ایک درجن کے قریب پاکستانی اراکین پارلیمنٹ، جو یہاں اپنے بھارتی ہم منصبوں کے ساتھ ٹریک ٹو سیمینار میں شرکت کی خاطر آئے ہوئے تھے، کیلئے بھارت کا سیاسی موسم کچھ زیادہ خوشگوار ثابت نہیں ہوا۔وزیر اعظم نریندر مودی یا وزیر خارجہ سشما سوراج کے ساتھ روایتی ملاقات تودور کی بات، لوک سبھا کی اسپیکر سمترا مہاجن نے بھی اس گروپ سے ملنے سے احتراز کیا۔ اسپیکر کے دفتر کا کہنا تھا کہ پاکستانی وفد کو ملاقات کا وقت تو دیا گیا تھا، مگر وہ وقت مقررہ پر نہیں پہنچ سکے اور سیشن میں مصروفیات کے سبب کوئی دوسرا وقت اسپیکر نہیں نکال پاسکیں۔مگر اس سے قبل یہ پارلیمانی وفد جب اسپیکر گیلری میں لوک سبھا کی کارروائی کا مشاہدہ کرنے پہنچا، توروایات کے برعکس نہ ہی‘ اسپیکر نے ان کا خیر مقدم کیا اور نہ ہی ایوان میں ان کے آنے کا اعلان کیا۔ وہ عام تماشائیوں کی طرح گیلری میں گھنٹہ بھر کارروائی دیکھ کر اٹھ گئے۔پارلیمانی امور کے وزیر ونکیہ نائیڈو نے اپنا پلہ جھاڑتے ہوئے کہا کہ پاکستانی وفد کے میزبانوں نے ان کی وزارت سے رجوع ہی نہیں کیا، اور نہ ہی ان کو اس طرح کے کسی سیمینار کی اطلاع تھی۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کی طرف سے بھارتی پارلیمنٹ کی وسیع و عریض لائبریری بلڈنگ میں منعقدہ اس سیمینار میں بھارتی اپوزیشن کے 22 اراکین نے شرکت کی، مگر حکمران نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے 397 اراکین میں سے صرف چار اراکین گفتگو میں شامل ہوئے‘ جن میں تین بی جے پی سے اور ایک پنجاب کی اکالی دل کے ممبر اور سابق وزیر اعظم اندر کمار گجرال کے صاحبزادے نریش گجرال تھے۔ بی جے پی اراکین ورون گاندھی، سابق فلمی اداکار شتروگن سنہا اور سابق کرکٹر کرتی آزاد بعد میں میڈیا دفتروں میں صفائیاں بھیجتے رہے کہ انہوں نے اس سیمینار میں ذاتی حیثیت سے شرکت کی اور بھارت کا موقف زور شور سے اٹھایا۔دراصل پاکستانی وفد کے تئیں سرد مہری کی ایک بڑی وجہ13دسمبر کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کی سالگرہ تھی۔ ہر بھارتی سیاستدان موجودہ حالات میں ان کے ساتھ فوٹو کھنچوانے سے کترا رہا تھا۔
گو کہ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے مابین ایک قلیل وقفہ کو چھوڑ کر کبھی بھی ماحول کشیدگی سے مبرا نہیں رہا، مگر اس کی پرچھائیاں کبھی عوامی تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوئیں۔ کرگل جنگ بھی دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور دیگر تعلقات میں رکاوٹ نہیں بن سکی۔بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کے بعد آپریشن پراکرم کے دوران بھارت نے فضائی اور زمینی روابط منقطع کئے مگر عوامی سطح پر تعلقات پھر بھی بحال رہے؛ تاہم اس بار پریس کلب آف انڈینز اور نئی دہلی میں واقع فارن کارسپانڈنٹس کلب نے جس طرح آخری موقع پر پاکستانی فوڈ اور صوفی فیسٹیول کو کینسل کرادیا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ان دونوں اداروں کی ہی درخواست پر بھارت میں موجود پاکستانی سفارت خانہ نے قوالی اور پاکستانی ضیافت کا اہتمام کیا تھا اور اس کے لئے پاکستان سے فنکار اور باورچی بلائے گئے تھے‘ تاکہ عوامی رشتوں کو پائیدار بنایا جاسکے۔ پاکستانی وفد کے تئیں بھارتی سیاستدانوں کی سردمہری اور پریس کلبوں کی طرف سے ثقافتی پروگرامز کی منسوخی بھارت میں بدلتے سیاسی مزاج کی ہلکی سے عکاسی ہے۔
آگرہ میں غریب مسلمانوں کو جبراً ہندو بنانا، وزیر خارجہ سشما سوراج کی طرف سے بھگوت گیتا کو قومی کتاب کا درجہ دئے جانے کا مطالبہ اور مغربی ریاست مہا راشٹر کے نئے منتخب وزیراعلیٰ دیوندر فڈناویس کا جمعیت علمائے ہند کے خلاف بیان اس بات کا غماز ہے کہ بھارتی سیاست بہت زیادہ خطرناک تیور اپناتی جارہی ہے۔مرکزی وزیر سادھوی نرنجن جیوتی کی طرف سے کچھ بیانات پرایک ہفتہ تک پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن کی طرف سے زبردست برہمی کا اظہار کیا گیا ۔ وزیر موصوف نے بی جے پی کے حق میں ووٹ طلب کرتے ہوئے دہلی کے رائے دہندگان سے ''رام کی اولاد‘‘ اور ''ناجائز اولاد‘‘ میں فرق کرنے کیلئے کہا تھا۔ سیاستدان الیکشن مہم کے دوران ووٹروں کو لبھانے کیلئے کیا کیا جتن نہیں کرتے اور سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بتانے میں کس کس مہارت سے کام نہیں لیتے‘ اس کے بارے میں کچھ کہنے کی شایدضرورت نہیں لیکن سادھوی نرنجن جیوتی نے جس بھونڈے طریقے سے رائے دہندگان کے جذبات کے تاروں کو چھیڑنے کی کوشش کی‘ وہ یقینی طور پر قابل اعتراض ہی نہیں بلکہ قابل تعزیر بھی ہے۔ دیکھا جائے تو ماضی میں بھی بھاجپا کے کچھ قائدین اور حلیف جماعتوں نے مسلمانوں کے بارے میں اس سے ملتے جلتے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ رام جنم بھومی ایجی ٹیشن کے دوران مسلمانوں کو بابر کی اولاد اور غیر ملکیوں کا نام دیا گیا۔
حال ہی میں وزیراعظم نریندرمودی نے سرینگر میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔وزیر اعظم نے اپنی تقریر کے دوران اہل کشمیر کی مشکلات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ وہ اہل کشمیر کے دکھ درد اور مشکلات کو اپنا دکھ درد مانتے ہیں۔مودی جی کے بقول کشمیر کا سب سے بڑا مسئلہ بے روز گاری ہے اور تمام مسائل کا علاج تعمیر وترقی میں مضمر ہے۔ لیکن تعمیر وترقی کو روبہ عمل لانے کے لئے امن چاہئے اور امن کا حصول تبھی ممکن ہے جب لوگوں کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ تنازعے کے متعلق بات کرنے سے اجتناب کر کے پرائم منسٹر مودی نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ نئی دلی کے پاس جموں اور کشمیر کے تنازعے کے حل کے لئے نہ کوئی جامع منصوبہ ہے اور نہ ہی خلوص وسنجیدگی نام کی چیز کہیں موجود ہے۔دلی کی اپنی کشمیر پالیسی میں جو واضح تضاد موجود ہے، اس کا مشاہدہ مر کزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی سے لے کر نریندر مودی جی تک کی باتوں اور حرکات وسکنات سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے۔ جب ارون جیٹلی جی نے ہفتہ عشرہ پہلے سرحدوں
میں کسی بھی تغیر و تبدل کو یکسر مسترد کیا تو اس سے صاف ظاہر تھاکہ بھارت کے پاس ٹھوس کشمیر پالیسی نہیں ہے۔ مگر جس طرح وزیراعظم نے سری نگر میں اہل کشمیر پر یہ کہہ کر بہت بڑا احسان جتانے کی کوشش کی کہ چھتر گام بڈگام میں دو بے گناہ کشمیری کم سن نوجوانوں کے قتل میں ملوث فوجی جوانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے گزشتہ تیس برسوں میں پہلی بار انصاف کے تقاضوں کو پورا کر نے کی کوشش کی گئی ہے، اس سے جموں اور کشمیر میں گزشتہ تقریباًتین دہائیوں کے دوران کشمیریوں کے ساتھ ہر طرح کی ناقابل بیان زیادتیوں کی تصدیق ہوئی ہے اور مودی جی کا یہ فرمانا کہ پہلی بار 30برسوں کے دوران زیادتی کرنے والے وردی پوشوں کے خلاف کارروائی کی گئی، یہ ظاہر کرتا ہے کہ مودی جی خود اس بات سے انکاری نہیں کہ کشمیریوں کا خون بہانے والوں کو آج تک کبھی ملکی مفاد کے نام پر تو کبھی کالے قوانین کی آڑمیں یا دیش بھکتی کے عنوان سے نہ صرف پورا تحفظ حاصل رہا ہے بلکہ ناقدین کا یہ الزام کہ بے لگام فورسز کوکشمیر میں بے گناہوں کے خون بہانے کے عوض انعامات اور ترقیوں سے بھی نوازا گیا ہے، غلط نہیں۔ دکھ اور افسوس تو یہ ہے کہ کل تک نئی دلی والے اہل کشمیر اور پاکستان کو مسئلے کے حل کے لئے باہمی مذاکرات اور شملہ اور تاشقند معاہدے کا واسطہ دے رہے تھے اور اب مودی جی گجرات کا موازنہ کشمیر سے کر کے تاریخ کا الٹ پلٹ کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ سوال صرف بی جے پی یا مودی جی کے کشمیر میں بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کا نہیں بلکہ کشمیریوں کی بے پناہ قربانیوں سے کچھ حاصل کر کے عدل اور انصاف کے پیمانوں کو پورا کرنے کا ہے۔