پاکستان میں عام انتخابات نسبتاً پر امن طریقے سے منعقد ہونے اور پاکستان مسلم لیگ (نواز)کی کامیابی پر بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بروقت تہنیتی پیغام بھیجا اور اپوزیشن کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور نامزد وزیراعظم میاں نواز شریف کے امن اور خیر سگالی پر مبنی بیانات کا حکمران کانگریس اور اپوزیشن دونوں نے ہی خیر مقدم کیا ہے تاہم بھارتی حکومت اور اپوزیشن کے علاوہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ان کے ایک ایک جملے اور قدم پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ بھارت میں حکمران کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی کا خاندان بھٹو خاندان سے زیادہ قربت محسوس کرتا ہے جس کا اظہار متعدد مواقع پر ہوتا بھی رہا ہے تاہم بھارتی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھٹو خاندان کے مقابلے میں شریف برادران کے ساتھ زیادہ اطمینان محسوس کرتی ہے۔ یہاں سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگرچہ بھارت کے مستحکم سیاسی نظام اور پاکستان کی لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے کوشاں جمہوریت کے مابین کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن پاکستان کے حالیہ انتخابات میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) اور اس کے اتحادیوں کا جس طرح صفایا ہوا ہے اس میںبلاشبہ بھارت کے حکمران متحدہ ترقی پسند اتحاد(یو پی اے) کے لیے سبق موجود ہے۔ وہ سبق یہ ہے کہ صرف فلاحی سکیموں اور مراعتوں کا ڈھنڈورا پیٹ کر ووٹروںکواپنی طرف مائل کرنا ممکن نہیں۔ جب تک انہیں دیانت داری اور پوری شفافیت کے ساتھ نافذ نہیں کیا جاتا اس وقت تک عوام کو مطمئن کرنا مشکل ہے۔ عوام اگر ملک کے نظم و نسق سے غیر مطمئن ہوں اور بدعنوانی سے نالاں ہوں تو انہیں کھلونے دے کر بہلانا ممکن نہیں ہوتا۔ اس سے ایک بار پھر یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ سوشل میڈیا کے اثرات ابھی نہایت محدود ہیں۔ وزیراعظم منموہن سنگھ نے حال ہی میں پاکستان کے بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کی طرز پر راست کیش ٹرانسفر اسکیم کا دائرہ 120 اضلاع تک وسیع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسکے ذریعے پینشن، اسکالرشپ اور دیگر مدوں میں دی جانی والی سبسڈی براہ راست غریب اور مستحق افراد تک نقد رقوم کی صورت میں انکے اکائونٹ میں جمع کی جائے گی۔ ملکی بجٹ میں ہر سال بیس ارب سے زائد رقوم سبسڈی کی صورت میں ادا کی جاتی ہیں مگر یہ شاید ہی مستحق افراد تک پہنچتی ہوں۔ حکومت کا خیال ہے کہ آئندہ سال عام انتخابات سے قبل فروری 2014ء یہ اسکیم پورے ملک میں نافذ ہوجائیگی۔ جس طرح گزشتہ عام انتخابات میں قومی دیہی روزگار قانون اور کسانوں کو قرضوں کی معافی جیسے اقدامات نے کانگریس کی قیادت میں یو پی اے کی انتخابی کشتی کو کنارے پر لگایا‘ حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ اس بار راست کیش ٹرانسفر اور فوڈ سکیورٹی جیسی اسکیموںسے ووٹروں کو رجھایا جائے گا۔لیکن پاکستان کے انتخابی نتائج نے حکمران کانگریس کے کان کھڑے کردیے ہیں۔ پاکستان کے تازہ عام انتخابات کے نتائج کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بھارتی ماہرین پاکستان میں ہونے والے ایک ایک واقعہ اور رہنمائوں کے بیانات کا باریکی سے تجزیہ کررہے ہیں۔ یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ میاں نواز شریف کی جائے پیدائش بھارتی پنجاب کے جاتی عمرہ میں ہے تو دوسری طرف ڈاکٹر سنگھ پاکستانی پنجاب کے قصبہ گاہ میں پیدا ہوئے تھے۔ میاں نواز شریف نے ڈاکٹر من موہن سنگھ کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی ہے لیکن اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ اس وقت پاکستان جائیں گے۔ حکمران کانگریس کے اندرونی ذرائع کا خیال ہے کہ ماضی کی طرح جب ڈاکٹر سنگھ کے دورۂ پاکستان کی تجویز کو سیاسی اور انتخابی وجوہات کی بنا پر مسترد کردیا گیا تھا لیکن اب اگر انہیں کوئی ٹھوس دعوت ملتی ہے تو پارٹی اس کی مخالفت نہیں کرے گی کیونکہ پارٹی کے بیشتر لیڈروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں جمہوری طاقتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے دلوں سے دہشت گرد عناصر کا خوف کم ہو۔ لیکن ایسے رہنما بھی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی اس بات سے متفق ہیں کہ دورہ اسی وقت کیا جائے جب اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد ہونے کی اُمید ہو۔ کانگریسی رہنمائوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے بھٹو خاندان اور یہاں گاندھی خاندان میں قربت کئی اسباب کی بنا پر فطری ہے لیکن بھارت کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھٹو خاندان کو ہمیشہ شبہ کی نگاہ سے دیکھتی رہی ہے حالانکہ مغرب نے اُسے پاکستان میں جمہوریت کا نشان بنا کر پیش کیا ہے۔ بھارت کے سابق قومی سلامتی کے مشیر ایم کے نارائنن نے 2007ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے حوالے سے شبہ کا اظہا ر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب یہ پارٹی حکومت میں ہوتی ہے تو یہ بھارت مخالف رویہ اپناتی ہے۔ انہوں نے 1990ء کی دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرف سے بھارت مخالف رویے کی طرف اشارہ کیا تھا۔ دوسری طرف میاں نواز شریف کے بارے میں یہاں نرم گوشہ موجود ہے۔ اِندر کمار گجرال کے پنجاب کنکشن کے نتیجہ میں 1997ء میں شروع ہونے والے جامع مذاکرات ہوں یا اٹل بہاری واجپائی کا لاہور تک بس کا سفر‘ میاں نواز شریف کے دور حکومت کی یادیں خوشگوار ہیں۔ ایٹمی دھماکہ کرنے کے بعد جب بھارت الگ تھلگ ہو گیا تھا تو نواز شریف نے ہی اس برے وقت میں واجپائی کو لاہور بلاکر بھارت کی سفارتی مدد کی تھی۔1999ء میں جب فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے نواز شریف کو اقتدار سے معزول کردیا تو اس وقت ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اندر کمار گجرال نے ایک اہم انکشاف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ نوازشریف کی طرف سے فراہم کردہ تفصیلات کی مدد سے ہی وادیٔ کشمیر میں پانچ عسکریت پسندوں کو اسٹنگر میزائل کے ساتھ گرفتار کرنے میں کامیابی ملی تھی۔ میاں نواز شریف نے الیکشن میں کامیابی کے فوراََ بعد جو بیانات دئے ہیں انہیں یہاں قدراور امید افزا نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے۔ اسے ایک اچھا آغاز قرار دیا جارہا ہے لیکن یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ نواز شریف بھارت کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے میں کتنے کامیاب ہوپاتے ہیں۔ تعلقات کو معمول پر لانے کے سلسلے میں بھارت کا سب سے بڑا مطالبہ پاکستانی سرزمین پر واقع مبینہ دہشت گردی کے کیمپوں کا خاتمہ اور بھارت کے خلاف پاکستان سے سرگرم انتہاپسندوں کی کارروائیوں کو لگام دینا ہے۔ بھارت میں حکومت ‘ اپوزیشن اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ‘ سب کی نگاہ اس بات پر لگی رہے گی کہ نوازشریف ان مطالبات کو کس قدر پورا کرپاتے ہیں ۔ بہر حال اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جنوبی ایشیا کے ان دونوں پڑوسیوں کے درمیان خوشگوار تعلقا ت کی آج پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔یہ نہ صرف دونوں ملکوں اور ان کے عوام کے لیے بلکہ اس خطے اور دنیا کے لیے بھی ضروری ہے۔