حق و باطل کے معرکے

حق و باطل ازل سے ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہیں۔ یہ سلسلہ ابد تک جاری رہے گا۔ آج کے دور میں مجاہدینِ غزہ کی ہمت لاجواب و بے مثال ہے۔ اپنے اور بیگانے سبھی حیران ہیں کہ یہ نہتے لوگ آخر کس بل پر ایک اندھی، ظالم، وحشی اور انسانی اقدار و اخلاق سے بالکل عاری قوت کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کے علاوہ اسرائیل کے دوست مسلم ممالک کا بھی یہ خیال تھا کہ حماس نے بہت خطرناک اقدام کیا ہے اور اب اس کا خاتمہ نوشتۂ دیوار ہے۔ حماس نے یہ اقدام کیوں کیا، حماس کی قیادت نے بغیر کسی ابہام کے اسے کئی بار عرب اور عالمی میڈیا کے سامنے واضح کیا ہے ۔ جب کسی بستی، علاقے اور ملک میں جینا حرام ہو جائے تو لوگوں کا ردعمل دو طرح کا ہوتا ہے؛ بزدل اور بے ہمت لوگ خود کو جبروستم کے سامنے ڈھیر کر دیتے ہیں اور جبر کی قوتیں جو کہیں اس پر سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں، یہ ذلت کی زندگی ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا ردعمل اہل ہمت و غیرت کا ہوتا ہے۔ وہ ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اہلِ غزہ نے حماس کی قیادت میں یہ دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔
عقل کے غلاموں سے یہ دنیا بھر ی ہوئی ہے۔ ان مصلحت پسند غلامانِ عقل نے ہزار مرتبہ ان عشاقِ صادق کو سمجھایا کہ جھک جائو ورنہ مارے جائو گے، مگر ان صادق الایمان لوگوں اور عشق کے باوفا متوالوں نے دو ٹوک جواب دیا کہ موت برحق ہے اور اپنے وقت پر ہی آتی ہے۔ موت کے خوف سے ڈر کر غیرت کو ہوا میں اڑا دینا اور ایمان کا سودا کر لینا ہماری لغت میں نہیں ہے۔ ایسے ہر موقع پر لگتا ہے کہ علامہ اقبالؒ غزل سرا ہیں:
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اَسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
فتنۂ ملّتِ بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
تاریخِ اسلام ہر مخلص صاحبِ ایمان کے لیے روشنی کا منبع ہے۔ ہمیں اپنی شاندار تاریخ کے ہر دور میں وہ کردار نظر آتے ہیں جو ایسی مصلحت کا کھل کر انکار کرتے ہیں جو خودی کی موت اور غیرت کا جنازہ نکالنے کا موجب ہو۔ عاشق صادق نے سلطان ٹیپو شہید کا تذکرہ کرتے ہوئے کیا خوب لکھا:
تو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول!
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول!
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبریل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دِل نہ کر قبول!
باطل دوئی پسند ہے، حق لاشریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول!
غزہ سے تعلق رکھنے والے حماس کے ایک کارکن کی بات دل میں گھر کر گئی۔ اس کا کہنا تھا ''ہم اپنے بچپن میں اپنی ماں، دادی، نانی اور بزرگوں سے جو کہانیاں سنتے رہے ہیں، وہ تیتر، مور اور لومڑی، گیڈر کی نہیں ہوتیں بلکہ وہ اپنی شاندار تاریخ اور اسلافِ صالحین کے ایمان افروز اور سچے واقعات ہوتے ہیں۔ آزمائش و ابتلا اور استقامت و عزیمت کی سچی جھلکیاں ہمارے بچوں کا ایمان محکم کر دیتی ہیں۔ حضور نبی پاکﷺ اور صحابہ کرامؓ نے ساری زندگی کٹھن حالات کا مقابلہ کیا۔ وہی ہمارے آئیڈیل ہیں‘‘۔ واقعی یہ تاثر حق اور سچ پر مبنی ہے۔ سیرتِ نبوی کا مطالعہ ایمان کی تازگی و بالیدگی اور راہِ خدا میں جذبۂ قربانی کو پروان چڑھاتا ہے۔ حضور پاکﷺ کی حیاتِ طیبہ میں خندق کا معرکہ اتنا مشکل اور اعصاب شکن تھا کہ قرآنِ مجید کے الفاظ میں ''(یاد کرو وہ وقت) جب دشمن اوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آ گئے... اس وقت ایمان لانے والے خوب آزمائے گئے اور بری طرح ہلا ڈالے گئے‘‘۔ (سورۃ الاحزاب: آیات: 10 تا 11 )
کفر کی متحدہ فوجوں نے کئی دنوں تک مدینہ منورہ کا محاصرہ کیے رکھا مگر ان کے لیے خندق کو عبور کرنے کی کوئی صورت نہیں نکل رہی تھی۔ بالآخر ایک دن قریش کے معروف جنگجو اور گھڑ سوار خندق کو عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ جن سور ماؤں نے اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر خندق عبور کی ان میں عمرو بن عبدود، نوفل بن عبداللہ، ہبیرہ بن ابی وہب، ضرار بن خطاب اور ابن مرداس الفہری شامل تھے۔ خندق عبور کرنے والے یہ تمام لوگ عرب کے بہادر ترین جنگجو اور ماہر ترین شمشیر زن تھے۔ ان میں سب سے زیادہ طاقتور عمرو بن عبدود تھا، جس کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا کہ وہ تنہا ایک ہزار جواں مردوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس کے اپنے ذہن میں بھی یہ گھمنڈ تھا کہ اب کوئی اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا۔ اس قریشی جنگجو نے مبارزت کے لیے پکارا تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے آنحضورﷺ سے اس کے مقابلے کے لیے اذن مانگا۔
آنحضورﷺ نے فرمایا: ''علی! تمہیں معلوم ہے وہ عمرو بن عبدود ہے‘‘۔ آپؓ نے عرض کیا ''یا رسول اللہﷺ! مجھے کوئی پروا نہیں کہ وہ کون ہے‘‘۔ عمرو بن عبدود کی بار بار کی ڈینگوں کے جواب میں حضرت علیؓ نے باصرار رسول رحمتﷺ سے اجازت مانگی۔ اس عرصے میں عمرو بن عبدود رِجزیہ اشعار پڑھ کر مسلمانوں کا مذاق اڑا رہا تھا۔ اس نے بڑی رعونت کے ساتھ کہا ''مسلمانو! تم عجیب لوگ ہو، ایک جانب تمہارا عقیدہ ہے کہ تم میں سے جو قتل ہو جائے وہ جنت میں چلا جاتا ہے اور دوسری طرف تمہاری بزدلی کا یہ عالم ہے کہ میرے مقابلے کے لیے کوئی نہیں نکلتا‘‘۔ اس پر آنحضورﷺ نے سیدنا علیؓ کو مقابلے کا اذن دے دیا۔ آپﷺ نے سیدنا علیؓ بن ابی طالب کو اجازت مرحمت فرمائی تو اس کے ساتھ اپنی مشہور و معجز نما تلوار ''ذوالفقار‘‘ بھی عطا کی۔
حضرت علیؓ دشمن کی طرف روانہ ہوئے تو آنحضورﷺ نے اﷲ تعالیٰ سے بڑی عاجزی کے ساتھ دعا مانگی ''اے اﷲ دشمن کے مقابلے میں علیؓ کی مدد فرما۔ پروردگار! بدر میں تو نے مجھ سے عبیدہؓ بن حارث بن عبدالمطلب لے لیا تھا اور احد میں حمزہؓ بن عبدالمطلب لے لیا۔ اب میرے بھائی کو نہ لے لینا۔ اسے دشمن پر غلبہ عطا فرمانا‘‘۔ حضرت علیؓ زندگی بھر کبھی کسی جنگجو سے مرعوب نہیں ہوئے تھے۔ نورالدین علی بن ابراہیم الحلبی نے اپنی مشہور سیرت (جلد دوم، ص: 427) پر حضرت علیؓ کے رِجزیہ اشعار لکھے ہیں جن کو پڑھ کر ایمان کی حرارت تیز ہو جاتی ہے۔
عمرو جنگ بدر میں بھی آیا تھا جہاں سے شکست کی ذلت اور زخموں کی عار لے کر واپس پلٹا تھا۔ اس نے قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک پیغمبرِ اسلام کو (نعوذ باللہ) قتل نہ کر دے سر میں تیل نہیں ڈالے گا۔ جب اس نے حضرت علیؓ کو اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ انہیں پہچان نہ سکا۔ اس نے پوچھا: ''جو ان تم کون ہو؟‘‘ حضرت علیؓ نے جواب دیا ''میں علی بن ابی طالب ہوں‘‘۔ یہ سنتے ہی اس نے قہقہہ لگایا اور کہا ''بھتیجے اپنے کسی طاقتور چچا کو بھیجو۔ تم کیوں اپنی جوانی میں موت کو دعوت دے رہے ہو۔ تمہارے والد میرے دوست بھی تھے اور محسن بھی۔ اس لیے میں تمہارا خون بہانا مناسب نہیں سمجھتا‘‘۔
سیدنا علیؓ بن ابی طالب نے اس کی باتیں سکون سے سنیں۔ پھر فرمایا : ''میں تمہارے سامنے تین باتیں پیش کرتا ہوں تم ان میں سے کوئی ایک قبول کر لو۔ پہلی بات یہ ہے کہ تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ۔ عمرو نے کہا: ''یہ دعوت تو ناقابلِ قبول ہے‘‘۔ آپؓ نے فرمایا: ''تو پھر تم واپس اپنے گھر چلے جاؤ‘‘۔ یہ سن کر عمرو نے کہا ''ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ اگر میں واپس چلا جاؤں تو قریش کی عورتوں کے طعنے سننے پڑیں گے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ میری نذر پوری ہونے کا وقت آ گیا ہے‘‘۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: ''اچھا پھر آ جاؤ دو‘ دو ہاتھ کر لیں‘‘۔
عمرو نے پھر قہقہہ لگایا اور وہی بات دہرائی کہ وہ نوجوانی میں حضرت علیؓ کو قتل کرنا نہیں چاہتا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا : ''بخدا میں تو تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ یہ سن کر عمرو غصے سے لال پیلا ہو گیا۔ وہ گھوڑے سے اتر آیا اور اس کی کونچیں کاٹ دیں پھر حضرت علیؓ کی طرف بڑھا۔ اس کی تلوار فضا میں چمکی مگر حضرت علیؓ نے اسے کمال مہارت اور پھرتی سے اپنی ڈھال پر روک لیا۔
حضرت علیؓ نے فرمایا: ''تیار ہو جائو اب میری باری ہے‘‘۔ پھر آپؓ نے اس پر وار کیا تو وہ اس وار کو روک نہ سکا۔ ''الذوالفقار‘‘ نے دشمنِ خدا کے شانے پر ایسی ضرب لگائی کہ خون کا فوارہ پھوٹ نکلا اور قریش کا سورما لڑکھڑا کر زمین پر گر گیا۔ دونوں فوجیں یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ مسلمانوں نے حضرت علیؓ کو دھڑکتے دلوں کے ساتھ دشمن کے مقابلے پر بھیجا تھا۔ جب دشمن کٹ کر گرا تو مسلمانوں نے بے ساختہ نعرہ تکبیر بلند کیا۔ اس موقع پر بعض صحابہ کرامؓ نے یہ نعرہ بھی لگایا ''لافتیً الاّعلی، لاسیف الاّ ذوالفقار!‘‘
یعنی جواں مردوں میں علی جیسا کوئی مرد نہیں اور تلواروں میں ذوالفقار جیسی کوئی تلوار نہیں۔ آنحضورﷺ نے نعروں کی آواز سن کر کمان پوسٹ کے اندر سے فرمایا : ''علی نے عمرو کا کام تمام کر دیا ہے‘‘۔ حضرت علیؓ جب پلٹے تو آنحضورﷺ نے ان کو گلے سے لگا لیا، ماتھا چوما اور دعائیں دیں۔
اہلِ غزہ اور ان کے بچے ان سب واقعات سے پوری طرح جڑے ہوئے ہیں، اسی لیے وہ ناقابلِ شکست ہیں۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں