"IGC" (space) message & send to 7575

زنسکار کے مسلمانوں پر بدھوں کے مظالم

ایک طرف میانمارمیں انتہاپسند بودھوں کے مسلمانوں پر ہولناک مظالم جاری ہیں تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے خطے لداخ کے ایک دور افتادہ علاقہ زنسکار میں بھی انتہاپسند بودھوں نے اقلیتی مسلمانوں کی زندگی جہنم بنارکھی ہے۔جو خبریں موصول ہورہی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان انتہائی کسمپرسی اور خوف و دہشت کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حکمرانوں اور بھارتی حکومت کو اس کی کوئی پروا نہیں؛ جبکہ مسلمانوں کے غم میں دن رات آنسو بہانے والے رہنما اور ملی تنظیمیں بھی خاموش ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں چار بدھ کنبوں نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کیا تو ردعمل میں بدھوں نے مسلمانوں کو نشانہ پر رکھ لیا۔ ابھی حال ہی میں زنسکار کے تحصیل صدر مقام پدم میں بودھوں نے مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کردیا جس سے ان کی زندگی دوبھر ہوگئی ہے اور پچھلے سال کی ہولنا ک یادیں ایک بار پھر تازہ ہوگئیں۔ پچھلے سال ستمبر میں تقریباََایک سو بودھ نوجوانوں کے ایک گروپ نے مسلمانوں کے گھروں پر حملہ کر کے ان کو آگ لگادی اور سامان لوٹ لیا۔ اس حملے میں ایک سو سے زائد مسلمان زخمی ہوئے جن میں کئی عورتیں بھی شامل تھیں۔لوٹ مار اور تباہی کی اس کارروائی کے دوران سرکاری عملہ حملہ آوروں کی پشت پناہی کرتا رہا۔ اس واقعہ کے بعد زنسکار مسلم ایسوسی ایشن نے ریاستی گورنر این این ووہرا‘ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور چیف سیکرٹری اقبال کھانڈے کو تفصیلی میمورنڈم پیش کرتے ہوئے زنسکار کے مسلمانوں کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کی درخواست کی تھی۔ حکومت نے پدم کے واقعہ کی انکوائری اور مناسب اقدامات کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن سات ماہ گذر جانے کے باوجود اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مسلمان سانحۂ زنسکار کے صدمے سے نکلنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ پدم کا واقعہ ہو گیا۔ جہاں بودھوں نے ان کا سوشل بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ کوئی بودھ دکاندار مسلمانوں کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے نہ ہی کوئی بودھ صدیوں سے ساتھ رہتے چلے آرہے مسلمانوں سے بات چیت کررہا ہے۔ حتی کہ سرکاری محکموں اور بالخصوص اسپتالوں میں بھی ‘ جہاں بودھ عملے کی اکثریت ہے‘ اہلکار مسلمان مریضوں کے ساتھ بات چیت تک نہیں کرتے ‘ علاج کرنا اور دوائیں دینا تو دور کی بات ہے۔ بودھوں نے اپنے مندر میں ایک بہت بڑا لاوڈاسپیکر لگادیا ہے جہاں سے وہ اذان اور نماز کے اوقات میں تیز آواز میں موسیقی بجاتے رہتے ہیں۔ خیال رہے کہ زنسکار ‘ سری نگر سے 190کلومیٹر دور کرگل ضلع کا حصہ ہے۔ اونچی اونچی پہاڑیوں سے گھر ا یہ دور افتادہ علاقہ شدید برف باری کے باعث پورے چھ ماہ باقی دنیا سے کٹ جاتا ہے۔ تحصیل میں بودھوں کی اکثریت ہے اور یہاں مسلما ن اقلیت میں ہیں۔تازہ ترین سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اس تحصیل میں بودھوں کی آبادی تقریباََ پندرہ ہزار ہے جب کہ مسلمانوں کی تعداد 700 کے قریب ہے۔مسلمانوں میں سے بیشتر سنی العقیدہ ہیں۔ یہ علاقہ بعض ایسے قبائل کی وجہ سے بھی مشہور ہے جن میں ایک عورت کے ایک سے زائد شوہر رکھنے کا رواج پایا جاتا ہے۔ پدم اس تحصیل کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ پچھلے 23 ستمبر کوبودھ مذہب سے تعلق رکھنے والے چارکنبوں کے22افرادنے اسلام قبول کرلیا تھا۔ ان کے قبول اسلام کے بعد علاقہ میں مسلمانوں اور بودھوں کے درمیان حالات اس وقت کشیدہ ہوگئے تھے جب زنسکار بودھسٹ ایسوسی ایشن کی کال پر بودھوں نے مسلمانوں کا مکمل بائیکاٹ کردیا۔ مسلمانوں کو بودھوں کی دکانوں سے سامان خریدنے اور ان کی گاڑیوں میں کہیں آنے جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا گیا۔ بودھ ٹھیکیداروں نے مسلم علاقوں میں کام بند کردیا اور مسلم مزدوروں کو کام دینے سے بھی انکار کردیا۔ایک مقامی شخص حبیب اللہ وانی کے مطابق پدم کی انتظامیہ بودھوں کی پشت پناہی کررہی ہے ۔ چونکہ اس علاقے میں ایس ایچ او سے لیکر نائب تحصیلدار ،تحصیلدار ،ایس ڈی ایم اور ایگزیکٹیو انجینئر تمام بودھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہ مسلمانوں کو بے دریغ عتاب کا نشانہ بناتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ زنسکار حملے کا منصوبہ سوچ سمجھ کر تیارکیا گیا تھا کیونکہ حملے کے ساتھ ہی ٹیلی فون کی تاریں کاٹ کر ہر قسم کے مواصلاتی رابطوں کو منقطع کردیاگیا۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ جب لداخ کے سیاسی دورے پر گئے تو انہوں نے زنسکار جاکر وہاں حالات کا جائزہ لینے اور متاثرہ آبادی سے ملنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔ریاست کی مخلوط حکومت میں شامل دونوں پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور کانگرس اگر چہ لداخ کی نمائندگی کا دم بھرتی ہیں تاہم وہ وہاں پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رکھنے میں ناکام رہیں۔ کرگل کے مشہور دینی، سماجی و فلاحی ادارے اسلامیہ ا سکول نے زنسکار میں اقلیتوں کی صورت حال کے بارے میں وزیراعلیٰ کو خط لکھا ہے جس میں اقلیتی مسلم آبادی کے خلاف لداخ زنسکار بدھسٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے شروع کی گئی سماجی اور اقتصادی ناکہ بندی کا سخت نوٹس لینے اور نومسلموں اور زنسکار کی اقلیتی آبادی کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انہوںنے زانسکار بدھسٹ ایسوسی ایشن پر بودھ اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر انتہا پسندانہ رویوں پر پابندی نہ لگائی گئی تو کرگل اور دیگر علاقوں میں اس کے خلاف ردعمل پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ وزیر اعلیٰ کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ قانون ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق کوئی بھی مذہب اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ جس طرح جبراََ تبدیلیٔ مذہب قابل سزا جرم ہے اسی طرح اگر کوئی اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرتا ہے تو کسی بھی مسلکی ،سماجی، یا سیاسی پارٹی کو کوئی بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔لیکن انتظامیہ نے نومسلموں کو تحفظ دینے کے بجائے بودھ اکثریتی فرقہ کو اْکسا کر انکے گھروںپر پتھرائو کرایا اور انہیں نہ صرف اپنے آبائی گھروں میں جانے سے روکا گیابلکہ ایس ڈی ایم زنسکار نے انتظامی بددیانتی اور فرقہ پرستی کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے من گھڑت وجوہات کی بنا پر ایک حکم نامہ جاری کرکے ان نو مسلم افراد کو ان کے پشتینی مکانوں سے بے دخل کردیا۔ گوکہ ریاستی حکومت نے گذشتہ دسمبر میں مسلمانوں کی حفاظت کے لیے زنسکار میں سیکورٹی اہلکاروںکی ایک ٹکڑی تعینات کردی تھی لیکن مسلمانوں کا کہنا ہے کہ سیکورٹی فورسز کی تعداد بہت کم ہے اور اسے بڑھا کر کم از کم پانچ سو کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست جموں و کشمیر صدیوں سے روایتی بھائی چارے کا گہوارہ رہی ہے۔لیکن جموں خطہ میں فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں لیکن جہاں تک کرگل ضلع کے زنسکار علاقہ کا تعلق ہے تو اوّل تو یہ پورا خطہ عمومی طور میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہے اور دوم اس خطہ میں صوبائی انتظامیہ کا اثر ورسوخ اْس حد تک موثر نہیں جتنا ریاست کے باقی حصوں میں ہے ،نتیجہ کے طور پہاڑوں سے گھرے اس علاقہ میں رونما ہونے والے بیشتر واقعات یا تو میڈیا کے توسط سے لوگوں کے سامنے آتے ہی نہیں یا پھر لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل اْن معاملات کو وہیں پر دبا کر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہونے کا تاثر دیتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مقامی اقلیتی طبقہ میں تحفظ کا احساس دوبارہ پیدا کیا جائے۔ بھارت کے کانگرسی حکمرانوں پر ذمہ داری اس لیے بھی زیادہ بنتی ہے کہ لداخ پہاڑی کونسل اور بودھسٹ ایسوسی ایشن پر کانگرس کا قبضہ ہے۔ ورنہ اگر ایسی ہی مجرمانہ خاموشی جاری رہی تویہ کشیدگی زنسکار اور پدم سے نکل کر پورے خطے میں پھیلنے کا اندیشہ ہے جس کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں