26 نومبر 2008ء کو بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی پر ہونے والا دہشت گرد حملہ اس لحاظ سے منفردتھاکہ امریکی سی آئی اے اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں جیسے انٹیلی جنس بیورو، ریسرچ اینڈ انیلیسز ونگ(را)سمیت تقریباً سبھی خفیہ اداروں حتیٰ کہ ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی اس کی پیشگی اطلاع تھی۔ دو برطانوی صحافیوں اڈرین لیوی اور کیتھی اسکارٹ کلارک کی تحقیق پر مبنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب دی سیج (The Siege) نے انکشاف کیا ہے کہ اس حملے سے پہلے ایک سال کے دوران مختلف اوقات میںچھبیس اطلاعات ان اداروںکوموصول ہوئیں جن میں ان حملوں کی پیش گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے راستوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ اتنی واضح خفیہ اطلاعات کے باوجود بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہ کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ دو سال کے تعطل کے بعد جولائی2006ء میں ممبئی ٹرین دھماکوں اوربعد میں سمجھوتہ ایکسپریس پرکیے گئے حملوں کے بعدپاکستان اوربھارت باہمی تعلقات معمول پر لانے کی سعی کر رہے تھے۔ جس وقت ممبئی میں حملہ ہوا عین اسی وقت پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اپنے بھارتی ہم منصب (موجودہ صدر) پرناب مکھرجی کے ساتھ نئی دہلی کے حیدر آباد ہائوس میں محوگفتگو تھے اور بھارتی سیکرٹری داخلہ مدھوکر گپتا پاکستان میں تھے۔ خفیہ معلومات اس حد تک واضح تھیں کہ اگست2008 ء میں جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریقہ کار پر بھی معلومات بھی درج تھیں۔ان اطلاعات کا ماخذ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے تھی۔ اسی طرح لشکر طیبہ کے ٹریننگ کیمپ میں موجود آئی بی کے ایک مخبر کی طرف سے بھیجی گئی پل پل کی اطلاعات موجود تھیں جن میںحملے کے لئے تاج ہوٹل کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔ستمبر 2008 ء میں اسلام آبادکے میریٹ ہوٹل میں دھماکہ اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ گھنٹوں کی ریہرسل کی،کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سکیورٹی پکٹ قائم کی۔ ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔اس دوران تاج ہوٹل کی انتظامیہ نے نہ صرف حفاظتی بندشیں اورسکیورٹی پکٹ ہٹوادی کیونکہ اس پر مامور حفاظتی اہلکاروں نے دوران ڈیوٹی کھانا مانگنا شروع کردیاتھا۔ صحافیوں نے اس حملے کے محرک پاکستانی نژاد امریکی شہری ڈیوڈ کولمین ھیڈلی کے کردار اور پس منظر پر خاصی روشنی ڈالی ہے۔ان کے مطابق ہیڈلی دراصل امریکی انسداد منشیات ایجنسی اور سی آئی اے کے مخبر کے طور پر کام کرتاتھا۔ ڈرگ انفورسمنٹ کے لئے اطلاعات فراہم کرنے اور ہیروئن حاصل کرنے کے لئے ہیڈلی نے جب 2006 ء میں افغانستان سے متصل سرحدی قبائلی علاقوں کا دورہ کیا تو پاکستانی حساس اداروں نے اسے گرفتار کرلیا۔ رہائی کے عوض اس نے اپنے تفتیش کاروں کو ممبئی پر حملے کی ترغیب دی اور مدد دینے کا وعدہ کیا۔ نائن الیون کے پانچ ماہ بعد فروری 2002 ء میں سی آئی اے نے ہیڈلی کو لشکرطیبہ میں اثرورسوخ بنانے کا مشورہ دیا تاکہ اس کی سرگرمیوں کے بارے میں مستند معلومات فراہم ہوسکیں۔امریکہ کو اندیشہ تھا کہ القاعدہ کے جنگجو لشکر کی صفوں میں داخل ہوگئے ہیں جن کے ذریعے اسامہ بن لادن تک پہنچا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف لشکر بھی انتشار کا شکار ہوگیا کیونکہ اس کی اعلیٰ قیادت لشکرکوافغان جنگ یا امریکہ کے خلاف کارروائی سے علیحدہ رکھ کر کشمیر پر توجہ مرکوزکرناچاہتی تھی؛تاہم اس کے جوشیلے کارکن کشمیرکو خیربادکہہ کربڑی لڑائی کا حصہ بنناچاہتے تھے ۔کتاب میں ذکی الرحمٰن لکھوی کی ایک ای میل کا ذکر ہے جس میں اشارہ کیا گیاہے کہ لشکر نے ممبئی حملوں کا انتخاب اپنی صفوں میں انتشار ختم کرنے کے لئے کیا تھا۔ممبئی میں یہودیوں کے مرکز ’شباڈ ہائوس‘ پرحملے کے لئے لشکر کی اعلیٰ قیادت تیار نہیں تھی کیونکہ ان کو علم تھا کہ اس سے وہ عالمی جہاد کا حصہ بن کر القاعدہ اور طالبان کی طرح برا ہ راست امریکی اوردیگر مغربی طاقتوں کا نشانہ بن جائیں گے،لیکن کیمپ میں مقیم زیرتربیت اٹھارہ بھارتی جنگجوئو ں کے اصرار پر شباڈ ہائوس کو ٹارگٹ لسٹ میں شامل کرلیا گیا۔ان بھارتی جنگجوئوں میں ذبیح الدیں انصاری عرف ابو حمزہ عرف ابوجندل بھی شامل تھا۔انصاری اس وقت بھارتی جیل میں بند ہے۔کتاب کے مصنفین نے زیادہ تر بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوںکی رپورٹوں پر ہی تکیہ کیا ہے۔ صوبہ مہاراشٹر میں انصاری کوجاننے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ضلع بیہڑ کے پولیس ہیڈکوارٹر میں بطورالیکٹریشن اورمقامی مخبرکام کرتا تھا۔انسداد دہشت گردی سیل کے سربراہ کے پی رگھونشی نے اس کا انتخاب کسی بڑے آپریشن کے لئے کیا؛چنانچہ رگھونشی اسے ساتھ لے گیا۔بتایا جاتا ہے کہ 2006ء میں اسی صوبے کے شہر اورنگ آباد میں اسلحے کے ایک بڑے ذخیرے کو پکڑوانے میں انصاری نے کلیدی کردار ادا کیاجس کے بعد وہ روپوش ہوکرلشکر میں شامل ہوگیا۔ ادھر امریکہ اورپاکستان میں ہیڈلی کی گرل فرینڈز، بیوی اوردوسرے اہل خانہ اس کی مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں خدشات ظاہرکررہے تھے۔ پاکستان میں مقیم اس کی بیوی فائزہ نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ جاکربھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا اوراصرار کیا کہ اس کے شوہر کی وقتاً فوقتاً ممبئی جانے اوروہاں اس کی مصروفیات کی تفتیش کی جائے مگر سفارت خانہ کے افسروںنے اس کی شکایت کو خانگی جھگڑاقرار دے کر فائل داخل دفترکردی۔ دوسری جانب خفیہ اطلاعات کے باوجود بھارت کی سکیورٹی انتظامیہ کی لاپروائی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب نیشنل سکیورٹی گارڈز (این ایس جی) نے دہلی سے متصل ہریانہ میں اپنے ہیڈکوارٹرسے حملوں کے بیس منٹ بعد ہی نقل و حرکت شروع کی تو کابینہ سیکرٹری اور بعد میں وزارت داخلہ کے ایک جوائنٹ سیکرٹری نے فون کرکے انہیںمتنبہ کیا کہ وہ احکامات کے بغیرنقل و حرکت کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔اس تنبیہ کے ستر منٹ بعد وزارت داخلہ نے انہیں بتایا کہ صوبائی وزیراعلیٰ نے این ایس جی کی مدد مانگی ہے اس لئے وہ فوراً ممبئی روانہ ہوجائیں مگر ائیر پورٹ جاکر معلوم ہوا کہ بھارتی فضائیہ کا ٹرانسپورٹ طیارہ ابھی کئی سو کلومیٹر دور چندی گڑھ میں ہے۔ کمانڈو یونٹ کے سربراہ جیوتی دتہ نے را سے ان کا خصوصی طیارہ مانگا تو پتہ چلا کہ اس کا عملہ غائب ہے اور جہاز میں ایندھن بھی نہیں ہے۔آدھی رات کے بعد جب دستہ طیارے میں سوار ہوا توان کو بتایا گیا کہ وزارت داخلہ کے چند افسر بھی ان کے ہمراہ جارہے ہیں اس لیے ان کا انتظار کیا جائے۔ بالآخر جب طیارہ اگلے دن صبح ممبئی پہنچا تو افسرکو لینے کے لئے چمچاتی اور لال بتی والی گاڑیاں موجود تھیں مگر کمانڈو دستوں کو لے جانے کے لئے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں تھی۔ اس عرصے کے دوران تاج اور اوبرائے ہوٹلوں کے علاوہ یہودی مرکز پر جنگجوئوں نے مکمل کنٹرول حاصل کرلیا تھا اور سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔ اس تحقیقی کتاب سے پہلے دونوں مصنفین نے Deception اور Meadows کے نام سے دو کتابیں لکھی ہیں ۔ ان برطانوی صحافیوں نے حقیقی واقعات کی منظر کشی کو ایک مربوط تھرلرکے طور پر پیش کرکے تفتیشی صحافت کونئی جہت دی ہے۔Deception میںانہوں نے نیوکلیر مادوں کی غیر قانونی ترسیل اور تجارت کا پردہ فاش کیا تھاجبکہ Meadowsمیں انہوں نے سراغ لگایا تھا کہ 1995ء میں کشمیر میں اغواشدہ پانچ مغربی سیاحوں کوبھارتی سکیورٹی سے وابستہ افراد نے قتل کیا تھا۔اس کے علاوہ انہوں نے گزشتہ پچیس برسوں سے کشمیر کے دامن میں چھپے کئی سربستہ رازوں سے بھی پردہ اٹھایا تھا۔شاید اسی لئے یہ کتاب بھارتی میڈیا کی خاطر خواہ توجہ حاصل نہیں کرسکی۔موجودہ کتاب میں کیونکہ لشکر اور پاکستانی خفیہ ایجنسی کی سرگرمیوں پر سوال کھڑے کیے گئے ہیں اس لیے اسے بھارت میں ہاتھوں ہاتھ لیا جارہا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ایک مشتبہ شخص نے کس طرح پاکستانی اسٹیبلشمنٹ تک رسائی حاصل کی اور لشکر کو مبینہ طور پر ممبئی آپریشن کیلئے آمادہ کیاجس کا خمیازہ پاکستان کو خارجی سطح پر بھگتنا پڑرہا ہے اورکشمیر سے متعلق امن کوششوں کو بھی نقصان پہنچاہے۔لیکن اس کا جواب کون دے گا؟