"IGC" (space) message & send to 7575

کشمیر: حکومت سازی کا چیلنج

سرحدوں پر مسلسل کشیدگی، ریاست جموں کشمیر میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کاحکومت میں ہرحال میں حصہ داری پر اصرار، ہندو تنظیموں کی طرف سے آئے دن مسلمانوں اور عیسائیوں کی جبری تبدیلیٔ مذہب کے واقعات نے بھارت کے طول عرض میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ اکثریتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے سیکولر افراد کو بھی پریشان اور ششدر کردیا ہے۔ جنہوں نے عموماً پچھلی کانگریس کی قیادت والی حکومت کی بدعنوانیوں اور اقتصادی بدحالی سے تنگ آکر ایک خوش حال مستقبل کی آس لئے وزیر اعظم نریندر مودی کی جھولی میں ووٹ ڈالے تھے۔کشمیر میں تو بی جے پی نے واضح کیا ہے، کہ وہ ریاستی سرکار میں حصہ داری کیلئے کچھ بھی کرنے کیلئے تیار ہے، تاکہ دنیا کو پیغام دیا جائے ،کہ کشمیر کے مستقبل میں اب وہ بھی شراکت دار ہے۔حالیہ ریاستی انتخابات میں اس پارٹی نے جموں کے ہندو اکثریتی خطے میں کانگریس کا صفایا کرکے25نشستیں حاصل کیں، جن میں جموں کے ہی دو مسلم خطوں پیر پنچال اور چناب ویلی کی کل 13میں سے 6 نشستیں بھی شامل ہیں۔اب یہاں حکومتی ادارے نیز بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کشمیر سے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنیوالی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) پر دبائو ڈال رہے ہیں ، کہ وہ بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائے ۔ فی الحال دونوں پارٹیوں کے رہنمائوں کے درمیان ایک مشترکہ ایجنڈا بنانے کے لیے گفت و شنید جاری ہے ۔بی جے پی اقتصادی مراعات کے سبز باغ دکھا کر پی ڈی پی کوشیشے میں اتارنے میں مصروف ہے۔ مگر کشمیری سیاستدانوں کو علم ہے، کہ اگر صرف اقتصادی مراعات اور ترقی سے مقبولیت کے دروازے تک رسائی ہوسکتی تھی ،تو بخشی غلام محمد اور گورنر جگ موہن اس خطے کے مقبول تریں حکمران ہوتے۔ تعمیر اور ترقی کے بے پناہ دروازے کھولنے کے باوجود ان دونوں لیڈروں کو سیاسی تحفظات پر شب خون مارنے اور سیاسی طور پر کشمیریوں کو بے وقعت بنانے کیلئے ایک ولن کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔
دریں اثنا بھارتی مسلمانوں کی جماعتوں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے ایک بیان میں پی ڈی پی کی قیادت مفتی محمد سعید اور محبوبہ مفتی سے مطالبہ کیا ہے ، کہ وہ وقتی فائدہ کیلئے بی جے پی کو ترجیح نہ دے۔دیگر سیکولر پارٹیوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دیں۔ مگر ان لیڈروں کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ ان انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہوتے ہی راقم اور دیگر کئی احباب نے ان کے دروازوں پر دستک دے کر کشمیر میں بی جے پی کے خطرہ سے آگاہ کرنے کی کوششیں کرنے اوران سے جموں کے مسلم خطوں میں عوام کی راہنمائی کی درخواست کی تھی،مگر ان مقتدر لیڈروں کا خیال تھا، کہ چونکہ کشمیر کی سیاست باقی ملک سے مختلف ہے اس لیے ان کے دخل دینے سے معاملات الجھ سکتے ہیں۔ان کی خدمت میں یہ بھی عرض کیا گیا تھا کہ واقعی وادی کشمیر میں ان کی مداخلت سے معاملات الجھ سکتے ہیں ، مگر جموں ڈویژن کے مسلم خطوں پیر پنچال اور چناب ویلی میں مسلمان کسمپرسی اور کسی راہنمائی کی عدم موجودگی کے وجہ سے اپنا ووٹ تقسیم کرواکے بی جے پی کی جیت کو یقینی بنائیں گے۔چونکہ ان دونوں خطوں کا کسی حد تک سماجی اور سیاسی طور پر بھارت کے دیگر علاقوں کے ساتھ ایک کنکشن ہے۔ پونچھ اور راجوری کے لاتعداد نوجوان دیوبند اور دیگر مدرسوں میں زیر تعلیم ہیں، اس لیے بھارتی مسلم رہنمائوں کی آواز موثر کام کرسکتی ہے۔مسلم مجلس مشاورت، ویلفیئرپارٹی، جمعیت علماء ہند کے دونوں دھڑوں اور دیگر تنظیموں سے گزارش کی گئی تھی، کہ وفود کی شکل میں ان علاقوں کا دورہ کرکے عوام کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیں۔اس سے قبل ان راہنمائوں سے یہ بھی گزارش کی گئی تھی، کہ کانگریس میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے، قتل، کائونٹرانسرجنسی اور جنسی جرائم میں ماخوذ افراد کو الیکشن کا مینڈیٹ نہ دینے پر مجبور کریں۔ایک سینئرصحافی نے جمعیت کے عہدیداران کو بار بار توجہ دلائی کہ ان خطوں میں راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کی ایما پر ایک نام نہاد تنظیم جماعت علماء ہند بی جے پی کیلئے گھر گھر جاکر ووٹ مانگ رہی ہے، اور کنفیوژن کا شکار لوگ اس کو جمعیت علماء ہند سمجھ کر اس کی پذیرائی کر رہے ہیں۔گو کہ بعد میں مولانا محمود مدنی نے ایک بیان جاری کرکے اس جماعت سے لاتعلقی کا اظہار کیا ، مگر یہ ہنوزبحث طلب ہے کہ ان کا بیان ان خطوں میں انتخابات کے بعد کیوں آیا؟ ا ور اب پریس ریلیز جاری کرنے اور ڈرائنگ روم سے کاغذی بیانات داغنے سے صورت حال کی سنگینی کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ سوال یہ ہے انتخابات سے قبل عوام کی راہنمائی سے اجتناب کرنے کے بعد آخریہ مسلم تنظیمیں کس اخلاقی جواز کے حوالے سے پی ڈی پی سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ بی جے پی ، جو اب جموں خطے کی بلا شرکت نمائندہ ابھری ہے، کے ساتھ اتحاد نہ کریں۔ اگر ان راہنمائو ں نے اس خطے کا دورہ کرکے عوام کی راہ نمائی کی ہوتی تو بی جے پی یقینی طور پر18 یا 19 سیٹوں پر سمٹ کر شراکت داری کا دعویٰ نہ کرپاتی۔
بی جے پی کو جموں اور کشمیر میں سرکار کاحصہ دار بننے کا واحد مقصد بین الاقوامی برادری کو پیغام پہنچانا ہے، کہ وہ اب مسئلہ کشمیر میں ایک سٹیک ہولڈر ہے۔ جموں کشمیر نہ صرف مسلم اکثریتی ریاست ہے بلکہ ایک مسلمہ متنازع علاقہ بھی ہے، جس کا ثبوت نہ صرف بھارتی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد، شملہ معاہدہ ، تاشقند معاہدہ اور اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں بلکہ ریاستی اسمبلی کے اندر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کیلئے خالی مخصوص نشستیں ہیں۔ بی جے پی نے کشمیریوں کے پاس وفاق کے اندر حاصل بچی کھچی کمزور مراعات اورآئینی تحفظات کو بھی ختم کرنے کے عزائم کا کھلم کھلا اظہار کرکے ہل چل مچا دی ہے۔ گزشتہ چھ برسوں کا ریکارڈ گواہ ہے کہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی مخلوط سرکار میں شامل کانگریس کے وزراء نے کشمیر دشمنی اور مسلم دشمنی میں کبھی بھی بخل سے کام نہیں لیا۔ افضل گورو کی پھانسی کا سیاہ کارنامہ کانگریس جیسی سیکولر ہونے کی دعویدار جماعت کے سر ہی تو جاتا ہے۔ یہ کانگریس ہی ہے جس نے نہ صرف آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ یعنی (AFSPA)افسپا کی منسوخی کے متعلق کبھی سنجیدگی نہ دکھائی بلکہ قیدیوں کی رہائی سے لے کر ہر چھوٹی بڑی بات کیلئے کشمیریوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا۔ تعمیراتی کاموں اور فنڈز کی فراہمی سے لے کر نئی تحصیلوں کے قیام تک کانگریس نے عمرعبداللہ کو بے دست وپا کرکے اہلِ کشمیر کے حقوق کو پامال کرنے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی لیکن مودی کے 
وزیراعظم بننے کے بعد صوبہ جموں کی اکثریت نے نہ صرف کانگریس سے اپنا ناتا توڑ دیا بلکہ انہیں حالیہ انتخابات کے دوران ریکارڈ توڑ شکست سے دوچار کردیا۔ غرض جموں خطے کے اکثریتی طبقے کیلئے سب کچھ کرنے کے باوجود بھی اہلِ جموں کانگریسیوں سے مزید مسلم کش اور کشمیر کْش اقدامات کا تقاضا کرتے رہے اور یہی چیز جموں خطے میں بی جے پی کی بھاری جیت کا موجب بنی۔ سوال یہ ہے اگر اہل جموں اپنے مفادات کی خاطر اس قدر حساس ہیں تو کیا اہلِ کشمیر گزشتہ 27برسوں سے ہر محاذ پر مار کھانے کے باوجود اپنے فرائض اور حقوق کے تئیں غافل ہیں؟۔ کیا اہل کشمیر کا یہ فرض نہیں بنتا تھا کہ وہ کسی ایسی جماعت کو واضح اکثریت دیتے جو ان کے اکثریتی کردار کے تحفظ کی پابندہونے کے علاوہ اْن کے سیاسی جذبات اور خواہشات کی ترجمانی کرتی۔ کپواڑہ کے لنگیٹ حلقہ سے منتخب امیدوار انجینئر رشید کا خیال ہے کہ اگر کشمیریوں کے جذبات کی ترجمانی کرنے والی دونوں بڑی جماعتوں این سی اور پی ڈی پی میں سے کسی ایک نے بھی کشمیریوں کے حقوق کی خلوص دل سے بات کی ہوتی تو کشمیری اتنے احسان فراموش نہیں کہ اسے واضح مینڈیٹ نہ دیتے۔ سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی پی ڈی پی ہے جو اس وقت دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک راستہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی گلی سے ہو کر گزرتا ہے ۔ جو بقول ایک کشمیری تجزیہ کار ، گرچہ تنگ ہے مگر سفر کرنے کے لئے آسان ہے اور دوسرا بی جے پی کی شاہراہ سے ہوکر گزرتا ہے جہاں راستہ حدِ نگاہ تک پھیلا ہوا ہے مگر سفر مشکل اور کٹھن ہے۔ یہ راستہ اگرچہ کشادہ ہے مگر دوسری سمت سے آنے والی ''ہندوتوا‘‘ نامی کمپنی کی گاڑی اسے کہیںپر بھی ٹکر مار کر حادثے سے دوچار کر سکتی ہے۔ 
(باقی صفحہ 13پر)
قصہ مختصر اگر سیاسی مراعات لئے بغیر پی ڈی پی ، بی جے پی کی مدد سے اقتدار پر براجمان ہوتی ہے، تو یہ شاید اس پارٹی کی آخری سیاسی اننگ ہوگی؛ البتہ اگر اس نے افسپا ایکٹ پر کوئی واضح یقین دہانی حاصل کی، تو شاید کشمیری عوام اس کو معاف کرسکیں گے۔ ورنہ دوسری صورت میں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کے جموں کشمیر کی طرف بڑھتے ہوئے قدم تاریخ کا ایک سیاہ باب رقم کریں گے۔ مسئلہ کشمیر کا حل دور کی بات ،اس وقت کشمیری مسلمانوں کی شناخت ، تہذہب ، تشخص اور مذہب دائو پر لگا ہوا ہے۔بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتیں بشمول آ رایس ایس ، وشوا ہندوپریشد اور بجرنگ دل اقتدار کا سہارا لے کر مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ اگر ایسے میں کشمیری سیاسی جماعتوں نے اپنے اختلافات کو بھلا کر مناسب قدم نہ اٹھائے تو شاید قدرت بھی کشمیریوں کی مدد کیلئے تیار نہیں ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں