"IGC" (space) message & send to 7575

کشمیر : مودی حکومت کا پلان

پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کی نازبرداریوں اور مفاہمت کی پیشکش کے باوجود بھارت نے اسلام آباد میں خارجہ سیکرٹریوں کی 25 اگست کو ہونے والی ملاقات منسوخ کردی ہے جس سے مفاہمتی فضا کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اس اقدام سے اب دونوں سربراہان مملکت کی ستمبر میں نیویارک اور اس کے بعد نومبر میں سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پرکھٹمنڈو میں ملاقات کے امکانات کم ہوگئے ہیں ۔بھارتی حکومت نے جس بہانے سے یہ ملاقات منسوخ کی، اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اس کے ہاں کشمیر کے بارے میں کوئی پلان پک رہا ہے۔ پاکستان کے مخدوش سیاسی حالات کے بہانے سے بھی یہ ملاقات ملتوی کی جاسکتی تھی اور اگر پاکستانی سفیر اورکشمیرکے مزاحمتی قائدین کی ملاقات بھارتی سکیورٹی کے لئے اتنی خطرناک تھی توان رہنمائوں کو دہلی آنے سے بھی روکا جاسکتا تھا۔ ان میں سے دو لیڈر توگھر میں نظر بند تھے اور سکیورٹی اہلکاروں نے ہی انہیں سرینگر ایئرپورٹ پر پہنچا یا تاکہ وہ کشمیر میں کہیں اِدھر اُدھر جانے کے بجائے دہلی جانے والے جہاز پر ہی سوار ہوجائیں۔ لگتا ہے کہ ان مذاکرات کو منسوخ کرنے کا پلان تبھی بن گیا تھا جب 12 اگست کو وزیراعظم نریندر مودی نے جموں وکشمیر کے دوسرے دورے کے دوران لیہہ میں فوج اور فضائیہ کے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے مفاہمت کی باتیں کرنے کے بجائے پاکستان پر درپردہ جنگ چھیڑنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پڑوسی ملک روایتی جنگ کی صلاحیت کھو چکا ہے اور اب اس نے دہشت گردی کے سہارے بھارت کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس درپردہ جنگ کے نتیجے میں روایتی جنگ کے مقابلے میں زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں، اس لئے دہشت گردی کے خلاف متحد ہوکر لڑنے کی ضرورت ہے۔ مودی کا یہ بیان مفاہمتی ماحول سے میل نہیں کھاتا تھا۔ اس کے برعکس پاکستان میں نیشنل سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے برملا اعتراف کیا کہ دونوں ملکوںمیں''اچھے رشتے‘‘ پیدا نہیں ہورہے،اس پرانہوں نے افسوس کا بھی اظہارکیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ناموافق رشتوں کا سب سے زیادہ خمیازہ کشمیریوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا ماحول پیدا ہوتا ہے، سب سے زیادہ مایوسی کشمیریوں کو ہو تی ہے اور جب بھی دونوں ملک مسائل کو پر امن ذرائع سے حل کرنے میں سنجیدہ نظر آتے ہیں، کشمیریوں کو اْمید کی کرن دکھائی دینے لگتی ہے۔
بعض مبصرین نے کہا تھا کہ بی جے پی کی حکومت سابق یو پی اے سرکار کے برعکس مسئلہ کشمیر پرامن ذرائع سے حل کرنے اور خطے میں قیام امن کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کی پوزیشن میں ہے اوراس کے لئے اس کے پاس اعتماد کی بھی کمی نہیں ہوگی۔ شاید اس امید کی وجہ بی جے پی قیادت والی این ڈی اے سرکارکا وہ رول تھا جو اس حکومت نے اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں ادا کیا تھا۔ اْس دور حکومت میں کشمیرکے حوالے سے اعتماد سازی کے جتنے اقدامات کئے گئے،اس کی مثال ماضی میں یا اس کے بعدکبھی دیکھنے کونہیں ملی۔ صرف یہی نہیں، واجپائی نے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوارکرنے کے لئے ذاتی طور پر بھی کافی کوششیں کیں جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان ''جامع مذاکرات ‘‘ کا سلسلہ چل پڑا اور اس کے مثبت نتائج بھی دیکھنے کو ملے۔ کیونکہ مودی، وزیراعظم بننے سے پہلے کئی بارکہہ چکے تھے کہ وہ کشمیرکے حوالے سے واجپائی کے نقش قدم پر چلیں گے، اس لئے عوام کے ایک بڑے طبقے اور مبصرین نے نئی سرکارکے ساتھ کافی امیدیں وابستہ کرلی تھیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ گزشتہ اڑھائی ماہ کے دوران نئی مرکزی سرکار نے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جس سے یہ تاثر ملتا کہ یہ حکومت مسئلہ کشمیر کو پر امن ذرائع سے حل کرنے کے لئے کوشاں ہے؛ بلکہ اس کے برعکس بی جے پی کے لیڈروں کی جانب سے دفعہ 370کو ختم کرنے اور کشمیری پنڈت مہاجرین کے لئے الگ بستیاں بسانے سے متعلق بیانات نے ایک منفی تاثر پیداکردیا ہے۔
پاکستانی حکمرانوں اور افسروں کی کشمیری راہنمائوںکے ساتھ ملاقاتوںپر پابندی لگانے کے بعد بھارتی حکومت کی اگلی کوشش مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ مذاکرات کے عمل سے خارج کروانے کی ہوگی۔ افواہیں گشت کررہی ہیں کہ جس طرح 1973ء کے شملہ سمجھوتہ میں آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی نے اس مسئلے کی بین الا قوامی نوعیت کو بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ معاملے میں تبدیل کرواکے تاریخ میں اپنا نام درج کروایا تھا، اسی طرح اب نریندر مودی بھی اپنا نام امرکروانے کے لئے کشمیر کو پوری طرح بھارت میں ضم کروانا چاہتے ہیں۔ خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات کی منسوخی سے انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ اپنے واجپائی کی طرح سیاسی یا سفارتی رسک لینے کی سکت نہیں رکھتے اور اپنے سخت گیر امیج کے حصار میں مقید ہیں، نیز پارلیمان میں واضح اکثریت کے باوجود وہ کانگریس پارٹی سے اس قدر خائف ہیں کہ اس کے ایک دوسرے درجے کے لیڈر منش تیواری کے ٹویٹ نے انہیں پاکستان کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے پر مجبورکردیا۔
کشمیرکی بین الاقوامی حثیت کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ مودی کے دست راست اور حکمران بی جے پی کے صدر امیت شاہ آج کل اور پلان پر بھی کام کررہے ہیں۔ اس پلان کا کوڈ نام مشن 44 ہے اور اس کے تحت نومبر، دسمبر میں کشمیر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ہندو اکثریتی خطے جموں اور بدھ اکثریتی ضلع لیہہ کی تمام نشستوں پر بی جے پی کے امیدواروں کو کامیاب بنانا ہے۔ اس کے علاوہ وادی کشمیر کی ایسی نشستوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جہاں حریت کانفرنس کی بائیکاٹ کال کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ ان نشستوں پر جموں اور دہلی میں مقیم کشمیری پنڈتوںکے ووٹوں کی رجسٹریشن کا کام سرعت سے جاری ہے تاکہ ان کے پوسٹل بیلٹوں کے ذریعے ان علاقوں میں بھی بی جے پی کے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنائی جائے۔ امیت شاہ کی حکمت عملی کا مقصد ریاست میں مسلمان ووٹوںکو بے اثرکرناہے۔کشمیر اسمبلی کی 86 نشستیں ہیں جن میں سے 37جموں، 45 وادی کشمیر اور4 لداخ خطے سے ہیں۔ بی جے پی جموں،کھٹوعہ یعنی خالص ہندو پٹی کی سبھی 17 نشستوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ 2008ء میں اس نے11 نشستیں حاصل کی تھیں۔ اسی طرح کے پلان کے تحت حالیہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے ریاست اتر پردیش اور بہارکی سبھی مسلم نشستوں پرکامیابی حاصل کی ہے۔ آر ایس ایس کا خیال ہے کہ اس طرح بی جے پی متنازع خطے کی اسمبلی میں بڑی پارٹی کے
طورپر ابھر سکتی ہے اور بعد میں ہم خیال ارکان اورکانگریس کے ہندوارکان کی مدد سے بھارتی آئین کی دفعہ 370کو ختم یا اس میں ترمیم کروائی جا سکتی ہے۔ 1954ء اور1960ء میںکشمیر اسمبلی نے اس شق میں ترمیم کی سفارش کی تھی جس کے بعد بھارتی صدر نے ایک حکم نامے کے ذریعے بھارتی سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور دوسرے اداروں کادائرہ کشمیر تک بڑھادیاتھا اور ریاست کے صدراور وزیر اعظم کے عہدوںکے نام تبدیل کرکے بالترتیب وزیراعلیٰ اورگورنرکر کے انہیں دوسرے بھارتی صوبوں کے مساوی بنادیاتھا۔اب مذکورہ آئینی شق میں مزید ترمیم یا اسے حذف کرنے سے مسئلہ کشمیر مزید پیچیدگیوں کا شکار ہوجائے گا۔ دفعہ 370 میں پہلی دو ترامیم ایسے وقت میں کی گئیں جب اسمبلی میں کانگریس پارٹی کی اکثریت تھی اور وہ دہلی میں بھی برسر اقتدار تھی۔ ان حقائق کی روشنی میں پاکستان اورکشمیری لیڈروںکوواضح موقف اختیارکرنا چاہئے تاکہ یہ مسئلہ مزید پیچیدگیوں کا شکار نہ ہوجائے۔ 
پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے مودی حکومت نے اپنے آپ کوایک ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے جہاں اس کے پاس آپشن انتہائی محدود ہیں۔ پاکستان کے نزدیک کشمیری بھی قانونی فریق ہیں اورکشمیریوں کے ساتھ بات چیت کا عمل آئندہ بھی جاری رہے گا۔ اس صورت حال میں بات چیت کی بحالی تقریباً ناممکن نظر آرہی ہے کیونکہ جہاں نئی دہلی کے لئے سخت گیر موقف سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں وہاں پاکستان کے لئے کشمیرکے حوالے سے اختیارکردہ موقف سے پیچھے ہٹنا سیاسی اور سفارتی خودکشی سے تعبیر ہوگا۔ تعطل اور جمود کی یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ جب برصغیرکی ان دو جوہری طاقتوں کے درمیان کوئی رابطہ ہی نہ ہوگا تو اس کے نتیجے میں ماحول مزید کشیدہ بن جائے گااور وہ کشیدگی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں