجر عسقلانیؒ نے بیان کیا ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ آنحضورﷺ کے آخری صحابہ کرام میں سے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن حارثؓ زبیدی‘ جو مصر میں مقیم ہو گئے تھے‘ اسی گائوں میں فوت ہوئے اور یہیں دفن ہوئے۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ مصر میں وفات پانے والے صحابہ کرامؓ میں سے آخری صحابی تھے۔ یوں اس گائوں کو اس صحابیٔ رسول کا مدفن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ (الاصابہ فی تمیز الصحابۃ، ص: 291)
دورِ جدید کے عظیم مفکر، مصنف اور مجدد حضرت علامہ یوسف قرضاویؒ صاحب کی پیدائش اسی تاریخی گائوں میں ہوئی۔ آپ کی ولادت اور پرورش اس تاریخی بستی کے ایک دہقان و مزدور خاندان میں ہوئی۔ آپ کے چچائوں اور پھپھیوں نے آپ کو محبت سے پالا پوسا۔ ارکانِ خاندان کا خیال تھا کہ یہ بچہ‘ جو جسمانی لحاظ سے طاقتور و تنومند ہے‘ ابتدائی تعلیم کے بعد یا تو کاشتکاری میں لگ جائے یا بڑھئی (کارپینٹر) بن کر روزی کمائے۔ ایک تجویز یہ بھی تھی کہ گائوں میں کوئی چھوٹی موٹی دکان کھول لے۔ نو عمر یوسف قرضاوی یہ سب باتیں سنتے اور اپنے دل میں سوچتے کہ کیا میں انہی شعبوں میں کام کرنے کے لیے پیدا ہوا ہوں۔ ان کے عزائم بہت بلند تھے اور انہیں اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ تھا کہ وہ ان کی دستگیری فرمائے گا۔ خاندان کے بڑوں کی سوچ تو اوپر بیان ہوئی ہے، مگر اللہ رحمن و رحیم کی مشیت اور فیصلہ اس کے برعکس تھا۔ ظاہر ہے کہ عرش پر ہونے والے فیصلے ہی لاگو ہوتے ہیں۔ ''تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ‘‘۔
اس یتیم ہیرے کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال کر رکھا تھا۔ آپ کے معصوم ذہن میں یہ تصور پختہ اور غیر مبہم تھا کہ جیسے بھی ہو تعلیم، بالخصوص دینی شعبے میں جاری رکھنی ہے۔ مقامی تعلیمی اداروں سے قرآن پاک مکمل حفظ کر لیا جبکہ عمر ابھی صرف نو سال تھی۔ اسی طرح ثانوی تعلیم میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے ساتھ ہی عالمی شہرت کی حامل قدیم مصری یونیورسٹی جامعۃ الازہر میں خود کو داخلے کے لیے تیار کر لیا۔ وہاں فارم داخل کرائے اور داخلے کی اجازت مل گئی۔ وہیں ابتدائی اور ثانوی تعلیم مکمل کی۔ ہمیشہ اعلیٰ پوزیشن میں کامیاب ہوئے۔ اس عرصے میں اخوان المسلمون سے متاثر ہونے کی وجہ سے آپ کو جیل بھی جانا پڑا اور اس دورِ طالب علمی میں اس ابتلا کے باوجود ثانویہ کے امتحان میں آپ پورے ملک میں دوسرے نمبر پر آئے۔
ثانویہ کے بعد کالج میں آپ نے ''کلیہ اصول الدین‘‘ جامعہ ازہر میں داخلہ لیا اور 1952ء تا 1953ء میں عالیہ کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ آپ ذہین بھی تھے اور محنتی بھی۔ اپنی ذہانت اور محنت کو زندگی بھر مثبت کاموں میں استعمال کیا۔ جامعہ ازہر ہی میں آپ نے عالمیہ کا امتحان 1954ء میں پاس کیا اور اس میں بھی پہلی پوزیشن لی۔ اس دوران آپ کو تعلیمی سکالرشپ بھی ملتی رہی۔ 1958ء میں آپ نے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن سے زبان اور ادب میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ 1960ء میں علوم القرآن والسنہ کے مضمون میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔ اسی کالج سے 1973ء میں آپ نے پی ایچ ڈی کی۔ پی ایچ ڈی میں بھی آپ کا ریکارڈ کوئی نہ توڑ سکا۔ آپ کا مقالہ بہت پسند کیا گیا جو بعد میں کتابی شکل میں چھپا اور دنیا کی کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔ اس کا موضوع 'زکوٰۃ اور اس کی برکات‘ تھا۔ اس میں آپ نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا کہ کسی بھی مسلم معاشرے کے اندر معاشی مشکلات اور معاشرتی مسائل کا حل نظام زکوٰۃ و عُشر ہی سے ممکن ہے۔
تعلیم کے دوران ہی آپ بہت اچھے خطیب اور ادیب کے طور پر معروف ہو گئے تھے۔ آپ کے مضامین کئی مصری اخبارات و جرائد میں چھپتے تھے۔ اسی طرح آپ جس مسجد میں بھی خطاب کرتے لوگ آپ کے خطاب کو بہت پسند کرتے اور چاہتے کہ آپ انہی کی مسجد میں خطابت کا فریضہ سنبھال لیں۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو خطابت و تدریس ہی کے شعبے دل میں سمائے ہوئے تھے؛ چنانچہ انہی میں خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران آپ کو معھد الائمۃ (انسٹیٹیوٹ آف ٹریننگ برائے ائمہ) کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ یہ ادارہ مصر کی وزارتِ اوقاف کے تحت قائم تھا۔ کچھ عرصے کے بعد آپ کاتقرر ازہر یونیورسٹی میں ثقافت ِاسلامیہ کے شعبے میں ہو گیا۔ اس شعبے میں اسلامی مطبوعات اور فتاویٰ کی ترتیب و تدوین اور طباعت کا کام ہوتا تھا۔ آپ 1961ء تک مصر کے مختلف علمی و تحقیقی اداروں میں اہم ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔
35سال کی عمر میں آپ مملکتِ قطر میں حکومتِ قطر کی دعوت پر منتقل ہوئے۔ یہاں آپ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ آپ محکمۂ تعلیم کے تحت قائم ادارے معھد الدینی ثانوی کے ڈائریکٹر کے طور پر اس انسٹیٹیوٹ کو منظم کریں۔ اس ادارے کے اندر جدید و قدیم‘ دونوں تعلیم کے شعبے قائم تھے۔ یہاں بہترین اور معیاری نصاب کی تیاری اور پھر یہاں زیرِتعلیم طلبہ کو اعلیٰ تعلیمی معیار کے ساتھ تربیت کا صالح ماحول فراہم کرنا آپ کی ذمہ داری قرار پائی تاکہ فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ اچھے انسان اور صالح مسلمان بن کر نکلیں۔ ظاہر ہے کہ الشیخ قرضاوی کی اپنی ذہنی سوچ اور فطری میلان کے مطابق یہ ذمہ داری بہت مناسب تھی۔ لہٰذا آپ نے پوری دلجمعی کے ساتھ اس ذمہ داری کو نبھایا۔ آپ نے اس ادارے کو اعلیٰ درجے کا ادارہ بنایا جو عرب دنیا ہی نہیں‘ عجمی ممالک کے طلبہ کے لیے بھی پُرکشش تھا۔ بہت سے بیرونی ممالک کے طلبہ یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے ملکوں میں واپس جا کر اعلیٰ مناصب پر فائز ہوئے۔
اس ادارے کی کامیابی کے بعد آپ کو 1973ء میں قطر یونیورسٹی میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے دو الگ الگ شعبے قائم کر کے انہیں معیاری اور کامیاب بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ آپ کو ان دونوں شعبوں کا سربراہ بنا دیا گیا۔ یہ سرکاری ذمہ داری تھی جس کے ساتھ آپ خطباتِ جمعہ دیتے، مختلف تربیتی و تعلیمی اور معاشی کانفرنسوں میں بطور ماہر شرکت کرتے اور بہترین تقاریر کے ذریعے لوگوں کی علمی پیاس بجھاتے رہے۔ اس دور میں آپ کی شہرت ایک صاحبِ علم خطیب، مستند محقق و مصنف اور معتدل دل مزاج مجدد کے طور پر عرب دنیا سے نکل کر پورے عالم اسلام بلکہ مشرق و مغرب کے تمام خطوں میں پہنچ گئی۔ 1977ء میں قطر یونیورسٹی ہی کے اندر قائم ''کلیۃ الشرعیہ والدراسات الاسلامیہ‘‘ کے سربراہ مقرر کیے گئے۔ یہ ذمہ داری آپ نے 13سال تک ادا کی۔ 1990ء میں اس ادارے سے آپ کا تبادلہ قطر یونیورسٹی نے اپنے ایک دوسرے شعبے ''مرکز بحوث السنۃ والسیرۃ النبویۃ‘‘ میں کر دیا گیا اور آپ کو اس کا ہیڈ مقرر کیا گیا۔ آپ زندگی کے آخر تک اس ادارے کے سربراہ رہے۔
حق تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ مرحوم نے دنیا بھر میں علمی اور فلاحی صدقات اپنے پیچھے چھوڑے ہیں۔ آپ فلسطین کے مجاہدین اور کشمیر کے حریت پسندوں کے سرگرم حامی تھے۔ آپ نے ہمیشہ فرمایا کہ خودکش حملے اسلام میں حرام ہیں، مگر فلسطین میں‘ جہاں دشمن کے پاس بم ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے‘ فلسطینیوں کو دشمنوں پر خودکش حملے کرنے کی اجازت ہے۔ آپ کے اس فتوے پر بڑی لے دے ہوئی، مگر آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہے تآنکہ شیخ الازہر کو بھی اس فتوے کی تائید کرنا پڑی۔