کچھ افراد کے متعلق یہ تعین کرنا از حد مشکل ہوتا ہے کہ آخر ان کے پاس ایسی کونسی گیدڑسنگھی ہے جس سے وہ اعلیٰ حکام اور سیاستدانوں کو شیشے میں اتارلیتے ہیں۔بھارتی یوگ گوروبابا رام دیو کے مصاحب خاص اور بھارتی صحافی ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے، جنہوں نے جماعت الدعوۃ کے بانی پروفیسر حافظ محمد سعید سے لاہور میں ملاقات کر کے بھارت میں سیاسی بھونچال پیدا کردیا ہے۔ بھارتی دانشور طبقہ اس بات پر حیران ہے کہ آخر ویدک جی کے پاس ایسا کیا جادو ہے کہ آصف علی زرداری سے لے کر نواز شریف تک سبھی ان کے لیے چشم براہ رہتے ہیں۔ کبھی صدارتی محل تو کبھی رائے ونڈ میں ان کی خاطر مدارت ہوتی ہے۔اگر پاکستانی میدان سیاست کے یہ شہسوار ویدک جی کے ذریعے اپنی بات بھارتی راہنمائوں اور طاقت کے گلیاروں تک پہنچا نا چاہتے ہیں، تو ان کا انتخاب غلط ہے۔یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ ویدک جی کانگریس پارٹی کے سخت مخالفین میںسے ہیں اور ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ ہیں، پاکستانی حکمران انہیں سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کے لیے بھی پیغام رسانی کا وسیلہ سمجھتے تھے۔یہ سادہ لوحی نہیں تواور کیا ہے۔
بھارتی دانشور طبقے میں ویدک جی دو ٹوک بات کرنے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ محفلوں میں یا سیمیناروں میں وہ اپنے ایسے کارناموں کا پٹارہ کھول دیتے ہیں کہ شاید ہی کوئی شخص ان پر یقین کرسکے۔ وہ اکثر پاکستان اور افغانستان جاکر یہ دھاک جمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا بھارتی حکومت میں بڑا اثر ہے ،مگر یہ سو فیصد درست نہیں ۔اب رہی سہی کسر حالیہ تنازع نے پوری کردی۔
ویدک جی کی شخصیت اور ان کا طرز عمل اپنی جگہ مگر جس طرح
بھارتی میڈیا اور کانگریس پارٹی نے حافظ سعید کے ساتھ ان کے انٹرویو پر ہائے توبہ مچائی ہے یقینا قابل مذمت ہے۔ چاہے کوئی ڈاکو ہو یا حکومتی عہدیدار، ایک صحافی کے لیے سب کے دروازے کھلے رہنے چاہئیں۔ ایک دہائی قبل جب اٹل بہاری واجپائی حکومت میں ایل کے ایڈوانی نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے تھے، حکومت نے انسداد دہشت گردی قانون کے ڈرافٹ میں ایک شق رکھی کہ عسکریت پسندو ں کے انٹرویو لینے سے قبل صحافیوں کو حکومت کو باخبر کرنا ہوگا ، نیز بعد میں انٹرویو کے اقتباسات، حکومتی اہلکاروں کی اجازت کے بعد ہی نشر یا شائع کئے جا سکیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ ہوم سیکرٹری کی آف دی ریکارڈ بریفنگ ، جس میں ہمیں یہ ڈرافٹ دیا گیا، کے فورا ًبعد کچھ سینئر صحافیوں کی معیت میں ہم نے ایڈوانی جی کا دروازہ کھٹکھٹایا اور خاصے لیت و لعل کے بعد انہیں سمجھانے میں کامیاب رہے کہ اس طرح وہ اطلاعات کا اہم دروازہ بند کررہے ہیں۔اس کے بعد مجوزہ قانون کے ڈرافٹ سے اس شق کو حذف کردیاگیا۔کانگریس پارٹی نے اس وقت صحافیوں کا بھر پورساتھ دیا۔ جب کئی پاکستانی اور بھارتی صحافی مختلف حوالوں سے مشہور افراد سے ملاقات کرسکتے ہیں توبھارت جیسے جمہوری ملک میں حافظ سعید سے ملاقات کی وجہ سے ویدک جی کو تختہ مشق کیوں بنایا جارہا ہے؟
مگر یہ ایک سوال ہے کہ حافظ صاحب کا انٹرویو ویدک جی نے کہاں شائع کیا، او ر وہ اگر صرف پیغام رسانی کے لیے ان سے ملے تھے توانہیں اس ملاقات کی تشہیر کی ضرورت کیوں پڑی ؟ اگر کسی نے پیغام رسانی یا حافظ سعید کے ارادوں کو ٹٹولنے کے لیے ویدک جی کو منتخب کیا تھا، تویہ صریحاً غلط انتخاب تھا۔ ایسے اقدام کے لیے لو پروفائل یا کسی نامور صحافی کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں،جو غیر محسوس طریقے سے پیغام رسانی کا کام کرے اور انٹرویو نشر یا شائع کرکے ایک طرح کی پبلک ڈی بیٹ کا بھی آغاز کرے۔1987ء میں معروف صحافی کلدیپ نائرنے بھارتی فوج کے آپریشن براسٹیکس کے دوران جوہری سائنسدان عبدالقدیر خان کا انٹرویو کر کے بھارت میں ہلچل مچادی تھی۔ اس کے ایک دہائی بعد جب بھارت جوہری دھماکوں کے بعد دنیا میں الگ تھلگ ہوگیا تھا، توواجپائی نے انڈین ایکسپریس کے مدیر شیکھر گپتا کی خدمات حاصل کرکے میاں نواز شریف سے بس کے ذریعے لاہور آ نے کا دعوت نامہ حاصل کیا۔اسی طرح 2006ء میں جب صدر پرویز مشرف اور من موہن سنگھ نے کشمیر سے متعلق چار نکاتی فارمولے کی منظوری دی، توطے پایا کہ اس کی پبلسٹی پاکستان کی طرف سے کسی موقر بھارتی میڈیا ادارے کے ذریعے کرائی جائے۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ کی نظر انتخاب مشہور قانون داں اور کالم نویس اے جے نورانی پر پڑی ، جنہوں نے اگست 2006ء میں مشرف کا ایک تفصیلی انٹرویو جریدہ فرنٹ لائن میں شائع کیا۔ پاکستان جانے سے پہلے وہ من موہن سنگھ سے ملے تھے اور بعد میں انٹرویو سے قبل انہوں نے دس منٹ تک مشرف سے تخلیہ میں ملاقات کی۔اب اگر ان اشخاص کی ملاقاتوں کا موازنہ ویدک جی کی سفارتی تگ و دو سے کیا جائے تو خود بہ خودفرق واضح ہوجاتا ہے۔
بہر حال ویدک جی کی اس ملاقات پر پارلیمان کے اندر اور اس کے باہر اتنا زبردست ہنگامہ ہورہا ہے کہ حکومت اور بی جے پی دونوں کے پسینے چھوٹنے لگے ہیں۔ حکومت ویدک صاحب کے خلاف کوئی ایکشن لینے کی پو زیشن میں نہیں جبکہ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ ملک کے کئی مقامات پر انفرادی سطح پرویدک کے خلاف مقدمے دائر کئے گئے ہیں۔ یہ اشارہ بھی دیا گیا ہے کہ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی ویدک جی سے باز پرس کرسکتی ہے ۔ حکومت نے پارلیمان میں کہا کہ اس ملاقات سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ۔اس معاملہ میں راہول گاندھی نے بھی زبان کھولی ۔ مودی حکومت کی حلیف جماعت شیو سینا نے بھی ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرکے حکومت کو مزید الجھن میں مبتلا کردیا ہے ۔ شیو سینا کے لیڈر سنجے راوت نے کہا کہ ویدک کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے ۔ پاکستان کے حوالے سے بھارت میں قومی نفسیات کچھ اس طرح سے بنادی گئی ہے کہ اگر کوئی معمولی سا واقعہ بھی پیش آتا ہے تو 'راشٹر بھکتی ‘ کے جذبات سونامی کی طرح موجزن کردیے جاتے ہیں اور ایسا ہیجان پیدا کیاجاتا ہے کہ ملک کے مفاد اور بھلے کی بات یا معقولیت کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ اب چونکہ حافظ سعید صاحب کی ایک ' دشمن ‘ کی شبیہ بنا ئی گئی ہے کہ ،سو، ان سے بات کرنا بھی ملک سے غداری کے مترادف قرار دے دیا گیا ہے ۔حافظ سعید اپنی تنظیم کے بارے میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ خدمت خلق کا کام انجام دیتی ہے ۔کہا گیاکہ امریکہ نے ابتداء میں ان کے سر پر دس ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا تاہم بعد ازاں یہ وضاحت کی گئی کہ یہ انعام اس شخص کو دیا جائے گا جو ممبئی کے دہشت گرد حملوں میں ان کے ملوث ہونے کے بارے میں ثبوت لائے گا، لیکن یہاں اسے اس طرح پیش کیا جا رہا ہے جیسے امریکہ نے واقعی ان کے سر پر انعام رکھا ہے ۔کانگریس کا کہنا ہے کہ ان کے دور اقتدار میں جب کشمیری لیڈر اور جے کے ایل ایف کے چیئر مین یاسین ملک نے اسلام آباد میں حافظ سعید سے اس وقت ملاقات کی تھی جب وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف بطور احتجاج وہاں ہڑتال پر بیٹھے تھے لیکن اس پر بی جے پی اور سنگھ پریوار نے آسمان سر پر اٹھالیا تھا اور یاسین ملک کے خلاف سخت کارروائی کرنے اوراس کا پاسپورٹ ضبط اور گرفتارکرنے کا مطالبہ کیا تھا۔حالانکہ یاسین ملک نے حافظ سعید سے جاکر ملاقات نہیں کی تھی بلکہ وہ خود ان کے جلسہ گاہ میں آئے تھے ۔ بہرحال بات کابتنگڑ کیسے بنایا جاتا ہے اور ایک فروعی بات کو کس طرح اچھالا جاتا ہے ،ویدک اور حافظ سعید صاحب کی ملاقات کی وجہ سے بھارت میں اٹھنے والے طوفان سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ نیز یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بھارتی میڈیا کس حد تک معاملات کو سلجھانے کے بجائے الجھانے کا کام کرتا ہے۔