"IGC" (space) message & send to 7575

بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی نئی لہر

بھارت میں فرقہ وارانہ منافرت نئی بات نہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آزادی کے بعد اب تک پچاس ہزار سے زائد فسادات ہو چکے ہیں۔ 2002 ء کے گجرات فسادات کو چھوڑ کر 1992ء کی بابری مسجد کی شہادت کے بعد یہ سلسلہ کسی حد تک تھم گیا تھا، مگر کچھ عرصے سے اس میں پھر شدت آ گئی ہے۔ حالیہ عام انتخابات سے پہلے کے ڈیڑھ برسوں میں بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں ہی ایک سو سے زیادہ فسادات ہوئے تھے۔ ستمبر میں مظفر نگر اور شمالی اضلاع میں رونما ہونے والے مسلم کش فسادات کی ہولناکی نے تو پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ انتخابات کے وقت ووٹروں کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے میں ان فسادات نے بھرپور کردار ادا کیا۔ یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے ان واقعات کو ملک کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے انہیں دس سال تک روکنے کی اپیل کی‘ لیکن دوسری جانب ان کی پارٹی مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے اور ماحول کو مکدر بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔
کنڑ زبان کے ممتاز ادیب یو آر اننت مورتی نے انتخابات سے پہلے ملک کے عوام کو خبردار کیا تھا کہ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں ملک میں فرقہ وارانہ تشدد اور کشیدگی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد اتر پردیش میں فرقہ وارانہ تشدد کے600 سے زائد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ جب حزب اختلاف نے اس سنگین مسئلے پر پارلیمنٹ میں بحث کرانے کا مطالبہ کیا تو حکمران بی جے پی نے اپنے ایک سخت گیر لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ کو بحث کا آغازکرنے کے لئے نامزد کیا‘ جنہوں نے اپنی تقریر سے ماحول کو مزید کشیدہ کر دیا۔ تجزیہ کار حیران ہیں کہ مودی جان بوجھ
کر ایک طرف فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف بیانات داغتے ہیں اور دوسری طرف پارٹی کے سخت گیر لیڈروں کو کھلی چھوٹ دے کر حالات خراب بھی کرتے ہیں۔ بھارت میں غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے دعوت افطار کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ افطار کی دعوت دینے کا ایک مقصد مسلم ملکوں کے بھارت سے خوشگوار تعلقات کا اعادہ بھی ہوتا ہے۔ اس دعوت میں مسلم ملکوں کے سفیروں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اٹل بہاری واجپائی نے بھی اس روایت پر بطور خاص عمل کیا تھا۔ بعض مبصرین اس سے یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ مودی نے اپنا ایک ''سخت گیر ہندو قوم پرست‘‘ ہونے کا جو امیج بنایا ہے وہ اس کے تحت ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتے جس سے ان کے انتہاپسند ہندو حامی ناراض ہو جائیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دہلی کے مہاراشٹر ہائوس میں ایک مسلم روزہ دار کا زبردستی روزہ تڑوانے کا سنگین معاملہ پیش آیا‘ جس میں شیوسینا کے ارکان پارلیمان ملوث تھے۔ اس پر بھی وزیر اعظم نے اپنا سکوت نہیں توڑا۔ وہ صدر جمہوریہ پرناب مکھرجی کی طرف سے دی گئی دعوت افطار میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ اس میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور اقلیتی امور کی وزیر ڈاکٹر نجمہ ہیبت اللہ کے سوا کوئی دوسرا وزیر نظر نہیں آیا۔ حکومت کی طرف سے بھی صرف نجمہ ہیبت اللہ اور بی جے پی کے لیڈر مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین نے دعوت افطار کا اہتمام کیا۔
ملک میں فرقہ پرستی کا جو ابال آیا ہے، ذمہ دار عہدوں پر فائز لوگ بھی اس کی وکالت کرنے لگے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک جج نے تو اس خواہش کا برملا اظہار کیا کہ اگر وہ مطلقِ العنان حکمران ہوتے تو بھارت کے تعلیمی نظام میں ابتدا ئی جماعت ہی سے گیتا اور مہابھارت کو نافذ کر دیتے۔ جو شخص انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر اس قدر متعصبانہ سوچ رکھتا ہو‘ وہ اپنے فیصلوں میں کس طرح غیر جانبدار رہ سکتا ہو گا؟ 
بھارت میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی اور پاکستان کے خلاف نفرت کا اصل سرچشمہ نصابی کتب اور تاریخ کی غیر نصابی کتابوں میں بھرا ہوا زہریلا مواد ہے۔ گجرات، کرناٹک، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، راجستھان اور دوسری ریاستوں کے نصاب میں فرقہ وارانہ جذبات کو مشتعل کرنے والا ایسا مواد شامل کیا گیا ہے اور حقائق کو اس طرح مسخ کیا گیا ہے کہ کچے ذہنوں کا مسلم مخالف ہونا حیران کن بات نہیں۔ مثال کے طور پر گجرات میں آٹھویں جماعت کی تاریخ کے نصاب میں درج ہے کہ 1947ء کی تقسیم کے نتیجے میں ایک نیا مسلم ملک وجود میں آیا جس کا دارالحکومت خیبرگھاٹ، کوہ ہندوکش میں واقع ہے۔ ایک عجیب و غریب انکشاف یہ کیا گیا کہ دہلی کا قطب مینار ہندو بادشاہ سندرگپت نے بنوایا تھا اور اس کا اصل نام ویشنواستھمب ہے۔ اسی طرح ایک سوالنامے میں بچوں سے پوچھا گیا کہ کتنے پیروکاروں نے رام مندر کو آزاد کرانے کے لیے 1558ء سے لے کر 1914ء تک اپنی جانیں نچھاور کیں۔ اس کا جواب ہے 35000۔ دوسرے صوبوں میں بھی تاریخی کتابوں میں علاقائی شخصیات کی ''بہادری اور شجاعت‘‘ کو کچھ اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ اس سے ان کے ہمعصروں کی تذلیل ہوتی ہے۔ اسی طرح ہندوتوا خطوط پر کتابوں کو مرتب کیا گیا ہے‘ جس سے نئی نسل کے اذہان مسموم ہو رہے ہیں۔ کرناٹک میں سکولوں کی ایک نصابی کتاب میں ذبیحہ گائے کے حوالے سے ایک مضحکہ خیز واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اس میں ایک شیر عہد کرتا ہے کہ وہ آئندہ کبھی گائے کا گوشت نہیں کھائے گا۔ مشہور مورخ ڈی این جھا نے اپنی کتاب میں ہندو مقدس کتابوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ویدک دھرم میں گائے کا ذبیحہ ممنوع نہیں تھا۔ اس سے قطع نظر، آئینی طور پر ایک سیکولر ملک میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایک چھوٹے اور مخصوص طبقے کے غیر مُسلَّمہ جذبات کی خاطر کسی بھی مویشی کے ذبیحہ پر پابندی کس بنیاد پر لگائی جا سکتی ہے جس کی کوئی مذہبی بنیاد بھی نہیں ہے؟ 
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ملک میں ہندو قوم پرستوں کی مربی تنطیم آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ چھ ہزار سے زائد سکول سرکاری امداد پر چلتے ہیں‘ جن میں معصوم ذہنوں کو مسموم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں شیشو مندر ہیں جہاں نوجوان نسل کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔ ان کے نصاب پر حکومت کا کوئی اختیار اور نگرانی نہیں۔ کیا یہاں سے فارغ ہونے والے بچے متعصب ذہن نہیں رکھتے ہوں گے؟ یہی بچے آگے چل کر مختلف شعبوں میں جا کر تعصب پھیلاتے ہیں‘ جس کے مظاہر میڈیا میں بھی صاف نظر آتے ہیں۔ جب تک اس طرف خصوصی توجہ نہیں دی جاتی اور مناسب اقدامات نہیں کیے جاتے اس وقت تک ملک میں فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ سیاست ختم نہیں ہو گی اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا بے محل نہیں ہو گا کہ کانگریس پارٹی نے 2003ء میں شملہ میں اپنی چنتن بیٹھک میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ ملک سے فرقہ واریت کو ہوا دینے والا مواد ختم کرنے کے لئے کام کرے گی لیکن دس سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود وہ اپنے ہی کیے ہوئے فیصلے کو بھول گئی۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کو روکنا اور مفسدین کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔ بہار کے سابق وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اس تشویش ناک رجحان کی طرف توجہ دلائی کہ ملک میں مذہبی جلوسوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ ایسی یاترائیں نکالی جا رہی ہیں جن کا کوئی جواز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی جلوسوں میں ہاتھوں میں ہتھیار لے کر چلنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ اسی طرح کسی مذہبی جلوس کو کسی دوسرے مذہب کے خلاف پوسٹر لگانے یا پلے کارڈ لہرانے یا نعرے لگانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے‘ مگر جب تک اس بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کے اصل سرچشمے کا سدباب نہیں کیا جاتا، تب تک شاید ہی اس مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ جب تک نصابی کتب میں بھرے زہریلے مواد کی تطہیر کر کے صحیح تاریخ کو شامل نصاب نہیںکیا جاتا معصوم ذہنوں کو مسموم ہونے نہیں بچایا جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں