دو ماہ قبل جب جموں کشمیر میں مقامی اسمبلی کیلئے انتخابات کا بگل بج گیا، انہی کالموں میں ، میں نے ''ڈوگرہ راج کی واپسی‘‘ کے عنوان سے اس متنازعہ مسلم اکثریتی صوبہ میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔انتخابی نتائج سے اب ظاہر ہے، کہ یہ خدشہ اب حقیقت بن رہا ہے۔ان انتخابات میں جہاں ایک طرف ریاست کے ہندو بیلٹ نے یک طرفہ بی جے پی کے حق میں ووٹ دے کرجموں کی 37میں 25سیٹوں پر اسے کامیابی دلائی، وہیں دوسری طرف مسلم ووٹ اس بار بائیکاٹ کو کسی حد تک رد کرتے ہوئے، بی جے پی کے خوف سے پولنگ بوتھ تک تو آگیا۔ مگر کسی راہنمائی کی عدم موجودگی میں یہ ووٹ مقامی پارٹیوں، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)، نیشنل کانفرنس(این سی) ، کانگریس اور لاتعداد آزاد امیدوارں میں بٹ گیا۔گو کہ ہائی وولٹیج کمپیئن کے باوجود بی جے پی وادی کشمیر اور لداخ سے کوئی بھی نشست حاصل نہیں کر سکی، مگر اس نے جموں کے مسلم خطوں، پیر پنچال اور چناب ویلی سے 15میں سے سات نشستیں حاصل کیں۔
کانگریس پارٹی کو اس با ر اپنے گڑھ جموں کے ہندو بیلٹ میں ایسی ہزیمت کا سامنا کرناپڑا، کہ اس کے مقتدر لیڈران بی جے پی کے نو آموز ممبروں کے سامنے بونے لگے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پی ڈی پی جو سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری ہے ،کو 87رکنی ایوان میں 28نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ ان میں 25وادی کشمیر سے اور تین جموں کے مسلم بیلٹ سے ہیں۔وزیر اعلیٰ کی کرسی پر ابھی تک فائز عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کو 15سیٹیں حاصل ہوئی ہیں، جن میں دو جموں کے ہندو بیلٹ سے، ایک مسلم بیلٹ سے اور 12وادی کشمیر سے ملی ہیں۔کانگریس کو 12سیٹوں پر اکتفا کر نا پڑا ہے۔ جن میں 5جموں کے مسلم خطے سے، 4 وادی کشمیر سے اور 3لداخ خطے سے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے، کہ کانگریس جو ابھی تک جموں کے ہندو خطے کی ترجمان مانی جاتی تھی، کے پاس اس وقت ایک بھی ہندو ممبر اسمبلی نہیں ہے۔ گو کہ آسان صورت یہ تھی کہ پی ڈی پی اور کانگریس اتحاد کرکے ایک حکومت تشکیل دے سکتے تھے، مگر کانگریس کے اس کے کور ہندو بیلٹ میں شکست اور کسی ہندو ممبر کی عدم موجودگی نے اس کے وقار پر سوالیہ نشان کھڑے کیے ہیں۔اس حکومت میں جموں کا ہندو بیلٹ اقتدار سے باہر رہے گا، جو بھارتی اسٹیبلشمنٹ کیلئے کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہوگا۔ دوسری طرف عوام نے مذہب یا علاقائی بنیادوں پر جو مینڈیٹ دیا ہے ، متذکرہ بالافیصلے کرنے کی صورت میں جموں اور وادی کے درمیان مزید خلیج اور تفرقہ پیدا کریں گے اور وادی کے عوام ،جو ابھی سیلاب کی آفت سے سنبھلے بھی نہیں ہیں، کے لئے بہت بڑے مسائل پیدا ہوں گے۔ان مسائل کے ہوتے ہوئے بننے والی حکومت عوام کی نظروں سے بہت جلد گرجائے گی اور بی جے پی اس ناکامی پر شورمچاکر آنے والے دنوں میں حکومت کو نہ چلنے دے گی۔
نتائج کے اگلے روز ہی بی جے پی نے نیشنل کانفرنس کو اتحاد کی دعوت دی تھی اور جموںکے بی جے پی کے لیڈر نرمل سنگھ کو وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے مقتدر لیڈر علی محمد ساگر کو نائب وزیر اعلیٰ بنانے کے طور پر کسی حد تک اتفاق ہوگیا تھا۔ مگر یہ بیل اس لیے منڈھے چڑھ نہیں سکی، کیونکہ ساگر کے علاوہ دیگر لیڈروں نے سرینگر میں بغاوت کی اور عمر عبداللہ جو لندن جانے کی تیاری کر رہے تھے ،فی الفور ان لیڈران کو منانے سرینگر روانہ ہوگئے اور بی جے پی کے ساتھ کسی بھی گٹھ جوڑ سے انکار کیا۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر افراد یہاں اس وقت پی ڈی پی اور بی جے پی کا اتحاد کروانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ پی ڈی پی نے جو شرطیں رکھیں ہیں ان میں بھارتی آئین میں ریاست کی خصوصی پوزیشن کی حفاظت، بھارتی فوج کو خصوصی اختیارات والے قانون (آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ )کی منسوخی، پاکستان اور حریت کانفرنس کے لیڈران کے ساتھ کشمیر کے مسئلہ کے حتمی حل کے لیے بات چیت اور اقتصادی پیکیج شامل ہیں۔اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ یہ شرطیں بی جے پی کے لیے کس حد تک قابل قبول ہوں گی۔ اس اتحاد کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ایک تو کشمیر کی پی ڈی پی اس میں غالب پارٹنر ہوگی اس لیے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید ہوں گے، جو ایک زیرک سیاستدان ہیںاور کشمیری مسلمان کا درد بھی رکھتے ہیں۔ دوسری طرف دونوں کے اتحاد سے بننے والی حکومت کو 53ممبروں کی حمایت حاصل ہوگی۔اس کے ساتھ ساتھ پیپلز کانفرنس کی دو سیٹیں بھی اپنے ساتھ ملائی جاسکتی ہیں اس طرح ریاست کے لوگوں کو متحدہ مینڈیٹ مل سکتا ہے۔یوں ریاست کا اتحاد مزید نہیں ٹوٹے گا،اسے چھ سال تک مضبوط حکومت مل جائے گی اور اس طرح اسے ترقی اور تعمیر کی راہ پر ڈالا جاسکتا ہیں۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ2002ء اور اس کے بعد کے انتخابات میں آخر سب سے بڑی پارٹی کو صرف 28نشستیں ہی کیوں ملتی ہیں؟ دو بار 2002ء اور 2008ء میں یہ تعداد نیشنل کانفرنس کے پاس تھی۔ یہ سوال بجا ہے کہ کیا علاقائی کشمیری مسلم سیاست کے دائرے کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اِس مناسبت سے تقسیم کیا گیا جس میں دو علاقائی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی تقسیم ہوکر بھارتی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے پہ مجبور ہو جائے۔ پچھلے بارہ سال چاہے وہ کانگریس ہو یا بھاجپا ،ریاستی سیاست کی بندر بانٹ میں شامل رہے تاکہ کشمیری سیاسی امنگوں و آرزووں کی آبیاری پرروک لگائی جا سکے جن کی ترجمانی کا دعویٰ دو علاقائی تنظیمیں کرتی ہیں ۔اس کا خمیازہ نہ صرف وادی کشمیر کے عوام کو اٹھانا پڑھ رہا ہے بلکہ پیر پنچال کے اْس پار چناب ویلی اور پونچھ و راجوری میں آباد مسلمان بھی اقتصادی بد حالی کا شکار ہو رہے ہیں اور اْ نکے تحفظات کا علاقائی جماعتوں کے پاس کوئی وسیلہ نہیں۔2002ء سے کانگریس کی ریاستی شاخ پہلے تو پی ڈی پی کے ساتھ اور پھر نیشنل کانفرنس کے ساتھ ملی جلی سرکار میں شامل رہی۔اِن برسوں کے دوران کانگریس کی شاخ جموں کے ہندو ووٹروں کو لبھانے کے لئے صوبائی جماعتوں کو تگنی کا ناچ نچاتی رہی ۔ کشمیری سیاسی تحفظات تودر کنار یہ جماعتیں سالانہ بجٹ کے اْس حصے بھی کو مکمل تحفظ فراہم نہیں کر سکیں جو کہ وادی کشمیر کے لئے مخصوص ہوتا رہالیکن جس کا خاصا حصہ جموں کے اڑھائی اضلاع پر خرچ ہوتا ہے۔
پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کی سیاسی طاقت کا منبہ وادی کشمیر ہے۔ پیر پنچال کے اْس پا ردریائے چناب کے کنارے کی بستیوں پہ مشتمل ہیں اورپیر پنچال کے علاقہ جات میں بھی اِن جماعتوں کا کچھ حد تک عمل دخل ہے۔صوبائی جماعتوں کے علاوہ غلام نبی آزاد کے توسط سے کانگریس کی رخنہ اندازی سے یہاں کا اکثریتی مسلم ووٹ تین حصوںمیں تقسیم ہونے لگا اور اْس کا براہ راست فائدہ سنگھ پریوار کے سیاسی بازو بھاجپا کو حاصل ہونے لگا،جنہوں نے ہندو اقلیتی ووٹ کو مکمل طور پہ اپنی تھیلی میں بھر لیا۔ترقی کایہاں یہ حال ہے، کہ آزاد نے تویہاں ووٹ کانگریس کے حق میں ہموار توکیا، مگر 3سال تک وزیر اعلیٰ کے عہدے اور دہلی میں اہم عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود اپنے آبائی گائوں تک سڑک تک نہیں بنا سکے۔ اس ساری صورتحال میں ریاست خاص طور پروادی کے لوگ انتہائی پریشان ہیں کیونکہ وہ ابھرتے منظر نامہ میں اپنے آپ کو بے اختیار پارہے ہیں۔ظاہر ہے کہ جموں صوبہ نے کم و بیش واضح مینڈیٹ دے کر بی جے پی کو نمائندگی بخشی ہے ؛تاہم وادی میں منقسم مینڈیٹ کی وجہ سے کشمیر کو شدید ترین مخمصے سے بھی دوچار کر دیا ہے۔