بھارت میں یوں تو فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ خاصی طویل اور خونچکاں ہے، مگر 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت اور 2002ء میں سانحہ گجرات کو چھوڑ کر ملک میں فسادات کا سلسلہ خاصی حد تک رک گیا تھا۔ اقلیتی طبقوں خصوصا ًمسلمانوں نے عدم تحفظ کے حصار سے نکل کر اب تجارت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں کام شروع کردیا تھا۔مگر لگتا ہے کہ فرقہ پرست قوتیں اور چند نادیدہ ہاتھ کسی بھی صورت میں بھارتی مسلمانوں کو خوف سے آزاد نہیں دیکھنا چاہتے اور ان کی سیاسی حقوق کے لیے مجتمع ہونے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں گزشتہ برس مسلمانوں اور ہندوئوںکی ایک درمیانہ ذات یادِو (دودھ اور مویشی کا کام کرنے والے) نے مل کر سیکولر سماج وادی پارٹی کو صوبائی انتخابات میں بھاری اکثریت دلادی۔ سابق وزیر دفاع ملائم سنگھ یادِو اس پارٹی کے سربراہ ہیں اور مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنی زبردست حمایت دینے کے نتیجے میں مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی مگر ملائم سنگھ کے فرزند اکھلیش سنگھ کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد صرف ڈیڑھ سال کے دوران صوبے میں 100سے زیادہ فسادات ہوچکے ہیں۔ اسی سلسلے کا ایک بڑا مسلم کش فساد قومی دارالحکومت (دہلی) سے صرف 130کلومیٹر دور مظفر نگر ضلع میں پیش آیا جس میں اب تک 200 افراد جاں بحق اور 60ہزار بے گھر ہوچکے ہیں ۔یہ علاقہ ہندو جاٹ برادری کا گڑھ ہے اور مظفر نگر سے صرف 30کلومیٹر کے فاصلہ پر دنیائے اسلام کی عظیم درسگاہ دارالعلوم دیوبند واقع ہے۔ متاثرین پر روا رکھے گئے ظلم و تشدد کی کہانیاںدردناک ہیں ۔کیمپوں میں مقیم افراد میں کوئی اپنا بیٹا کھونے کی کہانی بیان کر رہا ہے توکوئی عورت اپنے شوہر کے قتل کی روداد سنارہی ہے اورکسی کے شیر خوار بچے کو چھین کر اس کے سامنے ہی قتل کر دیا گیاہے ۔کاندھلہ کے مدرسہ سلیمانیہ میں واقع کیمپ میں تقریباً ساڑھے سات ہزار مہاجرین قیام پذیرہیں ۔اس کیمپ کی دیکھ بھال کی ذمہ داریاں انجام دینے والے مولانا نور الحسن راشد کا کہنا ہے: ’’پورے علاقے میں 60ہزار سے زائد مہاجرین کیمپوں میں ہیں ،مرنے والوں کی تعداد حکومت کے مطابق 48ہے تاہم ہمارا کہنا ہے کہ یہ تعداد دو سو سے کم نہیں ہے ۔20سے زائد لڑکیاں غائب ہیں ۔لوگوں کے اندر خوف و ہراس اس قدر ہے کہ وہ پولیس اور فورس کی موجودگی میں بھی اپنے گھروں کو واپس جانا نہیں چاہ رہے ہیں ۔بہت سے مسلم نوجوانوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے ،گھراور مسجدیں مسمار کر دی گئی ہیں۔ لاشیں اور شواہد کو مٹانے کے لئے ان کی راکھ کو ندی میں بہا دیا گیا ہے ۔مکانات گرانے کے لیے دھماکہ خیز اشیاء کے علاوہ خاص قسم کے کیمیکل استعمال کئے گئے ہیں۔‘‘ نثار گنج کے تیس سالہ عینی شاہد محمد طیب کہتے ہیں :’’سات ستمبر کو کوال گائوں میں جاٹ پنچایت ہوئی جس کے بعد حالات خراب ہوئے ۔سب سے پہلے گائوں کے انصاری لڑکے کو جاٹ لڑکوں نے مارا ۔پھر کئی جگہ اس طرح کی وارداتیں ہونے لگیں اور لوگ گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات پر جانے لگے ۔ہم نے بھی خواتین کو محفوظ مقام میں پہنچانا شروع کر دیا لیکن راستے میں جاٹوں کے کھیت میں 400 سے زائد ہندو اکٹھے ہو گئے اور انھوں نے ہمیں جانے نہیں دیا ۔کسی طرح ہم لوگ فورس کی مدد سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے لیکن ہماری بہت ساری خواتین اور لڑکے غائب ہیں جن کا کوئی اتا پتا نہیں ہے ۔‘‘ اسی گائوں کے ایک اور متاثر 25 سالہ محمد خالد کا کہنا تھا: ’’ شر پسند عناصر کی جانب سے سی ڈی تقسیم کی گئی جس میں دکھایا گیا تھا کہ مسلمان ہندوئوں کو مار رہے ہیں ۔اس کا مطلب تھا کہ ہمارے لوگ مر گئے جن کا بدلہ لیا جائے ۔چنانچہ سب سے پہلے ہمارے مکان کو آگ لگائی گئی۔وہ ڈھول اور باجے کے ساتھ آتے اور آگ لگاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے ۔آگے آگے پولیس ہوتی تھی لیکن وہ کچھ نہیں کرتی تھی ۔ہم لوگوں نے گنے کے کھیت میں چھپ کر جان بچائی ۔‘‘ بعد میں پتا چلا کہ یہ ویڈیو سیالکوٹ (پاکستان ) کی تھی ۔ جہاں چند افراد چوری کے ملزموں کو سر عام پیٹ رہے تھے۔ اسی کیمپ میں مقیم لساڑ گائوں کی ستارہ مسجد کے امام جمیل احمد کا کہنا تھا: ’’ ہمارے گائوں میں تین سو کے قریب مسلمان گھرانے ہیں ،جس وقت واردات ہوئی میں جان بچا کر بھاگ رہا تھا۔ میرے سامنے میرے چچا کو ان لوگوں نے قتل کر دیا۔حملہ آوروں کے پاس تلوار ،گنڈاسا ،بندوق اور رائفلیں تھیں ۔انھوںنے مسجد کو بھی آگ لگا دی جس میں قرآن اور دوسری چیزیں جل کر راکھ ہو گئیں۔‘‘ایک کیمپ جوگیا کھیڑا گائوں کے ایک مدرسہ میں لگایا گیا ہے۔ ایک خاتون فاطمہ نے کہا :’’بلوائیوں نے انھیں بے لباس کر کے عزت لوٹنے کی کوشش کی ،وہ اسی حالت میں بھاگ کر پولیس سٹیشن آئیں جہاں انھیں کپڑا دیا گیا اور اس کیمپ میں منتقل کر دیا گیا ۔ ان کی تین سالہ بھتیجی چھوٹ گئی جس کا کوئی اتا پتا نہیں ہے ۔فسادی جئے شری رام کے نعرے لگاتے اور ڈھول بجاتے ہوئے حملہ کرتے تھے ۔ہمارے کتنے لوگوں کو مارا گیا ، کوئی پتا نہیں ‘‘۔ اسی کیمپ میں ایک بزرگ حاجی مان علی کا کہنا تھا :’’ کئی دن پہلے سے اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے نامزد امیدوار نریندرامودی کے بڑے بڑے پوسٹر لگائے گئے تھے ۔گائوں کے پردھان نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا ۔لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد انھوں نے حملہ کر دیا ۔وہ بلم اور تلوار لئے ہوئے تھے ۔انھوں نے میرے لڑکے کو گنڈاسا مار کر زخمی کر دیا۔اسلام نامی ایک ستر سالہ بزرگ کو میرے سامنے قتل کر ڈالا ۔ہم اپنی جان بچانے کے لئے گھر وں کے چھتوں پر چڑھ گئے ۔سات گھنٹے بعد فورس آئی اور 300افراد کو یہاں منتقل کیا گیا۔ہمارے گھروں کو جلا دیا گیا ہے ۔‘‘ فسادات کی وجہ سے مسلمان ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں ۔کسی بھی طرح سے وہ اپنے گھروں کو واپس جانے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ زیادہ تر لوگ ان پڑھ یا نیم خواندہ ہیں۔انہیں ایف آئی آر تک درج کرانے کا علم نہیں ہے ۔پولیس اور انتظامیہ کا رویہ متعصبانہ ہے۔ متاثرین نے بتایا کہ حکومتی ذمہ داران نے بعض مقامات پر جان بوجھ کر فسادیوں کو ڈھیل دی کہ مسلمانوں پر حملہ کیا جائے۔ بی جے پی کی طرف سے نریندرا مودی کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کئے جانے کے بعد یہ بات طے ہو چکی ہے کہ ہندو قوم پرست پارٹی ایک بار پھر ہندو اتحاد کے نام پر 2014ء کے عام انتخابات سے قبل مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی2004 ء میں ترقی اور 2009ء میں کرپشن ختم کرنے کے وعدے لے کر میدان میں اتری لیکن اسے منہ کی کھانی پڑی، اس لیے ہندو ایجنڈا کوآزمانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔مگر سوال یہ ہے کی جب مرکز ی اور صوبائی حکومتیں سیکولر پارٹیوں کے کنٹرول میں ہیںتو فسادیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں لیت و لعل سے کام کیوں لیا گیا؟ حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات بھی روشن ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کرنا سیکولر پارٹیوں کیلئے بھی فائدے کا موجب ہوتا ہے۔ فسادات سے مسلمانوں کی آزادانہ سیاسی سوچ اور ان کی اپنی سیاسی تنظیم بنانے کے عزم پر لگام لگائی جاتی ہے۔ کچھ عرصے سے مسلم نوجوانوں میں سیاسی بیداری آرہی تھی اور وہ کسی سیکولر پارٹی کے کھونٹے سے بندھے رہنے کے بجائے پارٹی بنانے کے طریقوں پر بحث کررہے تھے۔ دلتوں کی بہوجن سماج پارٹی نے سبھی پارٹیوں کو ناکوں چنے چبوائے اور مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ۔ مگر مسلمانوں کا دلتوں کی طرز پرسیاسی پارٹی بنانے کا خواب شاید ہی شرمندہ تعبیر ہو۔ مظفرنگر فسادات کا پیغام یہی ہے کہ فی الحال ان کی عافیت کسی سیکولر پارٹی کا دامن پکڑنے میں ہی ہے۔