بھارت کو اپنی جمہوریت اور مستحکم اداروں کی وجہ سے خطے کے دیگر ملکوں پر بلاشبہ سبقت حاصل ہے۔ اس ملک کی عدلیہ نے مختلف مواقع پر جس طرح سے غیر جانبداری سے عوامی مسائل حل کرنے کے علاوہ حکومت اور سرکاری اداروں کو کنٹرول میں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا‘ اس کے لیے وہ بجا طور پر تعریف کی مستحق ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کو اس وقت دنیا بھر کے جمہوری اور حقوقِ انسانی کے ادارے خراج تحسین پیش کر رہے ہیں کہ اس نے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قاتلوں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ بھارت کی جنوبی ریاست تامل ناڈو کی حکومت نے تو اس سے آگے بڑھ کر ان قاتلو ں کی رہائی کے احکامات بھی صادر کر دیے، اگرچہ مرکزی حکومت نے اس حکم پر عملدرآمدروک دیا ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ اسی غیر جانبدار عدلیہ کے سامنے کشمیر کے حوالے سے کوئی معاملہ پیش ہوتا ہے تو قانون کی یہ دیوی آنکھیں موند لیتی ہے۔ گزشتہ برس افضل گوروکی پھانسی ہو، چند ماہ قبل پتھری بل کا واقعہ ہو یا 1984ء میں مقبول بٹ کو سولی پر چڑھانے کا معاملہ ، ہر بار بھارتی عدالتوں نے دوہرا معیار اپنایا۔ کچھ اسی طرح کا ڈرامہ 1984ء میں سٹیج کیا گیا‘ جس کی روداد کشمیری صحافی اور اس وقت انگریزی روزنامہ 'کشمیر ٹائمز‘ کے سری نگر میں بیوروچیف ظفر معراج نے بیان کی۔
ظفر معراج بتاتے ہیں کہ 6 فروری 1984ء کو‘ جب جموں میں اسمبلی کا اجلاس چل رہا تھا، نئی دہلی سے ایک خصوصی ایلچی وہاں پہنچا۔ اس کے پاس ایک سیاہ تھیلا تھا۔ وہ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے کمرے میں داخل ہو گیا‘ جہاں دونوں کوئی نصف گھنٹہ بات چیت کرتے رہے۔ پھر وزیر قانون اور پولیس چیف کو بھی طلب کر لیا گیا اور بند کمرے میں مزید نصف گھنٹہ بات چیت ہوتی رہی۔ اندر کیا باتیں ہوئیں، اس کا علم شاید کسی کو نہ ہو پاتا اگر ایک سینئر جوڈیشیل افسرکو وہاں طلب نہ کیا گیا ہوتا۔ یہ ٹھاکر پوتّر سنگھ تھے جو 'کشمیر ٹائمز‘ کے مالک اور ایڈیٹر وید بھسین کے دوست تھے۔ انہوں نے وید بھسین کو بتایا کہ 11 فروری کو مقبول بٹ کو پھانسی دینے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ اس سے قبل 3 فروری کو لندن میں ایک سینئر بھارتی سفارت کار رویندر مہاترے کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ ٹھاکر پوتّر سنگھ نے وید بھسین کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ کے چیمبر میں ان سے بلیک وارنٹ پر دستخط لیے گئے ہیں۔
مقبول بٹ کو 1975ء میں کشمیر کے تحصیل لنگیٹ میں اپنے دو ساتھیوں حامد اور ریاض کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ شیخ عبداللہ کو ان کے سکیورٹی مشیروں نے مشورہ دیا تھا کہ بٹ کو دہلی کے تہاڑ جیل میں منتقل کر دیا جائے کیونکہ 1969ء میں بٹ سری نگر کی سنٹرل جیل سے ڈرامائی انداز میں فرار ہو گئے تھے۔
ظفر معراج کے بقول جب انہوں نے یہ خبر اپنے دوست کیپٹن تکو کو بتائی تو انہوں نے مشورہ دیا کہ مقبول بٹ کو کسی عدالتی مداخلت کے ذریعے بچایا جا سکتا ہے؛ چنانچہ انہوں نے کشمیر کے ایک نامور وکیل میاں سرور سے رابطہ کیا مگر انہوں نے اپنی بے بسی کا اظہارکرتے ہوئے کشمیر کے ایک دوسرے سینئر ایڈووکیٹ مظفر بیگ سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ وہی مظفر بیگ ہیں جو اس وقت اپوزیشن پی ڈی پی کے بڑے رہنما ہیں اور کئی سال قبل تک نائب وزیر اعلیٰ تھے۔ بیگ صاحب نے یہ پیش کش فوراً قبول کر لی اور مقبول بٹ کے بھائی غلام نبی بٹ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ میاں سرور نے اس کیس سے متعلق تمام دستاویزات یکجا کر کے مظفر بیگ کے حوالے کر دیں۔ اگلے روز مظفر بیگ نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے رجسٹرار ملک شریف الدین سے باضابطہ سرٹیفکیٹ حاصل کیا کہ ابھی تک مقبول بٹ کی سزائے موت کی توثیق نہیں ہوئی۔ یہ سرٹیفیکٹ ملنے پر مظفر بیگ‘ وید بھسین اور مقبول بٹ کے اہل خانہ مطمئن ہو گئے کہ پھانسی ٹل گئی، لیکن بھارتی سپریم کورٹ نے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔
اگلے دن مظفر بیگ نے دہلی پہنچ کر بھارت کے موجودہ مرکزی وزیر قانون اور سپریم کورٹ کے نامور وکیل کپل سبل کے ذریعے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ میاں سرور نے غلام نبی بٹ کے دہلی جانے کا انتظام کیا لیکن اسے ایئرپورٹ پر حراست میں لے لیا گیا۔ سپریم کورٹ کے سپیشل بنچ کے جج اور اس وقت کے چیف جسٹس چندر چوڑ کی عدالت میں کپل سبل نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے رجسٹرار کا سرٹیفکیٹ پیش کرکے زوردار بحث کی اور کئی قانونی شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کی توثیق کے بغیر کسی کو سزائے موت دینا قانون کی صریح خلاف ورزی ہو گی اور مقبول بٹ پر جن جرائم کا الزام لگایا گیا وہ دونوں کشمیر میں ہی سرزد ہوئے تھے اس لیے اس کا اختیار جموں و کشمیر ہائی کورٹ کو ہی حاصل ہے۔ چونکہ وہ فیکس اور ای میل کا زمانہ نہیں تھا‘ اس لیے خیال تھا کہ اگر مرکزی حکومت جموں و کشمیر ہائی کورٹ سے کسی طرح سے توثیق حاصل کر لیتی ہے تب بھی پھانسی کی سزا ہفتے بھر کے لیے تو ٹل ہی جائے گی۔ اس دوران مقبول بٹ کے وکیلوں کو قانونی کارروائی کرنے اور انہیں پھانسی کی سزا سے بچانے کا موقع مل جائے گا۔
لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کپل سبل کی پُرزور بحث کے بعد بھارت کے اٹارنی جنرل کھڑے ہوئے‘ ایک سادہ سا ٹائپ شدہ کاغذ چیف جسٹس کے سامنے پیش کیا اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ سے پھانسی کی اجازت حاصل کر لی ہے۔ مظفر بیگ اب بھی یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اٹارنی جنرل نے جو کاغذ پیش کیا‘ وہ محض ایک معمولی سا کاغذ تھا‘اس پر نہ تو کوئی مہر تھی اور نہ ہی کسی کے دستخط۔ وہ کہتے ہیں: ''میں حیرت زدہ رہ گیا کہ ایک ایسا معمولی سا کاغذ‘ جس پر نہ تو کوئی مہر ہے اور نہ ہی کسی کے دستخط‘ ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے باضابطہ دستخط اور مہر سے جاری دستاویز کی جگہ کیسے لے سکتا ہے‘‘۔ ان کی یہ حیرت اس وقت دوچند ہوگئی جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے رجسٹرار کے دستخط شدہ کاغذ کو نظرنداز کرکے اٹارنی جنرل کے پیش کردہ معمولی کاغذ کو تسلیم کرتے ہوئے سزائے موت کے التوا کی درخواست مسترد کر دی۔
مقبول بٹ کے وکیل راجہ محمد طفیل اور رمیش چند پاٹھک عدالت سے سیدھے تہاڑ جیل پہنچے۔ کافی دیر تک انتطار کرانے کے بعد جیل سپرنٹنڈنٹ نے صرف پاٹھک کو مقبول بٹ سے پانچ منٹ بات کرنے کی اجازت دی۔ یہ 10 فروری 1984ء کی شام تھی۔ پاٹھک نے عدالت کی کارروائی کی روداد مقبول بٹ کو سنائی۔ مقبول بٹ نے پاٹھک سے کہا کہ وہ مظفر بیگ اور راجہ محمد طفیل تک ان کا شکریہ پہنچا دیں۔ پاٹھک نے ان سے کہا کہ وہ اگلے دن ان سے پھر ملاقات کے لیے آئیں گے لیکن مقبول بٹ نے نہایت پُرسکون لہجے میں کہا کہ یہ ان کی آخری ملاقات ہے اور وہ کل سورج کی روشنی نہیں دیکھ پائیں گے۔
11 فروری کی صبح مظفر بیگ پولیس کو چکمہ دے کر بی بی سی کے نامہ نگار ستیش جیکب کی کار میں تہاڑ جیل پہنچے۔ ان کے وہاں پہنچنے کے چند منٹ بعد ہی ایک جیل افسر باہر آیا اور مقبول بٹ کی پھانسی پر عمل درآمد ہو جانے کی خبر سنائی۔ مظفر بیگ نے وکالت نامہ دکھا کر مقبول بٹ کی میت آخری رسومات کے لیے ان کے آبائی گاوں لے جانے کی درخواست کی لیکن جیل افسر نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کوئی مدد نہیںکر سکتا کیونکہ میت کو جیل کے اندر ہی دفن کر دیا گیا ہے۔ جیل افسر نے مقبول بٹ کے زیر استعمال سامان بھی دینے سے انکار کر دیا۔
بھارت کے جمہوری اداروں اور عدلیہ کا دوہرا معیار کشمیر میں جاری شورش کی بڑی وجہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدالتیں کسی معاملہ پر فیصلہ سناتے وقت علاقے اور فرقے کی بنیاد پر کوئی حکم صادر کرنے کے بجائے انصاف کے بنیادی تقاضوں کو ملحوظ رکھیں تاکہ ان کی شہرت داغدار نہ ہو۔