قارئین کرام! دو ہفتے غیر حاضری کی وجہ یہ رہی کہ راقم لائن آف کنٹرول کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے وادی کشمیر کے انتہائی دور افتادہ اور دشوار گزار علاقوں کے دورے پر تھا۔ یہی علاقے پاکستان اور بھارت کے درمیان تازہ کشیدگی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں ان گنت واقعات اور کہانیاں گردش کررہی ہیں جو ایک صحافی کے لئے قارون کے خزانے سے کم نہیں۔ ضلع کپواڑا کی لنگیٹ تحصیل کے انتہائی آخری سرے پر واقع لیپا وادی گھنے جنگلات‘ سرسبز پہاڑوں اور حسین مناظر سے عبارت ہے ۔مقامی باشندوں اور فوجی افسرون نے راقم کو بتایا کہ آج تک اس علاقے میں کوئی صحافی نہیں آیا۔ اس وادی میں ایک عجوبہ قسم کا فوجی ہسپتال بھی ہے ۔ یہ ہسپتال پہاڑوں کو چیر کر سطح ز مین کے نیچے تعمیر کیا گیا ہے۔ باہر سے اندازہ نہیں ہوتا کہ اندر اتنا بڑا اور شاندار ہسپتال موجود ہے۔ یہ ہسپتال جدید ترین سہولتوں سے مزیّن ہے۔ اس کی سب سے دلچسپ اور حیران کن خصوصیت یہ ہے کہ ا سکی اندرونی دیوار پر ایک تختی آویزاں ہے جس پر جلی حرفوں میں لکھا ہے کہ اس ہسپتال کا افتتاح بدست کیپٹن پرویز مشرف عمل میں آیا۔ یہ کیپٹن مشرف کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان ہی کے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف ہیں۔ خیال رہے کہ 1971ء کی جنگ میں یہ علاقہ بھارت کے قبضے میں آگیا تھا۔ اس کی بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔ کیپٹن مشرف یہیں زخمی ہوئے جس کے باعث ان کے فوجی دستے کو پسپا ہونا پڑا۔ یہاں آباد دو گائوں نوکوٹ اور چھنی کے باشندے بھی لائن آف کنٹرول کے اس پار ہجرت کرگئے۔کافی عرصے تک یہ علاقہ کسی کے تصرف میں نہ رہا۔ بھارتی فوج کو بھی اس بات کا علم نہیںتھا کہ پاکستانی فوج یہ علاقہ خالی کرچکی ہے ۔ اچانک ایک دن ایک گلہ بان اپنی گم شدہ بھیڑوں کی تلاش میں نیچے اترا اور جب وہاں سے واپس جانے لگا تو اوپر پہاڑوں پر فوجیوں نے اسے پکڑلیا کہ تم ’’پاکستانی‘‘ علاقے سے آرہے ہو۔ اس نے جب ماجرا سنایا تو فوج نے اسے چھوڑ دیا اور اس علاقے کو اپنے تصرف میں لے لیا۔یہاں ایک مزار اور مسجد بھی ہے جو اب ہندوستانی فوج کے زیر نگرانی ہے۔ فوج نے ایک گلہ بان عبدالرحمن کمہار کو اس کا متولی اور سجادہ بنا ر کھاہے۔ یہ حسین ترین وادی اب تک مقامی آبادی اور سیاحوں کی نگاہوں سے اوجھل ہے لیکن آئے دن ہونے والی گولہ باری اور بندوقوں کی گھن گرج سے گونجتی رہتی ہے۔ اسی گولہ باری کی وجہ سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی بڑھ جاتی ہے۔ علاقے میں کشیدہ حالات کی علامتیں واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں۔ علاقے کی آخری بستی رشی واری سے نکلتے ہی دیودار اور دوسرے بڑے درختوں کے جلے ہوئے تنے اور راکھ کے ڈھیر گولہ باری کا پتا دیتے ہیں۔ اس علاقے پر انتہائی پراسرار اور ہیبت ناک خاموشی طاری رہتی ہے جسے کبھی کبھار گولہ باری چیرتی ہے۔ کاشتکار اپنی مکئی کی فصل کو جلداز جلد کٹوانا چاہتے ہیں تاکہ وہ اس مصیبت سے بچ سکیں۔ یہاں کے جنگلات میں کئی نادر اور قیمتی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں۔ ان میں ’تریپتری‘ نامی قیمتی بوٹی بھی ہے مگر اس سال دیہاتی عورتیں اس بوٹی کی تلاش میں اس طرف جانے سے ڈر رہی ہیں۔ اس بار حالات اتنے خراب نہیں ہیں جیسے 2003ء کی جنگ بندی کے معاہدے سے پہلے تھے۔ تاہم 1999ء کے بعد سے پاکستانی فوج کی 26پنجاب رجمنٹ اوربھارت کی 17 گڑھوال رجمنٹ ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ کشیدگی نے مقامی لوگوں کا چین چھین رکھا ہے۔ انہیں ہر وقت خدشہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں جنگ نہ چھیڑ جائے۔ واضح رہے کہ یہ دونوں رجمنٹس کرگل جنگ میں ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھیں‘ البتہ اس کے بعد ان کا آمنا سامنا نہیں ہوا۔ ایک بھارتی فوجی افسر نے پہاڑ کی چوٹیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں بہتر پوزیشن میں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سرحد پار سے یہاں کم حملے ہوتے ہیں ۔ جموں خطہ کی پونچھ اور کرشنا گھاٹی کے جغرافیے کے برعکس یہاں کی کیفیت جدا ہے جو اسے حملوں سے محفوظ رکھے ہوئے ہے۔ اس کے باوجود فوجی افسروں کا کہنا ہے کہ دراندازی کے تقریباً سو واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں 15عسکریت پسند ہلاک اور دس کے قریب سپاہی جاں بحق ہوئے ہیں۔ ایک فوجی افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لائن آف کنٹرول پر خار دار تار لگانے سے دراندازوں کا پتا لگانے میں کافی مدد ملتی ہے تاہم اس کا ایک نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ بھارت کی اچانک اور جارحانہ استعداد متاثر ہوئی ہے ۔ اس نے مزید بتایا کہ پاکستانی فوج ہماری تمام حرکات و سکنات پر نظر رکھتی ہے کیونکہ خاردار باڑ کی وجہ سے نظر رکھنے کا کام محدود ہوگیا ہے۔ اس سے بھارتی فوج کے خصوصی دستے کی استعداد بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ فوجی افسروں کی رائے کے برخلاف دہلی میں دفاعی پالیسی سازوں کی تجویز یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول پر موسم کی سختی برداشت کرنے والی پائدار خار دار تاریں نصب کی جائیں جس پر پچیس ارب روپے کی لاگت آسکتی ہے۔ یہ تجویز وزیراعظم کے پاس زیر غور ہے۔ بہرحال، 2003ء میں جنگ بندی معاہدے کے نتیجے میں فوج کو اس علاقے میں تعمیرات اور دیگر کاموں کو انجام دینے کے لئے سکون میسر ہوا ہے۔ایک فوجی افسر نے اشارہ کرتے ہوئے راقم کوبتایا کہ تیس مار گلی میں واقع بریگیڈ ہیڈ کوارٹر سے آگے گولہ باری اتنی شدید ہوتی تھی کہ سڑک کی تعمیر کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔اب سڑکوں کی تعمیر کا کام آسان ہوگیا ہے ۔ فوجی افسروں کا موقف ہے کہ جنگ بندی پر اب بھی عمل ہورہا ہے اور جو چند واقعات پیش آتے ہیں ان میں بھاری اسلحہ استعمال نہیں ہوتا۔ تاہم ان واقعات کے ارتعاش سے پارلیمان کے ایوان گونج اٹھتے ہیں۔ اس علاقہ میں گاڑی چلاتے ہوئے لوگوں نے بتایا کہ فوج نے اپنا بھاری توپ خانہ کلیدی مقامات پر نصب کیا ہے اور ان توپوں کی روزانہ دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ فوج کی بڑی تعداد میں یہاں موجودگی نے مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کیا ہے۔ ان میں بیشتر فوج کے لئے بار برداری کا کام کرتے اور کچھ گھوڑے فراہم کرتے ہیں۔ علاقے میں بے شمار دلچسپ کہانیاں گشت کرتی ہیں جن کے راوی قلی بھی ہیں اور فوجی بھی ۔ ایک مشہور قصہ ہر کسی سے سننے کو ملتا ہے کہ ایک کتیا پاکستان کے لئے جاسوسی کا فریضہ انجام دیا کرتی تھی ۔یہ کتیا روزانہ تار کے نیچے سے دبک کر ہندوستانی علاقہ میں آیا کرتی تھی‘ اسے بھارتی فوجی کھانا دیاکرتے تھے لیکن رات کے وقت وہ چوکی سے کچھ کاغذات چرا کر لے جایا کرتی تھی۔ جب یہ عقدہ کھلا تو اس کتیا کو وہی سزا دی گئی جو ایک جاسوس کو دی جاتی ہے یعنی سزائے موت۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک پاکستانی کمانڈو یہاں قلی کے طور پر کام کر رہا تھا‘ ایک رات موقع پاتے ہی اس نے سپاہیوں کو قتل کیا اور سرحد پار چلاگیا۔ اس کے بعد یہاں تمام قلیوں کو رات سات بجے کے بعد بند کیا جاتا ہے‘ یہاں تک کہ انہیں رفع حاجت کے لئے بھی باہر نہیں جانے دیا جاتا۔ انہیں اپنے لمبے لمبے فوجی جوتوں میں ہی بول و براز کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ اس کا انکشاف خود درگاہ کے مجاور اور سجادہ نشین عبد الرحمن کمہار نے کیا جنہیںخود اس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔