"IGC" (space) message & send to 7575

بھارتی انتخابات اور مسلمان

بھارت میں انتخابی مہم شباب پر ہے۔ سیاسی جماعتیں ووٹروں کو لبھانے کے لیے طرح طرح کے حربے آزما رہی ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں پر بھی ڈورے ڈالے جارہے ہیں۔ بھارت کی 543رکنی لوک سبھا کی 161 نشستوں پر مسلمان ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ ان سیٹوں میں مسلم ووٹروں کا تناسب کل ووٹروں کا 15 تا 98 فی صد ہے۔ ماہرین کے مطابق کثیر رخی مقابلہ میں15 فیصدکا ووٹنگ بلاک، فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔مگر اس انتخابی قوت کے باوجود مسلمان کس مپرسی کا شکار ہیں۔سیکولر جماعتیں اُسے ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی آئی ہیں۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتوںنے اپنے انتخابی منشور میں کسی نہ کسی درجہ میں مسلمانوں کو تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن دینے کا وعدہ کیا ہے۔
کانگرس نے اپنے منشور میںSafeguarding Minoritiesکے ذیلی عنوان سے، اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے متعلق سات وعدے کئے ہیں۔منشور، جہاں فہرست میں درج اقوام و قبائل (SCs & STs)کو بااختیار بنانے کا وعدہ کرتا ہے وہیں اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ کی بات کرتا ہے۔منشور میں کہا گیا ہے کہ '' ہم اقلیتوں کے افراد کی سلامتی او ر انہیںتما م شعبہ ہائے حیات میں مساوی مواقع فراہم کرنے کو یقینی بنائیں گے‘‘۔ بہرحال پارٹی نے ایک نیا وعدہ کیا ہے ۔وہ ہے مولانا آزاد ایجوکیشنل فنڈ کی طرز پر اقلیتی طبقات کے با ہنر نوجوانوں اور صنعت کاروں(Entrepreneurs)اور صناعی کی ترقی کے لئے ایک علیحدہ فنڈقائم کرنا ۔ انسدادفرقہ وارانہ تشدد بل مجریہ 2013ء کو ترجیحی بنیاد پرپاس کرنے کا بھی اعادہ کیا ہے جو وہ پچھلے دو انتخابات سے کرتی آرہی ہے ۔ علاقائی جماعتوں نے مسلم فرقہ کی بہبود کے حوالے سے کئی وعدے کئے ہیں اور وہ معلق پارلیمان کی صورت میں حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
دوسری طرف طرف بی جے پی بھی یہ باور کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ 'مسلم دشمن‘ جماعت نہیں ہے اور یہ سب اس کے مخالفین بالخصوص کانگرس اور میڈیا کے ایک حلقہ کا پھیلایا ہوا جھوٹ ہے۔مگر اس پارٹی کا اپنے اُن ارکان اسمبلی کی بھرے عوامی جلسہ میں پذیرائی کرنا جو مظفر نگر کے حالیہ مسلم کش فسادات میں براہ راست ملوث تھے ان کے دعوے کی نفی کرتا ہے۔کچھ عرصہ قبل بی جے پی کے سابق صدر نتین گڈکری نے ممتاز مسلم صحافیوں سے ملاقات کی تھی ۔اس کے بعد پارٹی کے دیگر لیڈروں نے اسی طرح کی ایک ملاقات کا اہتمام کیا ۔ ان کا سارا زور اس بات پر تھا کہ کانگرس اور میڈیا کے ایک حلقہ نے بی جے پی کی اقلیت مخالف شبیہ کھڑی کی ہے جبکہ وہ مسلم ''دشمن‘‘ جماعت نہیں بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلنا اور سب کی ترقی و فلاح چاہتی ہے۔مگر اس حوالے سے پوچھے گئے کسی بھی سوال کا وہ تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ جب ایک سینئر صحافی نے کہا کہ دوسروںپر الزام لگانے سے پہلے بی جے پی خود کیوں اپنا احتساب نہیں کرتی ؟ اس صحافی نے کہا کہ وہ اجودھیا میں بابری مسجد سانحہ کے وقت اور اس سے قبل بھی رونما متعدد واقعات کے وقت وہاں بنفس نفیس موجود تھا ۔وہ ان واقعات کا عینی شاہد ہے کہ کس طرح بی جے پی کے بڑے لیڈران بشمول ایل کے ایڈوانی ہجوم (کار سیوکوں) کو اکسارہے تھے اور مسجدمنہدم کی جارہی تھی۔ اس لیے پارٹی کا موجودہ امیج خود اس کا اپنا پید اکیا ہوا ہے۔ اس پر گڈکری گویا ہوئے کہ آپ میرے موقف سے اختلاف کریں گے۔ اس ملک میں ہزاروں مندروں کو توڑاگیا، اجودھیا میں بھگوان رام کی جائے پیدائش کا مندر بھی توڑا گیا، اب الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی اس کو تسلیم کرلیا ہے۔ وہاں مسجد کہاں تھی ؟ وہ ایک متنازع عمارت ہے۔ اسے مسجد بھی نہیں کہا جاسکتا ، وہاں کبھی نماز نہیں ادا کی گئی۔ کیونکہ مسلمان کسی متنازع جگہ پر نماز ادا نہیں کرتے ہیں۔ بھگوان رام سارے ملک کیلئے اہمیت رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ گڈکری نے اپنے جواب میں انہی باتوں کو دہرایا جس کا پارٹی اور آر ایس ایس اپنے دفاع میں استعمال کرتی ہے ۔ یعنی انہیں اس بات پر ذرا بھی افسوس نہیں تھا کہ یہ ایک خلاف آئین کام تھا ۔
جب یہ سوال کیا گیا کہ بی جے پی کے وزیراعظم کے عہدہ کے امیدوارگجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی 2002ء کے مسلم فسادات کے لئے ندامت کا اظہار کیوں نہیں کرتے جیسا کہ کانگرس نے1984ء کے سکھ مخالف فسادات اور یو پی کے وزیر اعلیٰ اکھلیش سنگھ یادو نے مظفر نگر کے فسادات کے لئے اعلانیہ معافی مانگی ہے ؟ اس پر گڈکری نے کہا کہ وہ سب سیاسی مصلحت کے تحت کیا گیا۔اس میں مودی کا کوئی ہاتھ نہیں ہے ۔ گفتگو کی ابتداء میں ہی گڈکری نے اعتراف کیا کہ وہ آر ایس ایس کے پروردہ ہیں اور آر ایس ایس مسلمانوں کی دشمن نہیں ہے ۔ پارٹی کی صدارت سے محروم ہونے کے باوجود اب بھی وہ پارٹی کے تین چار اہم فیصلہ ساز رہنمائوں میں سے ایک ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں اور بی جے پی کے درمیان جو غلط فہمیاں (Miscommunications)ہیں انہیں دور کیا جائے ۔ بی جے پی مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے ۔ اس حوالے سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اس کی سیاست کا محور عموما ًاقلیت مخالف ہوتا ہے نیز وہ مسلمانوں کے ووٹ تو چاہتی ہے لیکن انہیں اقتدار میں حصہ دینا نہیں چاہتی ؟ ایک دوسرے صحافی نے سوال کیا کہ پارٹی نے ابھی تک صرف چار مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات سچ ہے ۔ مگر
پارٹی کی ' چنائو جیتنے کی اسٹریٹجی ‘ کے تحت یہ مجبوری ہے کہ وہ ٹکٹ، جیتنے کے امکا نات کی بنیاد پردیتی ہے۔بہرحال انہوں نے یہ بر ملا اعتراف کیا کہ اگر مسلمان کو ٹکٹ دیا جاتا ہے تو ہندو اسے ووٹ نہیں دیتا اور مسلمان بھی بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے ۔حالیہ راجستھان اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے چار مسلمانوں کو ٹکٹ دئے تھے جن میں دو کامیاب ہوئے ۔ یہ دونوں امیدوار ایسے حلقوں سے جیت گئے جہاںمسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی تھی اور اُنہیں ہندو ووٹروں پر تکیہ نہیں کرنا پڑا۔ دوسری طرف دیگر دو امیدوار جو انتخابات ہار گئے ، ہندو اکثریتی علاقوں سے الیکشن لڑرہے تھے۔ اور بی جے پی کی لہر کے باوجود ان حلقوں میں ہندو ووٹروں نے بی جے پی کے مسلم چہروں کے بجائے کانگرس کو ووٹ دئے۔ گڈکری نے یہ بھی دعوی کیا کہ مدھیہ پردیش اور گجرات نیز جہاں بھی بی جے پی کی حکومتیں ہیں، وہاں مسلمان خوشحال اور چین کی بنسری بجا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گجرات میں مسلمان فی کس آمدنی کے لحاظ سے ملک بھر میںسر فہرست ہیں ۔ وہ کسی خوف کے بغیر رہ رہے ہیں۔ گڈکری کی پہل کو ایک خوش آئند قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر بی جے پی واقعی مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے قول اور فعل کے درمیان حائل خلیج کو پاٹنا ہوگا ۔ گڈکری نے دورانِ گفتگو صاف گوئی سے کام لیا اور کوئی بات چھپانے کی کوشش نہیں کی اور واضح طور پر کہا کہ ان کی پارٹی میں بعض عناصر ایسے ہیں جو ان غلط فہمیوں کا خاتمہ نہیں چاہتے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں