"IGC" (space) message & send to 7575

کشمیر کا سیلاب

بہشت ارضی وادی کشمیر اس وقت ویران بستیوں، انسانی جانوں کے اتلاف کی اندوہناک کہا نیوں،تباہ شدہ املاک کی خستہ حالیوں اور مصائب کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔کیا عوام، کیا خواص، قدرت کے قہر نے سب کو اپنی لپیٹ میںلے لیا۔ یہ قدرت کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے، کہ ایک نامور صنعت کار، جو عام حالات میں ناک پر مکھی نہیںبیٹھنے دیتا، سرینگر کے ایک ریلیف کیمپ میںپلیٹ ہاتھو ں میں لیے کھانا حاصل کرنے کے لیے دیگر لوگوں کے ساتھ قطار میں اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ایک سینئر پولیس افسر اپنے مکان کی تیسری منزل سے فوجی ہیلی کاپٹروں اور بچائو دستوں کو اشاروں سے اپنے اہل خانہ کی مدد کے لیے پکار رہا تھا۔پانی عالیشان مکان کی تیسری منزل میں داخل ہو چکا تھا۔ ایک ہفتہ کے بعد جب مقامی نوجوان رضاکار دستے اس مکان میں داخل ہوئے، تو اعلیٰ پولیس افسر اور اس کی بیٹیاں نیم مردہ حالت میں پائے گئے۔بھارت کے سرکاری ٹی وی دور درشن کے ایک سابق ہائی پروفائیل ڈائریکٹر مکان کی چھت سے دہائی دے رہے تھے۔7 ستمبر کو مواصلاتی رابطہ منقطع ہونے سے قبل ان کا آخری دردمندانہ میسج بھارتی وزیراعظم کے نام تھا، جو وادی کا ہوائی سروے کررہے تھے۔ موصوف کا گھر سرینگر میں بھارتی فوجی چھائونی یعنی15 کور کے ہیڈ کوارٹر کے متصل ہے۔
ستمبر کے اوائل میں ہی میں خطہ پیر پنچال اور جموں میں قدرت کا قہر سیلاب بن کر ٹوٹا۔ بالخصوص راجوری میں شادی کی ایک بارات سیلاب کی نذرہو گئی ، مگر افسوس کہ بجائے اس کے کہ حکام خطرے کی اس گھنٹی کو سنتے اور حالات کا مقابلہ کر نے کے لئے ہنگامی نوعیت کی حکمت عملیاں برو قت وضع کر تے ، انہوں نے عوام کے نام کوئی انتباہ بھی جاری نہ کیا۔ جموں میں توی اور چناب دریائوں میںسیلابی لہروں کاغصہ اگرچہ ابتدا میں اپنے جوبن پر رہا ، تاہم سیلاب پر بہت جلد قابوپا لیا گیا۔ بد قسمتی سے کشمیر میںچونکہ حفظِ ما تقدم کے طورپر کسی دفاعی کارروائی کا کوئی نشان نہ تھا، اس لئے جہلم ، سندھ، وودھ گنگا نے اپنے انتقام کی پیاس بجھانے کے لئے سیلاب کی تباہ کاریاں بلاروک ٹوک شد ومد سے جاری رکھیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ انتظامی سطح پر متعلقہ حکام خوابِ خرگوش میںمگن رہے ۔سیلاب کی منہ زور لہروں نے جنوبی کشمیر میں تباہی کے بعد ،سری نگرکے دروازے پر دستک دی تو اول حکام منظر عام سے نابود ہوئے ، پھر جب طغیانی نے فیشن ایبل علاقوں راج باغ،جواہر نگر، اندرا نگر ، شیو پورہ، اسمبلی ، ہائی کورٹ حتیٰ کی سیکرٹریٹ اور وزیروں کی کوٹھیوں کواپنی لپیٹ میں لینے کے بعد دیگر بستیوں ،شمالی کشمیر کے مختلف قصبوں اور دیہات پر قہر برپا کیا تو سب کی آنکھیں کھلیں۔
ماضی میں سری نگر کو تاریخ کے دو بدترین سیلابوں نے 1841ء اور1893ء میں تاخت وتاراج کیا ۔ اس وقت کی ڈوگرہ حکومت نے خطرات کو بھانپ کر شہر سرینگر کوسیلابوںسے بچانے کے لئے بند اور فلڈ چینل تعمیر کروائے ۔پرانے شہر کے وسط میں نالہ مار نقل و حمل کا اہم ذریعہ تھا۔آبی چینلوں کے وسیع جال کی وجہ سے ہی سرینگر کو مشرق کا وینس کہا جاتا تھا،مگر یہ وینس اب کنکریٹ اور غیر متوازن پلاننگ کی علامت بن چکا ہے۔ 1977ء میں عوامی وزیر اعلیٰ مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے اقتدار میں آتے ہی نالہ مار کو پاٹ کر دو رویہ سڑک بنائی، تاکہ سیکرٹریٹ سے حضرت بل اور ان کے آبائی علاقہ صورہ تک جانے کی صورت میں انہیں پیچ در پیچ راستوں سے گزرنا نہ پڑے۔شہ پاکر ان کی پارٹی اور دیگر افراد نے بھی سیاسی اثرورسوخ کی بنیاد پر ، کہیں رشوتوں اور سفارشوں کے بل پر اور کہیں قوت بازو کے زور پر قبضہ جماکر ان آبی ذخائر اور چینلوں پر فلک بوس کنکریٹ عمارات کھڑی کیں۔ اس فطری جغرافیہ سے چھیڑ خوانی کانتیجہ یہی ہے کہ جنوبی کشمیر میں سیلابی ریلے نے قیامتیں ڈھا کر جب سری نگر کی جانب رْخ کیا تو چشم زدن میں تمام تجاوزات کو پھلانگ کر موت کا سامان بناکر رکھ دیا۔
اس آفت کی ایک خاص بات یہ تھی کی انتظامیہ کے مفلوج ہونے اور مدد سے مایوس ہونے کے بعد جس طرح کشمیری قوم نے اجتماعی زندگی کا ثبوت پیش کیا، وہ تاریخ سنہری الفاظ میں رقم کرے گی۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے خود اس بات کااعتراف کیا کہ 36گھنٹوں تک انتظامیہ اور حکومت کا نام و نشان کہیں پر بھی نہیں تھا۔ وزراء اورا فسران بالا کو اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے اور عوام کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیاتھا۔دوسر ی طرف جب بھارتی فوج مدد کے لیے وارد ہوئی ، تو بھارتی میڈیا نے اس کو کشمیریوں پر ایک طرح سے
احسان کے طور پر پیش کیا۔ مگر اس نازک موقع پر عوام اور خصوصاً نوجوانوں نے جس حاضر دماغی اور جرأت کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔6اور7 ستمبر کی درمیانی رات جب جہلم نے آپے سے باہر ہونا شروع کردیا اور لوگوں میں سراسیمگی پھیل گئی تو اس وقت جن علاقوں میں طغیانی کا خطرہ نہ تھا ، وہاں لوگوں نے راحت اور بچائو کے کام شروع کردئے۔پرانے شہر میں لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے کھول کر متاثرہ لوگوں کو سر چھپانے کے لیے جگہ فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اندر واری اور نائد کدل میں صبح لوگوں کی نیند مساجد میں لاوڈ سپیکروں کے اعلانوں سے ٹوٹی۔ لوگوں کو ہدایت دی گئی کہ فوری طور اپنے گھروں میں فلاسکوں میں چائے لاکر متاثرین کی تواضع کریں اور لوگوں نے اپنے کنبوں سے قبل سیلاب زدگان کو ناشتہ کروایا۔ محمد شفیع شا ہ ساکن نائد کدل نے کہا کہ متاثرین کو چائے پلاتے ہی ہم سمجھ گئے کہ آنے والے دن سیلاب سے بچے ہوئے علاقہ کے لوگوں کے لیے اصل امتحان کے ہوں گے اور ہم نے فوری طور ایک کمیٹی تشکیل دے کر متاثرین کے لیے کھانے پینے اورادویات اکا نتظام کرنا شروع کر دیا۔ ہر گھر نے چندہ دیا اور اجتماعی لنگر شروع کیے گئے۔ شہر خاص کے تمام مرکزی و اندرونی علاقوں میں لنگر قائم کئے گئے اور متاثرین کو سکولوں ، درسگاہوں ، کالجوں اور کمیونٹی ہالوں میں ٹھہرایا گیا۔ زیارت مخدوم صاحب ،اسلامیہ کالج حول ، اسلامیہ سکول راجوری کدل ، کشمیر یونیورسٹی اور انجینئرنگ کالج میں سب سے بڑے ریلیف کیمپ قائم کیے گئے،
جہاں ہزاروں نفوس ٹھہرے ہوئے تھے۔مقامی درسگاہوں اور بیت المالوں نے بھی ریلیف کیمپوں کا اہتمام کرنا شروع کردیا۔ ان ریلیف کیمپوں کو راشن بہم پہنچانا سب سے بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہا تھا کیونکہ دکانداروں کے پاس غلہ کا ذخیرہ ہی ختم ہونے کو تھا۔ تاہم اس موقع پر گاندربل، بانڈی پورہ اور دیگر اضلاع کے لوگوں نے ان ریلیف کیمپوں کو چاول ، سبزیاں فراہم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ گاندربل کے ایک رضاکار بلال احمد کے مطابق یہ سیلاب ایک قومی مصیبت ہے جس نے کشمیر کو آ گھیرا ہے اور اس میں ہر ضلع کے لوگوں کوسامنے آکر متاثرین کی مدد کرنا چا ہیے۔دن بھر ٹرک ، لوڈ کیرئر اور ٹریکٹر ان کیمپوں میں کمک پہنچانے کا کام جاری رکھتے ااور مقامی رضاکار دن رات مہمان نوازی کا حق ادا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔سیلاب کا پانی کئی علاقوں سے اتر چکا ہے اور کئی لوگ اپنے گھروں کو لوٹ گئے ہیں تاہم اب بھی کئی ریلیف کیمپو ں میں رکے ہوئے ہیں جہاں ان کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا انتظام مقامی لوگ بخوبی کر رہے ہیں۔ادھر شمالی کشمیر کے اوڑی علاقہ سے خبریں ہیں کہ لوگوں کو خدشہ ہے کہ سیلاب سے بہہ جانے والا فوجی اسلحہ کہیں ان کے لیے وبال جان نہ بن جائے۔ آبی ریلے کئی فوجی عمارات کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئے، جس کے ساتھ بڑی تعداد میں گولہ بارود، ہتھیاربھی بہہ گئے ہیں۔ایک اور خطرہ لائن آف کنٹرول کے پاس موجود بارودی سرنگوں کا بھی ہے،خدشہ ہے کہ یہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر زرعی اراضی اور رہائشی علاقوں میں چلی گئی ہوںگی۔بھارت اور پاکستان پر لازم ہے کہ ماہرین کے ذریعہ ان سرنگوں اور اسلحہ کو ڈھونڈ نکالنے کا کام فی الفور شروع کریںتاکہ ان علاقوں میں زندگی ایک بار بھر معمول پر آجائے اور کسی بڑے حادثہ سے بچا جاسکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں