مصر میں صدر مرسی کے مختصر جمہوری دور کو چھوڑ کر ہمیشہ آمرانہ حکومتیں ہی مسلط رہی ہیں۔ ایسے حکمرانوں کے ساتھ کسی بھی شعبے میں کام کرنے والے لوگوں کی آزادیاں سلب ہو جاتی ہیں اور وہ حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بہرحال جامعہ ازہر کے وائس چانسلر ڈاکٹر عبدالحلیم محمود کا اپنے دور کے دیگر شیوخ کے مقابلے میں جرأت مندانہ مؤقف قابلِ قدر ہے۔ تاہم ان سے شیخ عزالدین کا حوالہ دے کر کسی نے پوچھا کہ ازہر کے تابناک ماضی کی جھلک اس کے حال میں کیوں نظر نہیں آتی تو انہوں نے بڑے خوبصورت انداز میں اس کا جواب دیا۔ آپ نے فرمایا: ''شیخ عزالدین کچے کوٹھے میں رہتے تھے۔ گھر سے اپنے گدھے پر سوار ہو کر جامعہ میں تشریف لاتے تھے اور اسے پارک میں ایک درخت کے ساتھ لمبے رسے سے باندھ دیتے تھے۔ فرائض سے فارغ ہونے کے بعد اسی پر سوار ہو کر واپس چلے جاتے تھے۔ ان سے کوئی کیا چھین سکتا تھا؟ اب صورتحال یہ ہے کہ شیخِ ازہر کا مرتبہ مرکزی وزیر کے برابر ہے۔ مرسڈیز گاڑیاں‘ خدم و حشم‘ پُرتعیش محلات اور بے پناہ مراعات اسے حاصل ہیں۔ یہ سب کچھ حکومت نے بلاوجہ نہیں دیا۔ یہ بلند معیارِ زندگی شیخِ ازہر کو مصلحت کیش اور بزدل بنا دیتا ہے‘‘۔ بقول حکیم الامت:
ہر شے ہوئی ذخیرۂ لشکر میں منتقل
شاہیں گدائے دانۂ عُصفُور ہو گیا
میں جب کینیا میں ڈائریکٹر اسلامک فاؤنڈیشن تھا تو سعودی عرب کے ایک سرکاری ادارے کے ذمہ دار برائے ایسٹ افریقہ شیخ احمد مدخلی سے رابطہ ہوا۔ ادارے کے تحت بہت سے مبعوثین براعظم افریقہ کے کئی ممالک میں دعوت و ارشاد اور تبلیغ و تعلیم کی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ان میں سے بعض کی خدمات اسلامک فاؤنڈیشن کو بھی پیش کی گئیں۔ یہ حضرات ہمارے مختلف تعلیمی اداروں میں تدریس کا کام بحسن و خوبی کرتے رہے۔ سعودی شیخ بہت متحرک اور جفاکش انسان تھے۔ ان کا تعلق نجد سے تھا۔ اپنی بعض خوبیوں کی وجہ سے مجھے وہ بہت بھلے لگتے تھے۔ وہ بھی میرے ساتھ بہت محبت اور شفقت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ہم اسلامک فاؤنڈیشن میں اپنے محدود وسائل کے مطابق اپنا تحریکی کام اپنی رفتار سے چلارہے تھے۔ شیخ صاحب نے مجھ سے اپنی تنظیم میں شامل ہونے اور بدستور اسلامک فاؤنڈیشن کی خدمت جاری رکھنے کی بات چیت کی۔ میں نے معذرت کی مگر وہ مسلسل مختلف مواقع پر اصرار کرتے رہے۔ میرے بعض دوستوں کی رائے میں شیخ کی یہ پیش کش بہت مفید تھی‘ مگر مجھے شیخ عبدالحلیم محمود کی بات یاد تھی۔ یہ واقعہ بہت معمولی سا ہے اور اس کے بیان کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی‘ مگر بعد میں ایک موقع پر صورتحال ایسی پیدا ہو گئی کہ مجھے انہی شیخ محترم سے بعض امور پر شدید اختلاف کا اظہار کرنا پڑا۔ وہ بہت جزبز ہوئے‘ مگر میں اپنے درست مؤقف پر ڈٹا رہا۔ وہ وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود میری رائے پر کسی طرح اثرانداز نہ ہو سکے۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْد۔ اللہ تعالیٰ مرحوم شیخِ ازہر کو جزائے خیر دے کہ وہ اپنی کمزوری اور تاریخی حقائق بیان کرکے دوسروں کے لیے ایک اچھی اور مفید بات ارشاد فرما گئے۔
داعیانِ حق انسانوں کے درمیان رہتے اور انہی میں کام کرتے ہیں۔ امام حسن البنا کی شخصیت میں بے پناہ خوبیاں تھیں۔ اپنے ساتھیوں سے فرمایا کرتے تھے: ''برائی سے نفرت کرو‘ مگر برے لوگوں سے ہمدردی کرو۔ تم طبیب ہو اور طبیب تندرست و توانا لوگوں کے بجائے بیماروں کا علاج کرتا ہے۔ برائی کی بیماری میں مبتلا تمہارے گردونواح میں جتنے بھی لوگ ہیں‘ ان تک اپنی دعوت پہنچاؤ‘ پیار اور محبت سے ان کے دل جیتو اور ان کو راہِ حق پر لے آؤ‘‘۔ حسن البنا عوام سے لے کر خواص تک روابط کے ذریعے دعوت پہنچاتے تھے۔ ان کی زندگی میں اس طرح کے بے شمار واقعات کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اصحابِ اقتدار داعیانِ حق کو ہمیشہ اپنا حریف سمجھتے ہیں۔ حکمرانوں سے قرب دعوت پہنچانے کا ذریعہ بھی بنتا ہے‘ مگر بسا اوقات اس کے نتیجے میں خود داعی غیرمحسوس طور پر اپنے اوصاف کھونے لگتا ہے۔ عزیمت کی جگہ رخصت اور کش مکش کی بجائے مصالحت کا راستہ اقرب الی الصواب نظر آنے لگتا ہے۔وقتی طور پر اچھے تعلقات کے نتیجے میں کچھ مفید اور اصلاحی کام بھی کروائے جا سکتے ہیں‘ مگر دعوتِ حق کی حقیقی منزل یعنی مکمل اسلامی انقلاب تک پہنچنا‘ بھرپور اور زور دار جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ داعیانِ حق جب مسلسل چھاؤں میں زندگی بسر کرنے کے عادی ہو جائیں تو پھر ان کے لیے دھوپ میں نکلنا ممکن نہیں رہتا۔ چھوٹے چھوٹے مفادات‘ بڑے بڑے مقاصد پر غالب آجاتے ہیں اور داعی مسلسل بلندی سے پستی کی طرف لڑھکتا چلا جاتا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ داعی صورتحال کا صحیح ادراک کرنے کے بجائے اپنے کمزور مؤقف اور روش کو درست ثابت کرنے کیلئے دلائل ڈھونڈنے لگتا ہے۔ نوبت یہاں تک آپہنچتی ہے کہ فریب خوردگی کے غبار میں جوہرِ قابل گم ہو جاتا ہے۔
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شہبازی
ہمارے دور کی دو عظیم اسلامی تحریکیں اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی ہیں۔ ان تحریکوں کے بانی سید حسن البنا شہیدؒ اور سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے۔ وہ مجسمۂ علم و حلم اور جبلِ عزیمت و استقامت تھے۔ انہوں نے راہِ حق میں بڑی آزمائشیں جھیلیں‘ مگر کبھی کمزوری نہ دکھائی۔ اول الذکر نے تو اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا جبکہ موخرالذکر زندگی بھر سر سے کفن باندھے طاغوت سے برسرپیکار رہے۔ بارہا موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں‘ مگر کبھی پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ سزائے موت کا فیصلہ سنا تو فرمایا کہ موت اور زندگی کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ زندگی تھی تو موت شکست کھا گئی۔ ہر جانب سے نعرے بلند ہوئے ''فاتح تختہ دار مودودیؒ‘‘۔
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُردَم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد!
سید مودودیؒ جس طرح سختیوں کے مقابلے پہ مردِ آہن ثابت ہوئے اسی طرح تحریص اور لالچ کے پھندے کو بھی ہمیشہ پورے وقار کے ساتھ ٹھکرا دیا۔ مولانا کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے پیش کش کی تھی کہ وہ سیاسی امور میں دلچسپی چھوڑ کر دعوتِ دین اور اشاعتِ لٹریچر کیلئے حکومت کی سرپرستی قبول کر لیں مگر سید مرحوم کچی گولیاں کھیلے ہوئے نہیں تھے۔ انہوں نے اپنا جامع پروگرام دنیا کے سامنے پیش کرنے کا حق ادا کر دیا۔ سید مودودیؒ کی جماعت وقتاً فوقتاً ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہوتی رہی ہے۔ یہ وقتی بحران ہمارے اس موضوع کا مرکز و محور تو نہیں‘ مگر اس سے صرفِ نظر بھی نہیں کیا جا سکتا۔سید مودودیؒ کی قیادت میں جماعت اسلامی نے مختلف الخیال جماعتوں اور قوتوں سے مل کر کسی طاغوتی اور آمرانہ نظام کا مقابلہ کرنے کیلئے اتحاد تو کیے ہیں مگر کسی ترغیب سے اس کا دامن آلودہ ہوا ہے‘ نہ ترہیب سے اس کے کردار پر کوئی دھبہ لگا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر دور میں اقامتِ دین کیلئے جدوجہد جان جوکھوں کا کام رہا ہے۔ اس میدان میں سخت آزمائشیں بھی آتی ہیں اور ظاہری ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ہم نے اپنی کمزوریوں کے باوجود نظریاتی طور پر اپنا راستہ نہیں بدلا۔ مولانا مرحوم کے جانشین میاں طفیل محمدؒ‘ پھر قاضی حسین احمدؒ اور ان کے بعد سید منورحسنؒ‘ سبھی نے استقامت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔ اس وقت بھی جماعت اسلامی اسی منزل کی راہی ہے مگر یہ فطری امر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ معیار میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ زندہ تحریکیں مسلسل اپنا آڈٹ کرتی ہیں اور بیماریوں کا علاج دوا سے اور بعض اوقات آپریشن سے بھی کرنا پڑتا ہے۔ (جاری)