"IGC" (space) message & send to 7575

سرحدوں پر کشیدگی

سرحدوں پر اچانک کشیدگی سے جموں کشمیر میں حدِ متارکہ سے متصل علاقوں میں رہنے والے لوگ انتہائی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہورہے ہیں۔1999ء کی کرگل جنگ اور پھر 2001ء میں بھارتی پارلیمان پر حملے کے بعد سرحدی علاقوں کی بیشتر آبادی اپنے کھیت کھلیان چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہوگئی تھی۔ لیکن 2003ء کی جنگ بندی کے بعدان علاقوں کے مکینوں نے سکھ کا سانس لیا۔ گائوںدوبارہ آباد ہونے لگے، کسانوں نے زمینیں ایک بار پھر آبادکیں،مگر حالیہ واقعات نے ان کا سکون دوبارہ غارت کر دیاہے۔ گزشتہ چند ماہ سے کوئی دن خالی نہیں جاتا جب کسی نہ کسی سیکٹر میں گولہ باری کاتبادلہ نہ ہوتا ہو۔ اگرچہ ایسے حالات وادی کشمیرمیں کیرن سے لے کر جموں میں نوشہرہ تک کم وبیش پوری کنٹرول لائن پر ہیں لیکن سب سے زیاہ متاثرہ خطہ پیر پنچال کے سرحد ی علاقے ہو ئے ہیں جہاں حال ہی میں کئی روز تک دن رات نہ صرف چھوٹے اسلحے کا استعمال ہوا بلکہ مارٹر اور دوسری قسم کے گولے کئی دیہات میں لوگوں کے کھیتوں اور صحنوں میں آکر گرے جن سے ان کے مویشی ہلاک ہو ئے اور کئی درجن شہری زخمی ہوئے ہیں۔ ضلع پونچھ میں لورن ، سائوجیاں ، با لا کوٹ ، منکوٹ اور ضلع راجوڑی میںبھمبر گلی اور نو شہرہ سیکٹر کے جھلاس ، بلنوئی ،سلوتری ، قصبہ ، کیرنی ،ترکنڈی ، ڈیرہ ڈبسی گونتریاں اور دوسرے کئی دیہات بد ترین متاثر ہیں اور ان سے ابھی تک درجنوں کنبے منتقل ہو چکے ہیں، کئی تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں اور جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں انہیں بھی جان کے لالے پڑے ہو ئے ہیں۔ یہی حال کم و بیش لائن آف کنٹرول کی دوسری طرف بھی ہے۔ ان علاقوں کی معمول کی زندگی محدود ہو چکی ہے اور اگر گولہ باری کے تبادلے کا یہ سلسلہ جاری رہا تومزید کئی دیہات میں ہجرت کا خدشہ ہے۔ بلا شبہ اس وقت صورتحال 2003ء میں بھارت اورپاکستان کے درمیان طے پائے گئے فائر بندی معاہدہ سے قبل کے حالات سے بھی زیادہ خراب ہے اور فی الحال ان میں کسی قسم کی بہتری کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ اس اچانک کشیدگی کی وجہ سمجھ سے بالاہے۔ سرحدوں پر اکادکا جھڑپوںاور دراندازی جیسے واقعات کے باعث پہلے کبھی ایسی صورتحال پیدا نہیںہوئی کہ نئی دہلی اور اسلام آباد کے سیاسی حلقوںمیں ہلچل مچی ہو۔ان واقعات سے مقامی سطح پر نمٹنے کے بجائے ان کا اثر نیویارک میں حالیہ چوٹی کی ملاقات میں بھی واضح طور پر دکھائی دیا بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کشیدگی نے دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کا ایجنڈہ ہی محدود کرکے رکھ دیا۔بھارتی تجزیہ کار اس کشیدگی کو پاکستان آرمی کی روایتی بھارت دشمنی اور سویلین حکومت پر برتری حاصل کرنے کی کوششیں گردانتے ہیں،لیکن حقائق کا بغور جائزہ لینے سے اس حقیقت کا ادراک ہوجاتا ہے کہ کوئی نادیدہ ہاتھ ان واقعات کو بنیاد بناکر اور میڈیا کے ذریعے بڑھاچڑھا کر پیش کرکے کسی ایجنڈے پر کام کررہاہے۔اگست میں جب پونچھ کے علاقے میں پاکستان نے مبینہ طور پر پانچ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا توسرینگر میں مقیم بھارتی فوج کی 15ویں کور کے ایک سابق کمانڈرنے راقم الحروف کو بتایا کہ وہ اس بات پر حیران ہیں کہ اس واقعہ پر بھارتی پارلیمان میں آخر کیوں ہائے ہائے کار مچی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کا موثر جواب دینے کی مقامی کمانڈروں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے ،اس کے لیے انہیں کسی بھی اتھارٹی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعہ کا مقامی سطح پرجواب دے کر اس کو دہلی اور نیویارک لے جانا یقینا کسی ایجنڈے کا ہی حصہ ہوسکتا ہے۔لائن آف کنٹرول کے پانچ کلومیٹر علاقے پر فوج کا مکمل تصرف ہے اور وہاں کسی بھی مقامی آپریشن کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ بھارت میں جوں جوں انتخابات قریب آرہے ہیں ، پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے سخت موقف اختیار کرنادونوں اہم سیاسی جماعتوں حکمران کانگریس اور بی جے پی کیلئے سیاسی مجبوری بنتاجارہاہے۔دونوں پارٹیاں مسابقت کی جنگ میں اس کو ایک انتخابی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہیں۔سخت گیر ہندو قوم پرست نریندر مودی کو وزیراعظم بننے سے روکنے کی کوشش میں سیکولر کانگریس پاکستان کے خلاف مہم میں سبقت لینے کی کوشش کررہی ہے جس کے نتیجے میں ملک میں پاکستان مخالف جذبات کو ہوا مل رہی ہے۔ کانگریس کو خدشہ ہے کہ اس ماحول کو کہیں مودی استعمال کرکے ان کو اقتدار سے بے دخل نہ کردے ۔ مودی نے حال ہی میں کہا ہے کی بھارت کو آنجہانی اندرا گاندھی کی طرح ایک طاقتورلیڈر کی ضرورت ہے جو بقول ان کے پاکستان کو سبق سکھائے ۔سرحدوں سے یہ بھی خبریں آرہی ہیں کہ کئی علاقوں میں بھارت نے اپنی اسپیشل فورسز کو بھی مجتمع کیا ہے جوحدمتارکہ کی دوسری طرف کوئی سپیشل آپریشن کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔موجودہ جھڑپیں اس کے ریہرسل کاایک حصہ ہیں۔دوسری طرف موجودہ ہنگامہ اور میڈیا میں اس کی کوریج سے کانگریس اپنے آپ کو مودی سے زیادہ سخت گیر ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ بہر حال کنٹرول لائن پر رہنے والے لو گ پہلی بار ان حا لات کا شکار نہیں ہو رہے بلکہ تقسیم سے لے کرآج تک انہیں کئی بار اجڑنا پڑا ہے ، جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے ، جسم کے اعضا گنوانے پڑے ہیں اور جائیدادیں خالی کرنی پڑی ہیں؛حالانکہ اس صورتحال کے لئے وہ کسی بھی طرح ذمہ دار نہیں اور نہ ہی اس پر ان کا کسی طرح کا کنٹرول ہے بلکہ انہیں تو بھارت اور پاکستان کی داخلی اور خارجی سیا ست کی سزا بھگتنا پڑ رہی ہے ،لیکن ان کی اشک شوئی کے لئے نہ کسی کو فرصت ہے اورنہ ہی ان کی تباہ حا لی پر اْن سے کسی کو ہمدردی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں