"IGC" (space) message & send to 7575

پھیکا پڑ رہا ہے مودی کا جادو

چار ماہ قبل پارلیمانی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد اقتصادی لحاظ سے دو اہم صوبوں مہاراشٹر اور دہلی سے متصل ہریانہ میں 15 اکتوبر کو ہونے والے اسمبلی انتخابات،وزیراعظم نریندر مودی کی مقبولیت کے لیے کڑا امتحان ہوں گے۔دونوں صوبوں میں حکمران بی جے پی اپنے دم خم پر میدان میں ہے۔ مغربی صوبہ مہاراشٹر میں تو پارٹی نے ایک اور ہندو قوم پرست پارٹی شیو سینا کے ساتھ 25سالہ پرانی رفاقت توڑ دی۔اس صوبہ میں جہاں بھارت کا اقتصادی مرکزممبئی واقع ہے، کانگریس بھی بغیر کسی سیکولر اتحاد کے میدان میں ہے۔ ہریانہ میں بھی کم وبیش یہی صورت حال ہے۔کچھ عرصہ قبل دونوں صوبوں میں بی جے پی کیلئے کرسی تک پہنچنے کا راستہ آسان نظر آرہا تھا، مگر پچھلے 100دنوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں کرائے گئے ضمنی انتخابات میں جس طرح حکمران جماعت کو پے در پے کراری ہار کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس سے لگتا ہے کہ مودی کا جادو اب اثر کھوتا جارہا ہے۔ 
عام انتخابات کے فوری بعد پہلے مرحلہ میں جنوبی ہمالیائی صوبہ اتر اکھنڈ کی تین اسمبلی نشستوں کے ضمنی انتخاب میں بی جے پی کے امیدواروں کو زک اٹھانی پڑی تھی۔ ان میں سے دو نشستیں ریاست کے دو سابق وزرائے اعلیٰ نے لوک سبھا کے لیے منتخب ہونے کے بعد خالی کی تھیں ۔ اس کے بعد بہار اور کرناٹک کے ضمنی انتخابی نتائج آئے جس میں اسے بلاری ایسی محفوظ نشست سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ بہار میں بی جے پی دس میں محض چارسیٹ پر کامیابی حاصل کرسکی ۔ یہ تمام نشستیں اس کے قبضہ میں تھیں۔ اب یوپی ، گجرات اور راجستھان میں پارٹی کو شرمناک شکست نے مودی کے اعتماد کو یقینا متزلزل کیا ہوگا۔ کیونکہ یہ تینوں صوبے
بی جے پی کے ناقابل تسخیر قلعے کے طور پر ابھر ے تھے۔ جہاں کی تمام کی تمام اسمبلی نشستوں پر بی جے پی قابض تھی۔ جن 33اسمبلی نشستوں اور تین پارلیمانی نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہوئے اس میںسے بی جے پی کو 12 اسمبلی اور ایک پارلیمانی نشست پر کامیابی ملی جبکہ اسے13 نشستوں کا خسارہ اٹھانا پڑا۔ مگر دوسری طرف مغربی بنگال کی بشیر ہاٹ سیٹ پر جہاں 63فی صد مسلم آبادی ہے ، بی جے پی کو کامیابی ملی اس طرح 15سال بعد اسے صوبائی اسمبلی میں داخل ہونے کا موقع ملا۔ 
ملک کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش میں بی جے پی نے بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ جنون کو ہوا دینے کی کوشش کی۔ مگر اس کے باوجود پارٹی کو انتہائی ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ یہاں تک کہ بنارس کے جس حلقہ سے مودی نے ' زبردست فرق سے کامیابی حاصل کی تھی اس کی ایک اسمبلی نشست روہنیہ پر بھی اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ علاوہ ازیں ریاست کے پسماندہ بندھیل کھنڈ علاقہ میں واقع مرکزی وزیر اوما بھارتی کی چارکھڑی اسمبلی نشست بھی پارٹی کے ہاتھوں سے نکل گئی ۔سیکولر سماج وادی پارٹی نے 11میں آٹھ نشستیں حاصل کیں جو بی جے پی کے ارکان اسمبلی کے ایوان زیریں کے منتخب ہونے کی وجہ سے خالی ہوئی تھیں ۔ یہ شکست اس لئے بھی اہم ہے کہ ریاست میں بی جے پی کا راست مقابلہ حکمران جماعت سے تھا کیونکہ دلتوں کی سیاسی تنظیم بہوجن سماج وادی پارٹی نے اس میں حصہ نہیں لیا تھا۔ کانگریس کا
وجود یہاں برائے نام تھا۔ نیزان میں بیشتر نشستیں مغربی اترپردیش میں واقع ہیں جہاں گزشتہ سال فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے۔ ان سب عوامل کے باو صف جس بڑے فرق سے ایس پی کے امیدوار کامیاب ہوئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ناقص انتخابی نظام کی بدولت بی جے پی نے شمالی بھارت میں سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا بڑی منصوبہ بندی اور منظم انداز میں فائدہ اٹھایا تھا؛ تاہم اہم نکتہ یہ ہے کہ اب عام ہندو بھی شاید بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست سے عاجز اور اکتا چکا ہے ۔ضمنی انتخابات سے قبل پارٹی نے اپنے لیڈروں کو مسلمانوں کے خلاف جو چاہیے بولنے کا کھلا لائسنس دیا ہو ا تھا۔ممبر پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے دینی مدرسوں کو ' دہشت گردی کے مراکز‘ قراردیا تو دوسرے ممبر یوگی ادیا ناتھ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ایک ہندو لڑکی کو شادی کرکے مسلمان بنایا گیاتو بدلے میں سو مسلم لڑکیوں کو ہندو بنایا جائے گا۔ وہیں انسانوں سے زیادہ جانو روں سے' پریم‘ کرنے والی مرکزی وزیر مانیکا گاندھی کا فرمان تھا کہ گوشت کی برآمد ہونے والی آمدنی کا استعمال ' دہشت گردی ‘میں ہورہا ہے ۔ (گوشت کا کاروبار کرنے والے مسلمانوں کی طرف اشارہ ہے)
وزیر اعلیٰ اکھلیش سنگھ یادو نے بجا طور پر کہا کہ اترپردیش کے عوام نے فرقہ پرست طاقتوں کو مسترد کردیا ۔ لیکن اس کامیابی میں مسلم رائے دہندگان کا بھی اہم رول ہے ان میں سے بیشتر نشستوں پر مسلم ووٹ عددی اعتبار سے سب سے زیادہ تھے بطور مثال بلہا نشست جو مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود شیڈول کاسٹ کے لئے محفوظ کردی گئی ہے ۔ اس میں مسلم ووٹ کا تناسب31فی صد اور دلتوں کا تناسب محض 18 فی صد ہے۔ بی جے پی کو صر ف لکھنو ، نوئیڈا اور سہارنپور کی شہری نشستوں پر کامیابی ملی جہاں اوسطاً 34 فی صد پولنگ ہوئی ۔ پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے بعد بی جے پی کو یہ گمان ہوگیاتھا کہ اس کا فرقہ وارانہ صف بندی کا حربہ کارگر ثابت ہورہا ہے اس لئے کہ ریاست سے پہلی مرتبہ کوئی بھی مسلمان لوک سبھا میں نہیں پہنچ سکاتھا۔ جہاں سے عموما سب سے زیادہ مسلمان ملک کے سب سے بڑے قانون ساز ایوان میں پہنچتے ہیں۔ گجرات اور راجستھان کے نتائج یو پی سے بھی زیادہ حیران کن تھے ۔ ان دونوں ریاستوں میں تمام پارلیمانی نشستوں پر مئی کے انتخابات میں بی جے پی کو کامیابی ملی تھی۔ گجرات کی نو اسمبلی اور ایک پارلیمانی نشستوں میں سے تین پر کانگریس کو فتح حاصل ہوئی ۔ ان میں دو نشستیں بی جے پی کا گڑھ تصور کی جاتی ہیں ۔اسی طرح بڑودہ کی پارلیمانی نشست پارٹی برقرار رکھنے میں کامیاب تو ہوئی لیکن معمولی فرق کے ساتھ ۔ راجستھان کی چار اسمبلی نشستوں میں تین پر کانگریس کی کامیابی نے اس کے حوصلے بلند کردیئے ہیں ۔ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب بھی کافی نیچے آگیا ۔ ایک سیاسی تجزیہ کار نے کہا کہ گزشتہ دو ماہ سے آر ایس ایس اور بی جے پی کی جاری مہم کا مقصد صرف انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ اس کے نظریہ کے مطابق ہندو ذہن کی تعمیر ہے جس کے تحت وہ مسلمان کو' غیر‘ سمجھے۔ یہ بی جے پی کے وسیع تر منصوبہ کا حصہ ہے کہ ملک کے تکثیری معاشرہ کو اس طرح منقسم کردیا جائے کہ سیکولرزم اور مذہبی رواداری کو شدید نقصان پہنچے ۔ 'لو جہاد‘ کا نعرہ اسی حکمت عملی کا ایک جز ہے۔ بی جے پی کے سربراہ امیت شاہ اور اس کے حواریوں کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ مظفر نگر کے فسادات کے ذریعہ انہوں نے فرقہ وارانہ نفرت کا جو ماحول تیار کیا ہے وہ ضمنی انتخابات میں بھی کام آئے گا ۔ ریاست میں بی جے پی کے مرکز میں بر سر اقتدار آنے کے بعد سے 600فسادات ہوئے۔ زیادہ تر فسادات ان مقامات پر ہوئے جہاں یہ اسمبلی حلقے واقع ہیں۔ 
عام انتخابات میں غیر متوقع کامیابی کے بعد بی جے پی اور میڈیا نے علاقائی جماعتوں ، ذات پات کی سیاست یا سماجی انصاف کی سیاست اور کانگریس کا مرثیہ لکھنا شروع کردیاتھا ۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ پارلیمانی انتخابات سے قبل لوگوں میں من موہن سنگھ والی یو پی اے حکومت کے خلاف غصہ تھا۔ پھر مودی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ معیشت میں کوئی انقلاب لائیں گے، مگر اب انقلاب تو دور،کسی طرح کی تبدیلی کے آثار بھی نظر نہیں آرہے ۔ عام آدمی کو ابھی تک کوئی راحت نہیں ملی جس کی کمر روز افزوں مہنگائی سے ٹوٹ گئی ہے ۔ یہ نتائج آنے والے کل کا واضح اشارا ہیں اور اس کا اثر وسط اکتوبر میں مہاراشٹر اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات پر بھی پڑ سکتا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں