فروری 1991ء… وادی کشمیر میں ضلع کپواڑہ کے دورافتادہ گائوں کنن اور پوشہ پورہ کے لیے 23اور 24 کی درمیانی رات قیامت بن کر آئی ۔ عسکریت پسندوں کی تلاش میں بھارتی فوج کی راجپوتانہ رائفلز کی 68ویں بریگیڈ نے ان دونوں بدقسمت دیہات کو حصار میں لے کر گھر گھر تلاشی لینا شروع کی۔ مردوں کو ہانک کر گائوں کے باہر میدان میں جمع کیا گیا۔ عوام کے تحفظ کے لیے مامور وردی پوش افراد نے رات کی تاریکی میں ان آبادیوں میں جو کھیل کھیلا، اس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتاہے۔ کیا بزرگ، کیا کمسن، غیر سرکاری اعداد شمار کے مطابق 100 خواتین کی عصمت مبینہ طور پر تارتار کی گئی۔تین دن بعد ضلع مجسٹریٹ نے 35خواتین کے بیانات قلم بند کیے۔اور ڈسٹرکٹ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے عصمت دری کی تصدیق کی۔ 22سال بعد ان دونوں گائووں کے متاثرین نے حال ہی میں سرینگر کے ایک مقامی ہوٹل میں سول سوسائٹی کے افراد کے روبرو جب اپنی روداد بیان کی توماحول افسردہ ہوگیا۔ دراصل حال ہی میں کپواڑہ کی ایک عدالت نے اس معاملے کی ازسرنو تحقیقات کرنے کے احکامات صادر کئے ہیں۔ اجتماعی عصمت دری کے دوران 18کمسن لڑکیوں کو وحشیانہ حد تک درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ دو دہائیوں کے بعد بھی یہ دونوں دیہات ایک طرح کے سماجی بائیکاٹ کے شکار ہیں۔سماجی داغ کی وجہ سے یہ علاقہ شادی کی شہنائیاںسننے کے لیے بھی ترس گیاہے۔ باہر کے لوگ ان دیہات میں شادی بیاہ کرنے سے کتراتے ہیں۔اس واقعہ کے بعد ان دو دیہات کے بچوں نے سکول جانا ترک کردیا۔ اس واقعہ کے سلسلے میں بھارت میں کتنا ابہام ہے۔ اس کا اظہار پچھلے ہفتے کچھ اس طرح ہوا جب ایک صحافی نے سماجی کارکن اناہزارے کے بغل میں بیٹھے سابق فوجی سربراہ وی،کے،سنگھ سے اس معاملے سے متعلق استفسار کیا، تو انہوں نے اس کو بھارتی فوج کے خلاف پراپیگنڈہ قرار دیا اور یہاں تک کہا کہ گائوں کی ان سیدھی سادی عورتوں کو فوج کے خلاف بیان د ینے کے لیے اکسایا گیاتھا۔اس سلسلے میں انہوں نے بھارت کے پریس کونسل آف انڈیا کی ایک تفتیشی رپورٹ کا حوالہ دیا، جو ایک معروف صحافی جارج ورگیزنے ترتیب دی تھی، جس میں ان خواتین کے بیانات کو ’’ناقابل اعتبارـــ‘‘ بتاکر اس واقعہ کی اعتباریت پر سوالیہ نشان لگایا گیا۔ مگر بھلا ہو قومی اقلیتی کمیشن کے موجودہ چیئرمین وجاہت حبیب اللہ کا،جن کا ضمیر آج کل وقتا فوقتا جاگ اٹھتاہے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ بحیثیت ڈویژنل کمشنر جو سرکاری تحقیقاتی رپورٹ انہوں نے ترتیب دی تھی اس کے اہم حصے غائب کر دئے گئے ہیں۔ اس واقعہ کی پردہ پوشی اور مجرموں کو بچانے کی سرکاری کوششوں کا اندازہ جموں و کشمیر ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس مفتی بہائوالدین کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے۔ واقعہ کے ایک ماہ بعد جب وہ اس علاقے کے دورہ پر گئے تو انہوں نے 53خواتین کے بیانات قلم بند کیے۔ مقامی تھانہ میں انہیں معلوم ہوا کہ پولیس نے تفتیش شروع کرنا تو دور ابتدائی رپورٹ بھی درج نہیں کی۔ انہیں بتایا گیا، چونکہ ڈی، ایس، پی دلباغ سنگھ چھٹی پر ہیں اسلئے FIRدرج نہیں ہوسکی۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے 43سالہ عدالتی کیریر میں پہلی بار انہوں نے پولیس کو اتنی بے دلی سے کام کرتے ہوئے دیکھا۔چھٹی سے واپسی کے بعد دلباغ سنگھ نے جب ابتدائی تفتیش شروع کی تو اُسے ٹرانسفر کیا گیا۔اور گورنر آفس سے تمام پولیس سٹیشنوں کو ایک حکم نامہ کے ذریعے ہدایت دی گئی کہ اعلیٰ پولیس حکام کی اجازت کے بغیر فوج اور نیم فوجی اہلکاروں کے خلاف کوئی کیس رجسٹر نہ کیا جائے۔ یہ حکم تا حال قابل عمل ہے۔ جنرل سنگھ کا جو آج کل کرپشن مخالف مہم کے سرخیل بنے ہیں‘ بیان ایسے وقت آیا جب سرینگر کے دورہ پر گئے بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید نے اس واقعہ پر اظہار ندامت کرتے ہوئے قوم کے لیے شرمندگی کا باعث قراردیا۔ خورشیدنے گناہ عظیم کا اعتراف توکیا، مگر جنوبی افریقہ کے عظیم راہنمانیلسن منڈیلا کا حوالہ دے کر اسے اور دیگر واقعات کو فراموش کرنے پر زور دیا۔سلمان خورشید کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ حالت جنگ میں پیش آیا اور جنگوں میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جو عام حالات میں رونما نہیں ہونے چاہئیں تھے۔ فوج کے سابق سربراہ کا جوبھارت کے اردو میڈیا سے وابستہ صحافیوں کے روبرو تھے‘ مزید کہنا تھا کہ کشمیر میں فوج کے خلاف96فیصد شکایات جھوٹی ہوتی ہیں، اور بقیہ چار فیصد پر فوج نے کاروائی کرکے کئی اہلکاروں کو لمبی سزائیں بھی دی ہیں۔ مگرکشمیر کے وزیراعلٰی عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ ایسی انکوائریاں بے سود ہوتی ہیں۔ لوگوں کو ان پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ ایک مقامی روزنامہ کو دئیے ایک انٹرویومیں وزیراعلٰی کا یہاں تک کہنا تھا کہ آج تک بھارتی فوج کسی بھی انکوائری کو منظر عام پر نہیں لا سکی۔ان کا کہنا ہے کہ فوج کو قانونی تحفظ کی ضرورت تو ہے مگر کشمیر میں اسکو استثنیٰ تک وسعت دی گئی ہے۔جہاں اسکی حرکتوں کی کوئی جوابدہی نہیں ہے۔اور ایسے واقعات سے ان کی سویلین حکومت دفاعی پوزیشن میں آتی ہے۔ وزیراعلیٰ کا یہ بیان ازخود لاچاری اور فوج کے سامنے انکی بے بسی کا کھلا اعتراف ہے۔ریاست جموںکشمیر کا وزیراعلیٰ نہ صرف سویلین حکومت کا سربراہ ہے بلکہ حکومت بھارت کی عملداری کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔ان کا یہ اعتراف در حقیقت نہ صرف دہلی میں بلکہ یورپ اور امریکہ کے ارباب حل وعقد کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔اس صورت میںکشمیر میں اعتماد کی فضاقائم ہو تو کیسے ہو؟ حکومت بھارت کے اس علمبردار کے بیان کے بعد وزیر خارجہ کی یہ نصیحت کہ ماضی کو فراموش کر کے امن کی راہیں ڈھونڈی جائیں، بے معنی ہوجاتاہے۔اگر ماضی کو فراموش کرنے سے ہی انصاف کے تقاضے پورے ہوتے تودوسری عالمی جنگ کے بعد نورمبرگ میں نازیوں اور انکے حامیوں کو جنگی جرائم کی پاداش میں عدالتی کاروائیوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔جبکہ کشمیر میں تو کوئی جنگی حالت نہیں تھی۔نہ ہی برابری کا مقابلہ تھا۔یہاں تو فوج کے بقول وہ سویلین افراد کی حفاظت کے لیے میدان میں اتری تھی۔بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی موجودہ حکومت نے تو42سال بعد جنگی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف عدالتی کاروائی شروع کی ہے۔ اور کئی افراد کے خلاف توسزائے موت کے فیصلے بھی آچکے ہیں۔ان افراد کے خلاف بھی کم و بیش ایسے ہی الزامات ہیں جو کشمیر میں سیکورٹی اہلکاروں پر لگائے گئے ہیں۔ وزیر خارجہ سلمان خورشید اگر واقعی شرمسار ہیں۔ تو جس طرح بھارت کی مغربی ریاست گجرات کے مسلمان مظلومین کو انصاف دلانے میں مرکزی حکومت اور اسکی ایجنسیاں عدلیہ کا ہاتھ بٹارہی ہے، اسی طرح کشمیر میں کنن اور پوشہ پورہ کے مظلومین کو بھی انصاف دلانے کے لیے سکیورٹی ایجنسیوں کو ہدایت کرے کہ وہ عدالتی کاروائی میںرخنہ نہ ڈالیں۔ورنہ یہ زخم رستے رہیں گے، اور اعتماد کی فضا کبھی بحال نہیں ہوگی۔