"IGC" (space) message & send to 7575

بھارتی انتخابات :مینڈیٹ ، توقعات اور خدشات

بھارت میں عام انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور توقع کے عین مطابق ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے سر پر اقتدارکا سہرا باندھنے کافیصلہ ہو چکا ہے۔ جس طرح کا واضح مینڈیٹ انہیں حاصل ہوا، اس کی توقع کسی کو نہیں تھی۔ دوسری طرف سیکولرازم کی سیاست کرنے والی کانگریس اور اس قبیل کی دوسری پارٹیوں نے شکست کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔نصف صدی سے زائد عرصے تک بھارت پر حکمرانی کرنے والی کانگریس543 رکنی ایوان میں محض44 نشستوں تک سمٹ گئی اور اب اس کی اپوزیشن کی سربراہی کرنے کی حیثیت بھی مشکوک ہوگئی ہے یعنی اس کے لیڈر کے لئے '' لیڈر آف دی اپوزیشن ‘‘ کی مراعات حاصل کرنااسپیکر کی صوابدیدپرہوگا۔ بی جے پی نے ا پنے ہی دم پر282نشستیں جبکہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر ریکارڈ337 نشستیں حاصل کی ہیں۔ اس طرح کا مینڈیٹ بھارت میں 1989ء کے بعد کسی حکومت کو نصیب نہیں ہوا ۔ بائیں بازوکی دونوں جماعتیں مل کر صرف 10 سیٹوں پر کامیاب ہوئیں۔
اس مینڈیٹ کا منفی پہلو یہ رہا کہ ملک کے 25 کروڑ مسلمان اس بار پارلیمان میں صرف 23 اراکین بھیج پائے ہیں جو پچھلی کئی دہائیوں میں سب سے کم نمائندگی ہوگی۔ملک کی 74 پارلیمانی نشستوں میں جہاں مسلمانوں کی انتخابی آبادی 22سے 95 فیصد ہے، بی جے پی کو 39 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔اگر وادی کشمیر، کیرالا اور مغربی بنگال کی 22 نشستوں کوالگ کیاجائے (کیونکہ ان علاقوں میں بی جے پی کا کوئی وجود نہیں ہے) تو دیگر 52 نشستوں میں 39حاصل کرکے مودی نے 75 فیصد مسلم نشستوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی ایسی 17 نشستوں پر بی جے پی نے کامیابی حاصل کی جبکہ بہار کی 9میں سے 5 مسلم اکثریتی سیٹیںبی جے پی اور اس کے حلیفوں کے حصہ میں آئیں۔ قارئین شاید یہ اخذ کرلیں کہ بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت نے بی جے پی کو ووٹ دیے ہیں مگر نتائج کا بغور تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ اکثر جگہوں پر بی جے پی ہندو ووٹروں کو ذات پات کے حصار سے باہر نکال کر لام بند کرنے میں کامیاب ہوئی اور کچھ علاقوں میں اس نے چالاکی سے مسلم ووٹوں کو سیکولر پارٹیوں کے ہجوم میں اس طرح تقسیم کرایا کہ وہ بے اثر ہوکر رہ گئے۔
انتخابی مہم کی کوریج کے لئے بہار کے دورہ کے دوران میں نے جب نیپال بارڈر سے متصل مدھوبنی حلقہ سے بی جے پی کے امیدوار حکم دیو نارائن یادو سے پوچھا کہ آیا ان کے حلقہ میں آباد 24 فیصد مسلمان ان کے خلاف یک جا ہوکر ووٹ تو نہیں دیں گے ؟تو ان کا دھمکی بھرا جواب تھاکہ مسلمان اگرایسا کرتے ہیں تو ان کے حلقہ کے 76فیصد ہندو بھی رد عمل کے طورپر ان کا ساتھ دیںگے ۔ یادو نے مشورہ دیا کہ سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کو بی جے پی کے خلاف متحد ہونا بند کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح وہ 85 فیصد ہندو اکثریت کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اقلیتوں کا بہترین محافظ ان کا پڑوسی ہوتا ہے، اس لئے مسلمانوں کو اپنے ہندو پڑوسیوں کی خواہشات کے خلاف لام بند ہونے کے بجائے ان سے تعلقات استوار رکھنے چاہئیں۔ 
تجزیہ سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جہاں ایک طرف سیکولر جماعتیں مسلمانوں کو راغب کرنے کی کوششیں کررہیں تھیں ، وہیں دوسری طرف مودی کے دست راست امیت شاہ نچلی ذات اور دیگر ہندو طبقوں کو مائل کرنے کے لئے کوشاں تھے۔اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو اور دلتوں کی لیڈر مایاوتی کو پتا ہی نہیں چلا کہ کب ان کا ' 'کور ووٹر‘‘ دلت اور یادو ان کے دامن سے کھسک گیا ،کیونکہ شاہ ان کے ووٹروں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ ان کے لیڈران مسلمانوں کی نازبرداری میں لگے ہوئے ہیں جس سے ایک طرف ہندو ذات پات کی حدود کو چھوڑکر اپنے ان لیڈروں کوسبق سکھانے کے لئے بی جے پی کے حق میںمتحد ہوگئے، دوسری طرف مسلمان سیکولر پارٹیوں کے ہجوم میں بٹ گئے۔ یہ ایک انتہائی شاطر چال تھی جوکامیاب ہوکر بی جے پی کے لئے ایک تاریخی مینڈیٹ لائی ۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ الیکشن کے دوران بی جے پی کی بالائی لیڈر شپ کی صف میں کچھ کھچائو موجود تھا، لیکن مودی نے تن تنہا اپنی الیکشن مہم ملک کے بیشتر حصوں میں شد ومد اورکامیابی کے ساتھ چلائی۔ ان کی الیکشن مہم میں زیادہ تر صرف پارٹی کے صدر راج ناتھ پنڈال پر نظرآتے رہے جبکہ ایل کے ایڈوانی ، سشما سوراج وغیرہ جیسے سینئر پارٹی رہنما خال خال ہی ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا تے ہوئے دیکھے گئے۔نریندر مودی نے اپنے جلسے جلوسوں میں کانگریس کی ایک ایک کمزوری کو خوب اْچھا لا اور ہر بار دْکھتی رگ پر انگلی رکھ کر یوپی اے دوم کے دور اقتدار میںملک کو درپیش گنجلک اقتصادی ، انتظامی ا ور سیاسی مسائل کی نشاندہی کر کے کانگریس کی خوب خبر لی۔ اپنی تقریروں میں گوانہوں نے راہول گاندھی پرشہزادے کا فقرہ کسنے اور انہیںٹافی اور غبارے جیسی پھبتیاں دینے سے گریز نہ کیا جو کہ وزارت عظمیٰ کے کسی امیدوار کے شایان ِ شان نہ تھا مگر اطمینان بخش بات یہ ہے کہ انہوں نے رائے دہندگان میں ہندو توا ایجنڈے کی بجائے ترقی کا چرچا کر کے اپنا ایک ہی تاثر بنایا ۔ ایک قابل توجہ امر یہ بھی رہا کہ ماضی سے ہٹ کر بی جے پی نے ''اب کی بار مودی سرکار‘‘ کا نعرہ دے کر اپنی ساری توجہ پارٹی نظریات سے زیادہ شخصیت پر مرکو زکئے رکھی۔ اپنے منشور میں بی جے پی نے ملکی مسائل کے بارے میں اور باتوں کے علاوہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرانے، یکساں سول کوڈکا نفاذ او ر دستور کی دفعہ370 کو ہٹانے جیسے دیر ینہ وعدوں کی تکرار سے ہندو ووٹ بینک کو رجھانے کی بھر پور کوشش کی، ا لبتہ اس پر زیادہ اصرار نہ کیا ۔
یہ بھی ایک قابل ذکر بات ہے کہ نریندر مودی نے انتخابی مہم میں کانگریس کو لگاتار لتاڑامگر ان کی احتیاط اور سیاسی بالغ نظری کا ایک پہلویہ بھی رہا کہ جب ایک جذباتی قسم کے سنگھی لیڈر گری راج سنگھ نے ترنگ میں آکر اپنی تقریر میں کہا کہ جو لوگ مودی کے حق میں ووٹ نہیں ڈالتے انہیں پاکستان جا نا چاہیے تو اس
جذباتیت کو مودی نے اعلانیہ طور پر ناپسند کیا۔ایک موقع پر انہوں نے پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کو غربت کے خلاف جنگ کرنے کی اپیل بھی کی۔ مودی ایسے متنازع لیڈر کے منہ سے مخاصمانہ خیالات کی بجائے اس طرح کے خوشگوار جملے ادا ہونے سے یہ عندیہ ملتاہے کہ شاید احساسِ ذمہ داری سے ان کی شخصیت میں توازن آگیا ہے۔ یہ بات ویسے طے ہے کہ بھارت جیسے کثیر جہتی ملک کو چلانے کے لیے وہی شخصیت ایک کامیاب حکمران ثابت ہوسکتی ہے جوملک میں بھائی چارے اور قومی یکجہتی کو فروغ دے اور ملک میں امن و امان قائم رکھے۔ اسی طرزِ سیاست سے ملک کی ترقی کے لئے نئی راہیں کھل جائیں گی۔ فرقہ وارانہ فسادات کو ختم کرنا، سیاسی قضیہ جات بشمول مسئلہ کشمیر سے گلو خلاصی حاصل کرنا ، جمہوری اقدار کی طرف داری کر نابھی اب نئے وزیر اعظم کے سامنے بڑے بڑے چیلنج ہیں۔ نئے وزیراعظم کی کامیابی کی پرکھ اسی بات سے ہوگی کہ اس ملک کا کوئی بھی شہری خود کو غیر محفوظ نہ سمجھے۔۔۔ امن، بھائی چارہ اور انصاف ، یہی وقت کی پکار ہے۔ لہٰذا اقلیتی طبقے کو کسی بھی صورت میں ذہنی تنائو سے آزادی دی جانی چاہیے ،نہ کہ ان کو آسام یا مظفر نگر جیسے خونیں مناظر کی نذر کیا جائے۔ مزید برآںنئے وزیر اعظم کے لئے تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے روابط اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک میں اندرونی اور بیرونی سطح پر سازگار ماحول پیدا ہو۔ نئی مرکزی حکومت کو تمام ریاستوں کے لئے یکساں ترقی کا بھی خواہاں ہوناضروری ہے تاکہ علاقائی عدم مساوات ختم ہو۔ توقع ہے کہ نئے وزیر اعظم اب صرف اپنی پارٹی یا مذہب کے ہی نہ رہیں گے بلکہ پورے خطے کو امن کا پیغام دے کر ایک سیاستدان کے بجائے اسٹیٹس مین کے طورپر تاریخ میں اپنا نام رقم کروائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں