جموں خطہ کے کشتواڑ قصبے میں عید کے روز ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد حالات معمول پر آرہے ہیں، لیکن اس مسلم اکثریتی خطے میں حکومتی ایجنسیوں کی شہ پر قائم مسلح ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں(VDC) کے کردار پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق ان فسادات کو بھڑکانے اور مسلم بستیوں پر حملے کرنے میں قانون اور احتساب سے بالا یہ سویلین مسلح دستے پیش پیش تھے؛حالانکہ پچھلے سال بھارتی سپریم کورٹ نے ایک معرکۃ الآرا فیصلے میں سکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے سول افراد کو مسلح کرنے اور شورش سے نمٹنے کے لیے انہیںہراول دفاعی دستوں کے طورپر استعما ل کرنے پر پابندی لگائی تھی۔ عدالت عظمیٰ کا استدلال تھا کہ عوام کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کے اولین فرائض میں شامل ہے اور سکیورٹی کی نج کاری کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ عدالت نے یہ فیصلہ ایک پٹیشن کی سماعت کے بعد صادر کیا جس میں وسطی بھارت کے قبائلی علاقوں میں بائیں بازو کے انتہاپسندوں کے خلاف حکومتی اداروں کی طرف سے قائم کردہ ایک سویلین آرمی ’سلواجدوم‘ کے وجود کوچیلنج کیا گیا تھا۔ اس آرمی نے شورش سے نمٹنے کے نام پر مقامی آبادی کو ہراساں اور پریشان کر رکھا تھا۔ اگرچہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد قبائلی علاقوں میں ’سلوا جدوم ‘کا اثرورسوخ خاصی حد تک کم ہوگیا مگر ریاست جموں و کشمیر کے جموں خطہ میں ایک بڑی آبادی اسی طرح کی ایک سویلین آرمی کے رحم و کرم پر جی رہی ہے۔یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ اٹوٹ انگ کا راگ الاپنے کے باوجود، سپریم کورٹ کی اس رولنگ کا اطلاق آخر کشمیر پرکیوں نہیں ہوتا؟ سابق نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے دور اقتدار( 1998ء تا 2002ء) میں اس وقت کے بی جے پی سے تعلق رکھنے والے وزیرمملکت برائے دفاع چمن لال گپتا نے نائب وزیراعظم ایل کے ایڈوانی کے ایما پر اس علاقے میںہندو انتہاپسندوں کوہتھیار فراہم کر کے اور انہیں باضابطہ فوجی تربیت دے کر عسکریت پسندوں کے خلاف ویلیج ڈیفنس کمیٹی کے نام سے ایک فورس قائم کر دی۔ اب جبکہ ان علاقوں میں عسکریت دم توڑچکی ہے،اس فورس کے افراد مسلم علاقوں میں اودھم مچانے کا کام کرتے ہیں۔ مقامی ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ جبری وصولی، ڈرانا دھمکانا تو ان کا معمول ہے۔کشتواڑ کے فسادات سے قبل 29جولائی کو پڑوسی ضلع ڈوڈہ میں وی ڈی سی کے دستوں نے مبینہ طور پر ایک نوجوان شمیم احمد لون کو ہلاک کیاجس نے ان کی چیرہ دستیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس سے کئی دن قبل کشتواڑ کے ہی ایک گائوں کونٹوارا میں سولہ سالہ لڑکی کو اغوا کرکے ا س کے ساتھ زبردستی زیادتی کی ۔مقامی صحافی حق نواز نہرو کے بقول اس فورس کے خلاف الزامات کی فہرست بہت طویل ہے مگر کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ ان کی موجودگی سے مقامی آبادی بے بسی کی داستان بن گئی ہے اور وہ غیروں کے رحم وکرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ سکیورٹی کے نام پرصرف ایک خاص فرقے کو ہتھیاروں سے لیس کیا گیا۔یہ ان دستاویزات سے بھی عیاں ہے جو سول سوسائٹی سے وابستہ افراد نے حق اطلاعات کے قانون کے ذریعے حاصل کی ہیں۔ان کے مطابق جموں ڈویژن اور لداخ خطے میں 25,474 وی ڈی سی اور 23,577اسپیشل پولیس کے افراد سرگرم ہیں۔کشتواڑ ضلع میں جہاں ہندو اور مسلم آبادی کا تناسب بالترتیب35 اور65فیصدہے، ہندو فرقہ سے تعلق رکھنے والے وی ڈی سی کا تناسب 96.56فیصد ہے۔اس فورس کے جن ارکان کو حکومت کی طرف سے باضابطہ تنخواہ ملتی ہے ان میں اکثریتی مسلم فرقہ کا تناسب اور بھی کم یعنی محض2.43فیصد ہے۔قریبی ڈوڈہ ضلع میں 92.72فیصد وی ڈی سی ہندو ہیں جبکہ اس ضلع میں مسلم آبادی کا تناسب 70فیصد ہے۔وادی چناب کے ایک اور ضلع رام بن میں بھی وی ڈی سی میں ہندو فرقہ کی نمائندگی92.96فی صد ہے اور اگر حکومت کی طرف سے مشاہرہ پانے والے وی ڈی سی کا جائزہ لیا جائے تواس ضلع میں صرف 0.6فیصد مسلم افراد کو ان مسلح دستوں میں شامل کیا گیا ہے۔ جموں خطے میں پھیلتی ہوئی فرقہ واریت کا جائزہ لیتے وقت اس بات کو بھی ذہن نشین کیا جانا چاہیے کہ اس ریاست میں وہ شدت پسند حلقے بھی سرگرم اور متحرک ہیں جو جموں خطے کو ریاست سے الگ کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور اس کی تکمیل کیلئے اس علاقہ خصوصا ًپیرپنچال اور وادی چناب میں بسنے والے مسلمانوں کو رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کے مذہبی اور ثقافتی رشتے وادی کشمیر سے جڑے ہیں۔بدقسمتی سے گزشتہ پچیس برسوں کے دوران مختلف حکومتوں نے کئی ایسے اقدامات کئے جو جموں و کشمیر کی وحدت اور ریاست کی آبادی کے باہمی بھائی چارے کیلئے سم قاتل ثابت ہوئے ہیں ۔ جموں خطے میں ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کو قائم کرکے انہیں مسلح کرنا ایک ایسا ہی اقدام تھا۔ سکیورٹی کے نام پر مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کے ہاتھوں میں بندوقیں تھمادی گئی ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران وی ڈی سی نے لاتعداد بے گناہ انسانوں کا خون بہایا اور حکومت ہر وقت اس طرح کی حرکتوں کی پردہ پوشی کرتی آئی ہے۔ مقامی ذمہ دار افراد کے مطابق کشتواڑ میں فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے میں ان کمیٹیوں نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ حکومت کی طرف سے کسی بھی سیاسی آدمی یا صحافی کو کشتواڑ جانے کی فی الحال اجازت نہیں دی گئی تاہم وادی کشمیر کے لنگیٹ حلقہ کے آزاد ممبر اسمبلی انجینئر رشید نے کسی طرح پچھلے ہفتے اس کرفیو زدہ علاقہ کا دورہ کیا اور پہلی بار کچھ حقائق جاننے کا موقع بیرو نی دنیا کو ملا ۔ان کے بقول علاقے میں کہیں ہندوئوں کی تو کہیں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن بد قسمتی سے مسلمان ہی ہر جگہ محکوم و مجبور ہیں۔معلوم ہوا کہ اکثر لوگ فسادات سے پہلے بھی وی ڈی سی کے خوف کی وجہ سے اپنے بچوں تک کو سکول جانے سے روکے ہوئے تھے۔علاقے کے معززین نے ان کو بتایا کہ بی جے پی کے مقامی لیڈر سنیل کمار ،جو 2008ء کے الیکشن میں دوسرے نمبر پر رہے تھے ،کے ذاتی محافظ نے عید کے روز عید گاہ کی طرف جانے والی مسلمانوں کی ایک ٹولی میں موٹر سائیکل گھسا کر انہیں اشتعال دیا اور کلڑ چوک میں واپس آکر مقامی ہندو آبادی کو یہ کہہ کر بھڑکایا کہ مسلمان ہندوئوں کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں ۔اس طرح ووٹ بنک کی گندی سیاست کے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فسادات کا آغاز ہوا ۔ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوا۔ کُل 35دکانیں جلیں جن میں سے زیادہ مسلمانوں کی ہیں ۔کشمیر کے وزیر داخلہ سجاد کچلو ،جو اب مستعفی ہو چکے ہیں، خود عید گاہ نماز کے لئے گئے ہوئے تھے اور فسادات شروع ہوتے ہی انہیں مقامی ڈپٹی کمشنر سمیت بلوائیوں نے یرغمال بنا لیا اور عید گاہ کے قریب ایک عمارت میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سمیت محصور ہوگئے ۔ بعد ازاں عقب کی دیوار پھلانگ کر جان بچائی۔ سنگرام بھاٹا میں پتھرائو اور پولیس کی گولی سے ایک دلت ہندو مارا گیا۔اس کا انتقام لینے کے لیے جسمانی طور پر معذور اور پی ایچ ای کے ملازم بشیر احمد شیخ کو بلوائیوں نے زندہ جلا کر ان کی نعش پھینک دی اور پھر اسے ہندو جتلاکر مسلمانوں کے خلاف تشدد کا بد ترین فساد شروع کروا یا۔ ممبر اسمبلی کے مطابق کشتواڑ سے 63کلو میٹر دور ہندو اکثریتی علاقہ پاڈر میں ،جہاں مشکل سے ایک فیصد مسلمان آباد ہیں ،عید کے اگلے روزکیجائی نامی گائوں میں ،جہاں صرف 20مسلمان گھر آباد ہیں ،وی ڈی سی کے پچاس اہلکاروں نے عصر کی نماز کے بعد مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کر کے اُن پر اندھا دھند گولیاںبرسائیں اور زخمیوں کے ارد گرد دیر تک رقص کیا گیا۔جب پولیس آئی تو اس پر بھی فائرنگ کی گئی،یہاں تک کہ زخمیوں کو اُٹھانے کے لئے ہیلی کاپٹر کو بھی اُتارنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ سروپ سنگھ نامی ایک سب انسپکٹر نے بہادری اور فرض شناسی کا مظاہرہ کر کے کئی جانیں بچائیں ۔ بعد میں بلوائیوں نے گلاب گڑھ کے ہسپتال پر دھاوا بول کر ایک تیماردار کو آہنی سلاخوں سے مار مار کر ہلاک کر دیا۔ پوری داستان کا حاصل یہ ہے کہ جموں میں وی ڈی سی کو فوراً غیر مسلح کیا جائے،فسادات کو ہوا دینے والے عناصر کی نشاندہی کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ٹھوس اقدامات کیے جائیں تاکہ مستقبل میں اس طرح کی صورتحال پیدا نہ ہو۔