"IGC" (space) message & send to 7575

کشمیر الیکشن: ڈوگرہ راج کی واپسی؟

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں صوبائی انتخابات کا بگل بج چکا ۔پانچ مرحلوں پر محیط انتخابی عمل25نومبر کو شروع ہوکر20دسمبر کو ختم ہوگا اور 23 دسمبر کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔موجودہ انتخابات اس لحاظ سے خاصی اہمیت کے حامل ہیں کہ بھارت میں حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی خم ٹھونک کر میدان میں ہے اور اس نے نہ صرف جموں کے ہندو خطے میں ایک لہر پیدا کی ہے ، بلکہ ایک خاص حکمت عملی کے تحت اس خطے کے مسلم اکثریتی علاقوں (پیر پنجال اور چناب ویلی) ، لداخ حتیٰ کہ وادی کشمیر کو بھی فتح کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے ۔ بی جے پی بھارتی آئین کی دفعہ 370 میں کشمیر کو دی گئی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے ، کامن سول کوڈ کے نفاذ اور 1947ء میں پاکستان سے آئے ہندو شرنارتھیوں کو ریاست کے شہری حقوق دئے جانے جیسے معاملات کو اپنے منشور کا حصہ بنا کرا پنے اصل عزائم کا کھل کر اظہار کر رہی ہے ،ایسے میں کشمیر میں اور خاص طور پر آزادی پسند طبقہ گومگو کی صورت حال سے دوچار ہے۔ ماضی میں حریت لیڈران الیکشن کے بائیکاٹ کی کال دے کر ایک طرف ہوجاتے تھے۔کیونکہ ان کیلئے سرینگرمیں نیشنل کانفرنس یا اس کی حریف پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کا اقتدار میں ہونا برابر تھا۔ دوسری طرف بھارت کی وزارت خارجہ پوری دنیا میں ان انتخابات میں کشمیریوں کی شمولیت کورائے شماری کا نعم البدل قرار دیتی ۔اس لیے ان انتخابات کی عوامی حیثیت پر سوالیہ نشان لگانے کیلئے آزادی پسند جماعتیں بائیکاٹ کا راستہ اپنانے پر مجبور ہو جاتی تھیں۔
جموں کشمیر میں یوں تو کانگریس پارٹی بھی ہندو اکثریتی علاقوں تک ہی محدود رہی ہے، مگر دہلی میں چونکہ یہ جماعت سیکولرازم کا لبادہ پہنے ہوئے ہے اس لئے کشمیر میں اس کی اقتدار میں شرکت کسی حد تک عدم تحفظ کا احساس پیدا نہیں کرتی تھی۔ریاستی اسمبلی کی 87نشستوں میں 37جموں ، 46وادی کشمیر اور 4سیٹیں لداخ کی نمائندگی کرتی ہیں۔جموں کی 37سیٹوں میں 15نشستیں اس خطے کی مسلم بیلٹ پیر پنچال (پونچھ، راجوری)، وادی چناب (ڈودہ، بھدرواہ، کشتواڑ) میں ہیں۔ ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی مدد سے بی جے پی کے سربراہ امیت شاہ نے ایسی حکمت عملی ترتیب دی ہے ، جس پر عمل سے ہندو علاقوں کی سبھی 21نشستوں پر قابض ہونے کے ساتھ ساتھ، مسلم علاقوں میں ہندو ووٹوں کو یکجا کرکے مسلم ووٹوں کو مختلف پارٹیوں اور آزاد امیدوارں کی فوج میں بانٹ کر بے وزن کیا جاسکے گا۔اس طرح بی جے پی کو امید ہے کہ اس خطے میں وہ کم سے کم 28نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے لے گی ۔باقی اس کی امیدیںبودھ اکثریتی لیہ ضلع کی دو نشستوں اور کشمیر میں یک نفری تنظیموں پیپلز کانفرنس کے سجاد لون، غلام حسن میر، حکیم یٰسین ایسے افراد پر ٹکی ہوئی ہیں، جن کی مدد سے وہ شاید پہلی بار مسلم اکثریتی جموں کشمیر پر حکومت کرنے کا خواب پورا کرسکے۔بی جے پی ایک طرف کشمیر میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے، لائن آف کنٹرول کو کھولنے اور مسئلہ کشمیر کے حتمی حل میں پیش رفت کے زبانی وعدوں پر ووٹروں کو رجھا رہی ہے، تو دوسری طرف جموں میںووٹروںسے ،ڈوگرہ راج کی واپسی کی علامت کے طورپر چیف منسٹر کے منصب پر جموں کے ایک ہندو کو فائز کرنے کا وعدہ کرکے ،ہندو ووٹروں کو اپنے حق میں پکا کررہی ہے۔اس خطے میں نام نہاد سیکولر کانگریس کا یہ حال ہے، کہ یا تو اس کے بیشتر لیڈر بی جے پی میں چلے گئے ہیں یا پس پردہ بی جے پی کیلئے میدان ہموار کررہے ہیں۔
پی ڈی پی کی ، جو بی جے پی کے مد مقابل کے بطور ابھر رہی ہے، کامیابی کا انحصار صرف اسی پر ہے کہ وہ مسلم ووٹوں کی تقسیم روکے اور کسی ایک مضبوط امیدوار کے حق میں انہیں جمع کرے۔پی ڈی پی کو اس کے گڑھ جنوبی کشمیر میں بھی ایک طرح کے چیلنج کا سامنا ہے۔کیونکہ اس علاقہ میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے فوراًبعد انتخابات کے انعقاد پر عوام میں شدید غصہ ہے۔ریاست میں برسراقتدارعمرعبداللہ کی نیشنل کانفرنس پہلے ہی ہار مان چکی ہیں ۔اس کے لیڈران خاصے بد دل ہیں اور کئی مقامات پر غیظ و غضب کا نشانہ بن چکے ہیں۔ان کے لئے 2008 ء سے لے کر 2014 ء تک ہوئی ہلاکتوں بالخصوص افضل گروکی پھانسی کے سلسلے میں جواب دینا مشکل ہورہا ہے۔
جموں کے مسلم علاقوں کے حالیہ دورہ کے دوران راقم الحروف نے دیکھا کہ ہریانہ‘ پنجاب‘ راجستھان حتیٰ کے گجرات سے آر ایس ایس کے کارکنان سینکڑوں کی تعداد میں وارد ہوچکے ہیں اور خو د کو ووٹر گائیڈ کہتے ہیں۔ راجور ی‘ کشتواڑ‘ بھدرواہ میں پچھلے دو ماہ کے دوران فرقہ جاتی منافرت کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے۔آر ایس ایس کے مقتدر رہنما اندریش کمار اس خطے میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں‘ جن سے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کیس کے سلسلے میں پوچھ گچھ ہوچکی ہے۔آر ایس ایس کے ان لیڈروں کا خیال ہے کہ کشمیر میں قوم پرست طاقتوں کو اسمبلی میں بھیجنے کا یہ ایک نادر موقع ہے ۔ اندریش کمار کے قریبی ذرائع نے راقم کو بتایا کہ اسمبلی میں اگر یہ قوتیں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیںتووہ بھارتی صدر کو سفارش کرکے دفعہ 370 کی ذیلی شقوں میں ترامیم کراسکتی ہیں۔ دفعہ 370میں گوکہ اب کچھ زیادہ بچا نہیں ہے ،لیکن یہ شق کشمیر کے
ریاستی شہریوں کے قانون (سٹیٹ سبجیکٹ )کو تحفظ فراہم کرتی ہے‘ جس کی رو سے ریاست کی شہریت کا تعین کیا جاتا ہے اور کوئی غیر ریاستی باشندہ صوبہ میں غیر منقولہ جائیداد کا مالک نہیں ہوسکتا ۔ لیکن اس طرح کے تحفظات کے باوجود ریاست میں پچھلے پچاس برسوں کے دوران مسلم آبادی کا تناسب 80فیصد سے گھٹ کر سابق مردم شماری کے مطابق 65 فیصد رہ گیا ہے۔اب اس قانون کی معطلی کے نتیجہ میں خدشہ ہے کہ اگلے دس برسوں میں مسلمان ریاست میں اقلیت میں آسکتے ہیں۔ اسی طرح ہندو قوم پرستوں کا مطالبہ ہے کہ ریاست میں نئی حدبندی کرکے جموں کی 37سیٹوں کو بڑھا کر وادیٔ کشمیر کے 46 سیٹوں کے برابر کیا جائے تاکہ کشمیر میں بالخصوص مسلمانوں کے اثر و نفوذ کو ختم کیا جاسکے۔ یوں بھی جموں کے اراکین اسمبلی کی زبردست مہم کے بعد منصوبہ بندی کے لئے مختص رقوم کا ساٹھ فیصد اب جموں خطے کو ملتا ہے۔جب کہ بقیہ چالیس فیصد وادی کشمیر اور لداخ کے حصے میں آتا ہے۔ حالانکہ وادی کی آبادی جموں کے مقابلے تقریباََ گیارہ لاکھ زیادہ ہے۔
آر ایس ایس کا خیال ہے کہ جس طرح 1954 ء اور 1965ء میں صدارتی ریفرنس کے تحت دفعہ 370میں ترامیم کرکے بھارتی پارلیمنٹ اور دیگر آئینی اداروں کو کشمیر میں مداخلت کرنے کا اختیار دیا گیا اور سکیورٹی قوانین کا دائرہ بھی بڑھا کر کشمیر تک وسیع کردیا گیا اسی طرح ایک اور ریفرنس کے ذریعہ دفعہ 370کی پوری روح کو ہی ختم کرکے بھارت میں ضم کیا جاسکتا ہے اور اس طرح کے میکانزم کی صورت میں قانونی پیچیدگیا ں بھی کم ہیں۔پی ڈی پی کے مفتی محمد سعید کے سابق دور حکومت میں جموں کے مسلم علاقوں کو وادی سے جوڑنے والے پروجیکٹ مغل روڈ (پونچھ ۔ شوپیان)اور سنٹتھن ٹاپ(ڈوڈہ۔اننت ناگ) کی ہندو قوم پرستوں نے کھل کر مخالفت کی اور یہ پروجیکٹ اب بھی مکمل ہونے کا منتظر ہے۔ایک منصوبہ بندی کے تحت گزشتہ ساٹھ برسو ں کے دوران ان پسماندہ علاقوں میں رہنے والے لاچار اور بے بس مسلمانوں کو جمو ں کے ساتھ نتھی کرکے ان کی شناخت ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن مغل روڈ اور سنتھن ٹاپ کے کھلنے سے ان کا تشخص کسی حد تک دوبارہ اجاگر ہوا ہے۔ 
بہر حال ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیریوں کی مسئلہ کشمیر پر گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ کشمیری قوم بھارت سے انصاف کی اپیلیں کر تی رہی تو1989ء تا 2013ء جتنے بھی وزرائے اعظم دلی میں برسر اقتدار آئے انہوں نے ہر بار کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے اور تنازع کشمیر کے منصفانہ اور انسانی بنیادوں پر حل نکالنے کی صرف باتیں کیں۔ نرسمہا رائو سے لے کرمنموہن سنگھ تک سبھی لیڈروں کے اعلانات اور وعدے صرف وعدہ ٔفردا تک ہی محدود رہے لیکن پھر بھی لوگوں کو اس بات کا کچھ نہ کچھ یقین تھا کہ دلی سرکار جلد یا بدیر کشمیریوں اور پاکستان کے علاوہ اپنے لئے بھی باعزت راہ داری کے لئے آمادہ ہوجائے گی اور پورے خطے میں امن کی فضا قائم ہو جائے گی۔ اس سارے اہتمام ِ شوق کے برعکس وزیراعظم مودی نے آتے ہی کچھ ایسا رویہ اختیار کیا کہ لوگوں کی خوش فہمیاں ہوا ہوگئیں ۔ موصوف نے ایسا لب ولہجہ اختیارکیاکہ تاریخ کو بھی اپنے صحیح ہونے پر شک ہونے لگا۔ بھارت کی موجودہ کشمیر پالیسی سے لگتا ہے کہ شاید قیامت کی صبح تک مسئلہ حل نہیںہوسکتا۔ اس طرزفکروعمل سے سب سے زیادہ نقصان کشمیریوں کا ہونا طے بات ہے۔ آزادی تو اب دور کی بات ڈوگرا راج کی واپسی ، بی جے پی کے وزیر اعلیٰ ہونے کے نتیجے میں کشمیر میں تو اب شناخت اور انفرادیت برقرار رکھنا بھی چیلنج ثابت ہورہا ہے۔ اب یہ فیصلہ مخلص سیاسی لیڈروں کو کر نا ہے کہ وہ کس طرح اس بد نصیب قوم کو غیر یقینی حالات اور مایوسی کے اندھیروں سے نجات دلا سکتے ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں