بھارت میں پارلیمانی انتخابات کا عمل شروع ہونے ہی والا ہے۔ حسب معمول رائے عامہ کے جائزوں کا سیلاب آ گیا ہے؛ تاہم گزشتہ دنوںایک ٹی وی چینل نے سٹنگ آپریشن کرکے ان جائزوں کا پول کھول دیا ۔ اس وقت ملک میں20 بڑی پروفیشنل مارکیٹ ایجنسیاں، مختلف میڈیا اداروں کے ساتھ مل کر رائے عامہ کے جائزے پیش کررہی ہیں۔ ان میں سے 9 کا جس طرح پول کھول دیا گیا ہے، اس سے رائے عامہ کے جائزے اپنی اعتباریت کھو چکے ہیں ۔ایک ایجنسی کے سربراہ نے خفیہ کیمرہ پر انکشاف کیا کہ وہ سیاسی جماعتوں سے پیسہ لے کر ان کے حق میں جائزے پیش کرتے ہیں۔ ایک ایجنسی نے اسمبلی کے ایک حلقہ میں دو مختلف پارٹیوںکے لیے الگ ناموں کے ساتھ سروے پیش کئے اور دونوں کو جتایا۔جس پر الیکشن کمیشن نے اس کا سخت نوٹس لیا اور وزارت قانون کو ایک مکتوب ارسال کرکے اپنے اس دیرینہ مطالبہ کا اعادہ کیا کہ انتخابات کی تاریخ کا نوٹیفیکیشن ہوتے ہی اوپی نین پول (Opinion Poll)کے نتائج کی نشر و اشاعت پر پابندی لگا دی جائے۔اب یہ معاملہ مرکزی حکومت کے پاس زیر غور ہے۔
بھارت میں رائے عامہ کے انتخابی جائزے کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے زبردست پھیلائو کے نتیجہ میں ہر انتخابات میں رائے عامہ کے جائزوں کا اہتمام عمومی عمل بن گیا ہے ۔ان سرووں میں کوئی مخصوص طریقہ کار کو استعمال نہیں کیا جاتا ۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹرایس وائی قریشی کے مطابق '' کئی مراحل میں ہونے والے انتخابات میں انتخابی جائزوں کے نتائج بقیہ مراحل کے انتخابات میںرائے دہندگان کو متاثر کرتے ہیں۔الیکشن کمیشن نے1997ء میں انتخابی جائزوں کے مسئلہ پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی تھی اور 2004ء میں پھر اس مسئلہ پر بات کی تھی۔ سبھی سیاسی جماعتیں متفق تھیں کہ انتخابی سروے کے نتائج ،الیکشن کے اعلان کی تاریخ اور پولنگ کے تمام مراحل ختم ہونے تک ظاہر نہیں کئے جانے چاہئیں۔‘ ‘ خیال رہے الیکشن کمیشن نے2004ء کے الیکشن سے قبل دوسری مرتبہ سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد حکومت کو یہ تجویز دی تھی کہ وہ سروے کے نتائج پر پابندی لگانے کے لیے قانون بنائے۔ سال2009ء کی ابتدا میں حکومت نے اس سلسلہ میں پارلیمنٹ میں ایک بل بھی پیش کیا تھا! لیکن اس پر پیش رفت نہیں ہوسکی ۔
ان انتخابی سرویز اور ان کے نتائج کے بارے میں تمام تر سیاسی جماعتوں کی یہ عمومی شکایت ہے کہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے نتائج نہایت چالاکی اور مہارت سے بدل دیے جاتے ہیں کیونکہ سروے کے اخراجات اس سیاسی جماعت نے برداشت کئے ہوتے ہیں جس کے حق میں یہ نتائج پیش کیے جاتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران سادہ لوح رائے دہندگان کو ورغلانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ شکایت غلط نہیں ہے ۔ یہ شکایت بھی بے بنیاد نہیں ہے کہ حالیہ عرصے میں جتنے بھی انتخابی جائزے پیش کئے گئے، ان کی پیش قیاسیوں اور اصلاً انتخابی نتائج کے درمیان زمین آسمان کا فرق پایا گیا۔2004ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے کی زبردست کامیابی کی پیش قیاسی کی گئی تھی مگر انتخابی نتائج بالکل الٹ آئے۔
رائے عامہ جائزوں کے خالق این بھاسکر رائو نے اپنی کتاب Polls Surveys In Media: An Indian Perspective میں انتخابات کے موقع پر ہونے والے عوامی رجحانات کے جائزوں پر مبسوط اور مفصل تبصرہ کیا ہے ، جس کے مطابق تمام جائزے اپنی پیش قیاسیوں میں ناکام رہے ہیں۔ کتاب میں کہا گیا کہ جب برطانیہ میں1992ء کے عام انتخابات میں رائے عامہ کے جائزے صحیح نتائج کی پیش قیاسی کرنے میں ناکام رہے تو ناقدین نے ان جائزوں کو خطرناک مرض سے تعبیر کیا تھا جو جمہوری عمل کو پراگندہ کرکے اسے گھڑ دوڑ میں تبدیل کردیتے ہیں۔
امریکی ماہر جارج گیلپ کو رائے عامہ کے جائزوں کا خالق کہا جاتا ہے جنہوں نے پچاس سال پہلے گیلپ پول کی بنیاد رکھی تھی۔ انہوں نے امریکہ میں صدارتی انتخابات کے بارے میں عوامی رجحان کا جائزہ پیش کرنے کی ابتداء کی ۔ اس کے بعد سے انتخابات کے موقع پر اس طرح کے عوامی جائزوں کا اہتمام پوری میں دنیا میں ہونے لگا۔ اس کے لئے متعدد ادارے معرض وجود میں آئے۔ تاہم ان جائزوں کی خرابی کی حقیقت بہت جلد آشکار ہونی شروع ہوئی۔ گیلپ پولز سے وابستہ رہے ڈیوڈ نے اپنی کتابوں The Opnion Makers ,2008اور The Super Pollesters , 1995میں انتخابی سرویز کی خرابیوں اور خامیوں کا تفصیل سے جائزہ لیاہے۔ ان کے مطابق پول سروے (انتخابی جائزے) جمہوری عمل و ماحول کو خراب اور متاثر کرتے ہیں ۔ در حقیقت ان کا مقصد ہی جمہوری ماحول کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔ بھارت کے تناظر میں یہ تجزیہ پوری طرح سچ ثابت ہوتا ہے۔
ایک اور خرابی پیڈ نیوز ( پیسہ کے عوض خبر ) کی شکل میں در آئی ہے ۔ اور یہ برائی بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے، بالخصوص 2009ء کے بعد سے اس رجحان میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے، اس نے بھی انتخابی جائزوں کی کشش اور ساکھ کو کمزور کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اگست2011ء میں پیڈ نیوز کے رجحان پر قدغن لگانے کے لیے جو رہنما خطوط جاری کئے ہیں وہ کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں پول سروے کی تفصیلات کو ' پیڈ نیوز‘ پر محمول کیا جاسکتا ہے ۔ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر نے کہا تھا '' اگر نیوز پیسہ لے کر شائع کی جاسکتی ہے تو(رائے عامہ کے جائزے)بھی پیسہ دے کر کرائے جاسکتے ہیں۔‘‘ الیکشن کمیشن نے اس سلسلہ میں مزید قدم اٹھاتے ہوئے سال 2012ء میں پیڈ نیوز پر نظر رکھنے کیلئے ایک مانیٹرنگ کمیٹی قائم کی جس نے بطور مثال اتر پردیش میں 242 پیڈ نیوز کی شناخت کی جو138 امیدواروں نے دی تھیں۔ (بھارتی )پنجاب میں تو الیکشن کمیشن نے 339 امیدواروں کو پیڈ نیوز کے لیے نوٹس جاری کئے، ان میں سے201 امیدواروں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے اپنی خبریں پیڈ نیوز کی شکل میں دی تھیں جن کی مالیت کا تخمینہ کمیشن نے ایک کروڑسترہ لاکھ روپے لگایا ۔ کمیشن نے ان تمام کیسوں کو پریس کونسل آف انڈیا کو بھیج دیا ہے ۔ اب اگر کونسل قصور وار اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی توآئندہ کمیشن اپنے طور پر اخبارات کے خلاف خود ایکشن لے سکتا ہے۔
اس وقت ملک میں 20 سے زائد نجی ایجنسیاں ہیں جو انتخابی سروے کا کام انجام کرتی ہیں۔ ان میں سی ووٹر ، اے سی نیلسن،او ؤر جی مارگ، سی ایم ایس ، ڈی آ رایس ، سنٹر فار فورکاسٹنگ اینڈ ریسرچ، تعلیم، ٹی این ایس گلوبل، سی ایس ڈی ایس، آئی آر ڈی آئی ، جی ایف کے موڈ اور ایم ڈی آر اے وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی ادارے ہیں جو علاقائی سطح پر کام کرتے ہیں۔ معتبر انتخابی تجزیہ کاروں (پول سٹر)کے مطابق پچیس ہزار نمائندوں کے ذریعے رائے دہندگان سے سوالات پر مبنی ملک گیر سروے کرانے پر50 لاکھ روپے سے زیادہ خرچ آتا ہے۔ ایک رائے دہندہ تک پہنچنے کے لیے 180تا 200 روپے خرچ ہوتا ہے۔ اب ایک عام سی بات ہے کہ میڈیا کا کوئی ادارہ اتنے بڑے اخراجات کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ چنانچہ وہ سپا نسر تلاش کرے گا۔اگر ایسا کرتا ہے تو یقینا وہ میڈیا ادارہ ( چینل یا اخبار) کسی فرد یا جماعت کی سیاسی ضروریات کا خیال رکھے گا۔ چنانچہ اس جائزے کی اعتباریت وہیں ختم ہوجائے گی۔ با لخصوص ایک ایسا ملک جو کثیر مذہبی ، کثیر ثقافتی ، کثیر لسانی اور کثیر طبقاتی( ذاتوں) ہو ، جہاں رائے دہندگان میں سیاسی شعور اتنا بلند نہ ہوا ہو ، رائے دہی کے حق کے استعمال میں مسائل اور موضوعات کے بجائے ذات اور مذہب نیز علاقہ کو تر جیح دینے کا رجحان حاوی ہو، وہاں رائے عامہ کے جائزے کیونکر درست ثابت ہوسکتے ہیں؟