حج کی فرضیت اور فضائل!

حج بیت اللہ پانچ بنیادی ارکانِ اسلام میں سے ایک ہے۔ جو شخص استطاعت کے باجوود حج نہیں کرتا‘اس کی اس لاپروائی کو قرآنِ مجید میں سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر97میں کفر سے تشبیہ دی گئی ہے۔ حدیث شریف میں بھی ارشاد ہے کہ جو استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا‘ اللہ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ یہودی یا نصرانی ہوکر مرے۔ (سنن ترمذی)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی میں ایک ہی حج کیا ہے۔ آپﷺ مدینہ سے 10 ہجری میں حج کے لیے مکہ تشریف لائے۔ مکہ میں داخل ہونے کے کئی راستے تھے۔ حضور پاکﷺ بالائی جانب سے تشریف لائے اور باب بنی شیبہ میں سے بیت اللہ میں داخل ہوئے۔ اسی کے باہر آپﷺ نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا۔ جب آپﷺ کی نگاہ بیت اللہ پر پڑی تو آپﷺ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا مانگی: اللّٰہُمَّ زِد ھذَالبیت تشریفًا وتعظیمًا وَتکرِیمًا ومھابۃً، وزد من عظّمہ ومن حجّہ واعتَمَرَہٗ تشریفًا وتَکریمًا ومھابۃ وَتعظِیْمًا وبِرًّا! اے اللہ اس گھر (بیت اللہ شریف) کے شرف وعزت، عظمت وبزرگی اور ہیبت وجلال میں اضافہ فرما اور جو کوئی حج اور عمرے کے لیے آئے اور تیرے اس گھر کی عزت وتکریم کرے تو اسے بھی عزت وتکریم، نیکی اور رعب وجلال سے نواز دے۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی 5/73)۔
نبی اکرمﷺ کی اس دعا کو خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے مسنون دعا کا درجہ حاصل ہے اور جونہی کوئی زائر خانہ کعبہ یعنی مسجد الحرام کی عمارت اور میناروں کو دیکھے تو اولین نظر کے بعد یہ دعا مانگے۔ اس کے ساتھ وہ اپنی جائز اور نیک حاجات میں سے جس حاجت کو بھی اللہ تعالیٰ سے طلب کرے‘ اللہ تعالیٰ اسے وہ عطا فرما دیتا ہے، کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اس کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی۔ جونہی آنحضورﷺ بیت اللہ کے دروازے سے اندر داخل ہوئے تو آپﷺ نے پہلا کام یہ کیا کہ خانہ کعبہ کے اس کونے میں پہنچے جہاں حجرِ اسود نصب ہے۔ وہاں سے آپﷺ نے حجرِ اسود کا بوسہ لیا اور طواف کی نیت فرما کر طواف شروع کیا۔ صحابہ کرامؓ بھی آپﷺ کے ساتھ اس عمل میں شریک تھے۔ صحابہ کرامؓ کی سعادت اور خوش بختی تھی کہ انہیں حج میں آنحضورﷺ کی رہنمائی اور امامت حاصل تھی۔
ایک بندۂ مومن جب بھی اپنے دل میں وہ منظر تازہ کرے تو جھوم اٹھتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے خود خانہ کعبہ بھی اس روز اپنی قسمت پہ نازاں تھا۔ یہ قدسی صفت طائفین اللہ تعالیٰ کی دھرتی پر اس کے محبوب ترین بندے تھے۔ ان کے امیر الحجاجﷺ جیسا کوئی امیر اس سے قبل کسی قافلے کو ملا تھا نہ اس کے بعد کسی کارواں کو نصیب ہوسکتا ہے۔ اس جماعت جیسی پاکیزہ صفت جماعت چشمِ فلک نے نہ اس سے قبل دیکھی تھی نہ دھرتی کا سینہ اس کے بعد اس سے آشنا ہوسکتا ہے۔
آپﷺ نے طواف شروع کرنے سے قبل اپنی چادر دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر اس کا سرا بائیں کندھے پر ڈال لیا۔ یعنی دایاں کندھا ننگا کردیا۔ چادر کو یوں پہننا اصطلاح میں اصطباغ کہلاتا ہے۔ پہلے تین چکروں میں آپﷺ نے رمل کیا یعنی اپنے بازو اور شانے ہلاتے ہوئے تیز رفتاری سے یہ چکر مکمل کیے۔ اس طرح چلنے کو رمل کہتے ہیں اور طواف میں پہلے تین چکروں میں یہ مسنون ہے۔ آپﷺ نے سات چکر مکمل کیے، حجرِ اسود سے طواف شروع ہوا تھا اور اسی پر مکمل ہوا۔ طواف مکمل ہوتے ہی مقامِ ابراہیم پر تشریف لائے یہاں آپﷺ نے سورۂ البقرہ کی آیت نمبر 126 کا یہ حصہ پڑھا: وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاھِیْمَ مُصَلًّی۔''ابراہیم جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوا، اس مقام کو مستقل جائے نماز بنالو‘‘۔ پھر آپﷺ نے مقامِ ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان میں رکھتے ہوئے قبلہ رخ ہوکر دو رکعت نوافل ادا کیے۔
زم زم اور صفا ومروہ کی ایک عظیم الشان اور ایمان افروز تاریخ ہے۔ یہ آپﷺ کی دادی سیدہ ہاجرہؓ اور آپﷺ کے دادا ذبیح اللہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی عظیم یادگاریں ہیں، جو صدیوں سے قائم ہیں اور تاقیامت ان کی برکات جاری رہیں گی۔ مقام ابراہیم پر دوگانہ ادا کرنے کے بعد آپﷺ چاہِ زمزم پر آئے اور خوب پیاس بجھائی۔ یہاں سے آپﷺ صفا ومروہ کی طرف بڑھے اور سیدھے صفا کے اوپر چڑھے اور یہ آیت پڑھی: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ... (البقرۃ: 158) ''یقینا صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں‘ لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے، اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کرلے اور جو برضا ورغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا، اللہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے‘‘۔
صفا پہ کھڑے ہو کر آپﷺ نے خانہ کعبہ پر نظر ڈالی اور یہ الفاظ ادا کیے جوفتح مکہ کے وقت بھی آپﷺ کی زبان پر جاری تھے: لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ اَنْجَزَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَہَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ۔ (ترجمہ) اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں‘ اس کا کوئی شریک نہیں‘ اسی کے لیے سلطنت اور ملک اور حمد وتعریف ہے‘ وہ مارتا ہے اور جلاتا ہے اور وہ تمام چیزوں پر قادر ہے‘ کوئی خدا نہیں مگر وہ اکیلا خدا‘ اس نے اپنا وعدہ پورا کیا‘ اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے تمام قبائل کی افواج کو شکست دی۔(سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)
صفا سے آپﷺ نے سعی شروع کی اور مروہ کی طرف گئے۔ جو مقام نسبتاً ہموار تھا وہاں پر آپﷺ نے سعی کے دوران دوڑ لگائی اور پھر جب چڑھائی آئی تو معمول کی چال چلنے لگے۔ یہ سعی بین الصفا والمروہ سیدہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی سنت ہے۔ جب وہ اپنے شیرخوار بچے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہاں چھوڑ دی گئی تھیں۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی اور اس دودھ پیتے بچے کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت میں اس مقام پر چھوڑ کر جارہے تھے تو وہی جانتے تھے کہ ان کے دل پر کیا گزری اور پھر ماں اور بچے پر جو گزرنے والی تھی اس کا تو تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا اور دل کو تڑپا دیتا ہے۔ سیدہ ہاجرہؓ پانی کی تلاش میں اپنے بیٹے اسماعیل کو اس مقام پر لٹا کر صفا کے اوپر چڑھی تھیں کہ شاید کہیں سے کوئی مدد ملنے کا راستہ نکل آئے۔ جب کچھ نظر نہیں آیا تو پھر مروہ کی طرف گئیں۔ معصوم بچہ ایڑیاں رگڑ رہا تھا اور بھوک پیاس کی شدت سے تڑپ رہا تھا۔ جب ماں ہموار جگہ پر پہنچتی تو ایک نظر اپنے بیٹے پر ڈالتی اور تیز تیز قدموں کے ساتھ آگے بڑھتی۔ ڈھلوان اور چڑھائی پر وہ آہستہ آہستہ چلتیں۔ اس طرح انہوں نے صفا سے مروہ کی طرف چار اور مروہ سے صفا کی طرف تین چکر لگائے۔ دونوں پہاڑیوں کی چوٹی سے آس پاس دیکھا تو مدد کی کوئی امید برنہ آئی۔ آخر واپس اپنے بیٹے کی طرف آئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ خشک اور چٹیل زمین پر اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے کی وجہ سے پانی کا چشمہ پھوٹ نکلا ہے۔ ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے پانی کے گرد کنکریوں اور مٹی کی اوٹ کھڑی کی اور بے ساختہ زبان سے نکلا 'زمزم‘ (رک جا‘ رک جا)۔ یہ زمزم بھی اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ اس کا پانی بھوک اور پیاس کے لیے بھی کارگر ہے اور ہر بیماری سے شفا کے لیے بھی نسخۂ کیمیا ہے۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے میری دادی کی دعا قبول فرما کر اس پانی کو اس کے مقام پر روک دیا ورنہ یہ ایک چشمے کی صورت رواں دواں ہوجاتا اور دور دور تک پہنچتا۔ آپﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اس پانی کو انسان جس جائز مقصد کے لیے بھی استعمال کرے‘ یہ اس میں فائدہ پہنچاتا ہے۔ مشہور تابعی اور عظیم عالم ومجاہد حضرت عبداللہ بن مبارکؒجب پہلی بار حج اور عمرے کے لیے مکہ آئے تو زمزم پیتے وقت دعا کی: اے اللہ تیرے سچے نبیﷺ کا وعدہ ہے کہ زمزم ہر مقصد میں نفع پہنچاتا ہے، میں آج اسے پی رہا ہوں کہ یومِ حشر کی پیاس سے محفوظ ہو جاؤں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دادی اماں کی اتباع میں صفا مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔ جاہلیت کے دور میں قریش اور دیگر عرب قبائل بہت سے مناسک کو بھول چکے تھے مگر صفا مروہ کے درمیان سعی کیا کرتے تھے۔
ایک روایت کے مطابق آپﷺ نے اپنی اونٹنی پر ہی سوار ہو کر یہ سعی کی تھی۔ جب سعی مکمل ہوئی تو آپﷺ پھر زمزم کی طرف آئے اور پانی پیا۔ پھر آپﷺ اپنی منزل پر تشریف لے گئے جہاں آپﷺ کا خیمہ لگایا گیا تھا۔ اس مقام کا نام الابطح ہے۔ فتح مکہ کے وقت اور اس سے قبل عمرۃ القضاکے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجون کے مقام پر خیمے میں مقیم رہے۔ آپﷺ سے کہا گیا کہ آپ اپنے گھر میں کیوں تشریف فرما نہیں ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ ہمارا گھر رہا ہی کہاں ہے جس میں ہم مقیم ہوں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر بھی آپﷺ کسی گھر میں مقیم نہیں ہوئے، بلکہ ابطح کے مقام پر خیمے ہی میں قیام فرمایا۔ اس دوران آپﷺ حرم کے اندر آکر قصر نمازیں پڑھتے رہے۔ (المغازی للواقدی، ج:2، ص: 829)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں