"IGC" (space) message & send to 7575

سانحہ پشاور اور بھارت

پشاور کے خونین سانحہ کی اگلی صبح جنوبی دہلی کے ایک پارک میں معمول کے مطابق ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کے کارکن دسمبر کی سردی میں بھی مخصوص وردی ،سفید شرٹ اورنیکر ،پہن کر ورزش کررہے تھے۔خلاف معمول یا شاید میری موجودگی کا احساس کرکے چیف مبلغ (مکھیہ پرچارک) نے ورزش روک کر سانحہ پشاور کی طرف اشارہ کرکے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی شروع کردی۔ ان کی گفتگو کا ماحصل یہی تھا کہ کرہ ارض پرجب تک مسلمانوں کا وجود باقی ہے، امن قائم نہیں ہوسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ مسلمان اتنے سفاک اور سنگ دل ہیں کہ انہیں معصوم بچوںکی چیخ پکار سے بھی سکون ملتا ہے۔چونکہ پشاورکا سانحہ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ایک ایرانی نژاد مسلح شخص کے ایک ریسٹورنٹ میں عام لوگوں کو یرغمال بنائے جانے کے بعد پیش آیا، اس لیے یہ پرچارک محمودغزنوی، اورنگ زیب حتیٰ کہ چنگیز خان (جس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا)کے حملوںکو مسلمانوں کے ساتھ منسوب کرکے اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب کے طور پرکچے ذہنوں میں بٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسی روز وزیراعظم نریندر مودی کی اپیل پر دہلی کے سبھی سکولوں میں پشاور میں شہید ہوئے بچوں کی یاد میں سوگ منایا جا رہا تھا،جبکہ پارلیمنٹ کے احاطہ میں بی جے پی کے ایک سخت گیر لیڈریوگی آدتیہ ناتھ میڈیا والوں پر برس رہے تھے کہ آخر وہ کیوں واقعہ پشاور پر آنسو بہا رہے ہیں۔دنیا بھر کے، خصوصاً غیر مسلم معاشروں میں رہنے والے مسلمانوں کو اس واقعہ نے گنگ کرکے رکھ دیا ہے۔میر ے پاس بھی آر ایس ایس کے پرچارک یا یوگی کی دلیل کا کوئی جواب نہیں تھا۔ جو مذہب رحمت کا پیغام لے کر
آیا ، جہاں جہاد مظلوموں کی داد رسی کا ایک آخری آپشن تھا، اس کے پیروکار اتنے ظالم کیسے ہو سکتے ہیں؟ شدت پسند تنظیمیں کتنی ہی دلیلیں کیوں نہ دیں، اس حملہ کو غزہ کے معصوم بچوںکے خون، برما کے نہتے روہنگیا مسلمانوں کو زندہ درگور کرنے،گجرات اور مظفر نگر یا سرینگر میںمعصوم جوانیوں کو گولیوں سے چھلنی کرنے جیسے واقعات سے جوڑ کر بدلے کی کارروائی کے طور پر پیش کریں، مگر خون ناحق کسی بھی صورت میں جائز نہیں ،حتیٰ کہ اسلام میں تو جنگوں میں بھی عورتوں اور بچوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ کیا اس طرح کے واقعات سے غیر مسلموں کو مسلمانوں سے متنفر نہیں کیا جارہا ہے؟بھارت میں تو مسلمانوں کے پاس تبلیغ اسلام کے نادر مواقع ہیں ، کیونکہ اکثریتی ہندو طبقہ یہاں ذات پات اور چھوت چھات کے شکنجے میں تلملا رہا ہے۔بھارت میں اعلیٰ ذات یعنی برہمن، چھتریہ اور ویشیہ کی آبادی صرف 15 فیصد ہے، مگروسائل پر ان کے کنٹرول کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ، کہ تناسب کے حوالے سے وہ سیاست میں66 فیصد، سروسز میں87 فیصد، تجارت میں 94 فیصد اور زمینداری میں 92 فیصد ہیں۔ملک کی 85 فیصد آبادی جو قبائیلیوں ، دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات پرمشتمل ہے، کسی مسیحا کے انتظار میں ہے، مگر پشاور جیسے واقعات ان کو اسلام اورمسلمانوں کے قریب لانے کے بجائے دور کر رہے ہیں۔
خیر آج کی تاریخ میں یہ حکومت پاکستان کی ہی خواہش نہیں کہ ان قاتلوں کا اپنی سرزمین میں صفا یا کرے بلکہ انسانیت کے ہر بہی خواہ کی یہی دلی چاہت ہے کہ دنیا میں چاہے دہشت گردی طبقاتی سطح پر ہو یا سرکاری سطح پر،ا س کا قلع قمع کیاجائے تاکہ تمام اقوام اور سماجوں کو آرام سے گھل مل کررہنے اورجینے کا موقع مل جائے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آگے اس نوع کے سانحات پر روک لگانے کے لئے کوئی معنی خیز اور موثر حکمت عملی وضع کی گئی ہے ؟ سابق خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو بھی لبنانی وزیراعظم رفیق الحریری کی طرح دہشت گردی کا نشانہ بن گئی تھیں۔دہشت اور وحشت کے ناسور سے اس مملکت کو محفوظ بنانے کے لئے موجودہ ا ور سابق وفاقی حکومتوں نے مختلف فوجی آپریشنز کئے ، لیکن یہ مرض مستقل طور پر ختم نہ کیا جا سکا۔ بعض مواقع پر طرفین میں صلح اور سمجھوتے کے لئے گفت وشنید کے کئی راونڈ بھی ہوئے مگر سب بے سود۔ یہی کر تے کرتے تیر ہ برس گزر گئے۔ا س دوران مسلح باغیوں نے گولیوں ، بم دھماکوں اور دیگر متشددانہ کارروائیوں سے اس ملک کا امن تباہ کر کے رکھ دیا۔پشاور حملہ اسی حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ شاید پشاور سانحہ میں کام آنے والے معصوم ومظلوم بچوں کی پاک روحوں کا فیض ہے کہ بانکی مون سے لے کر وزیراعظم ہند نر یندر مودی تک نے جہاں ا س المیے پر گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ، وہیںدکھ کی ا س گھڑی میں پاکستانی عوام کے ساتھ شریک غم ہونے کا یقین بھی دلایا۔ضروری ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عوام کو ان دہشت گردوں سے متنفر کیاجائے تاکہ وہ خود ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔اس سلسلے میں دیگر ملکوں خاص طور پر بھارتی حکمت عملی کو بھی اسٹڈی کرنے کی ضرورت ہے، کہ کس طرح10برس کے قلیل وقفہ میں اس نے ناگا لینڈ، پنجاب اور آسام میں عسکری جدوجہد کا قلع قمع کیااور ان میں ملوث بیشتر افراد کو ملک کے قومی دھارے میں لانے میں کامیاب ہوگیا۔
اس سانحہ نے کشمیر میں بھی ہر فرد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے۔ متعدد تنظیموں اور مذہبی انجمنوں نے اس سانحہ کو اسلام دشمن کارروائی قرار دیا ہے۔حریت کانفرنس کے لیڈر اور متحدہ مجلس علماء کے امیر میرواعظ عمر فاروق نے پشاورمیں پیش آئے بدترین اور انسانیت سوز خونین سانحہ کو پورے عالم اسلام کیلئے لمحہ فکریہ قرار دیتے ہوئے علمائے اسلام، مفکرین اور ذی حس افراد پر زور دیا ہے کہ وہ ان حالات اور عوامل کا محاسبہ کریں جن کو بنیاد بنا کر چند عناصر اپنے سیاہ کارناموں سے اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ جن علمی مراکز میں انسان کی تربیت ،فلاح اور دنیا کو مسائل سے نجات دلانے کا سبق پڑھایا جانا چاہئے آج کہیں کہیں پر ان مراکز میں انتہا پسندی کی تعلیم دے کر مذہبی حیثیت کو بری طرح مسخ کیا جا رہا ہے۔ سید علی گیلانی نے کہا کہ سانحہ پشاور انسانی تاریخ کا ایک المناک سانحہ ہے اور اس پر جتنے آنسو بہائے جائیں اور ماتم کیا جائے ، کم ہے۔ گیلانی نے کہا کہ پاکستان ایک طرف بیرونی سازشوں کا شکار ہے، دوسری طرف اندر سے اس ملک میں خارجی ذہنیت اور مذہبی انتہا پسندی پروان چڑھ رہی ہے۔ مذہب کے نام پر اسلام کے بنیادی مقصد اور روح کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک طالبان کی کارروائیوں کا کوئی جواز نہیں اور اس کو دہشت گردی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا ۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ عراق ، شام ،وسطی ایشیااور افریقی ملکوں میں مذہب کے نام پر قائم دہشت پسند گروپوں میں وہ لوگ آخر کیسے داخل ہوئے ہیں ، جو کل تک یہودیت، عیسائیت یا دہریت کا دامن پکڑے ہوئے تھے۔آخر اسلام کے وہ ایسے متوالے کیسے بن گئے کہ اس کی ایک نئی تصویر دنیا کو دکھانے لگے۔چاہے القاعدہ کا نائب سربراہ آدم یحییٰ ہو یا ممبئی حملوں میں ملوث ڈیوڈ ہیڈلی، یا شام میں سرگر م برطانوی جان، یا بھارت نژاد سدھارتھ دھر یا آسٹریلیا کا پیٹر نلسٹن، جس نے اپنے سات سالہ بیٹے کے ہاتھ میں ایک عراقی کا کٹا ہو سر دے کر فوٹو کھنچوائی، لگتا ہے کہ یہ سب کسی سازش کے تحت ہی اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں اب کھل کر بحث کی جائے۔ مسلم ممالک پر خصوصاً ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے وسائل بروئے کار لاکر اس سازش کو بے نقاب کر کے دنیا کے سامنے اسلام کے صحیح تصویر پیش کرکے خود بھی رول ماڈل بن جائیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں