امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے حالیہ دورہ کے دوران اس خطے میں اپنے نئے حلیف بھارت کے ساتھ دوستی اور اشتراک کا ایک نیا باب تورقم کیا،مگر جاتے جاتے جس طرح مذہبی رواداری کی وکالت اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف سخت پیغام دیا، اس سے برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی مربی ہندو قوم پرست تنظیموں کے منہ کا مزا کرکرا ہوگیا۔ بی جے پی اس دورے کو وزیر اعظم نریندر مودی کی اہم کامیابی کے طور پر پیش کرکے اس سے انتخابی فوائدحاصل کرنے کا خوا ب دیکھ رہی تھی۔قارئین کو یاد ہوگا، بالکل اسی طرح 2006ء میں بھی اپنے دورہ کے آخری دن بھارتی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اوباما نے واضح پیغام دیا تھا، کہ اگر بھارت ایک عالمی طاقت کا درجہ حاصل کرنا چاہتاہے، تواس کو ذمہ داریا ں بھی نبھانی ہوں گی۔میانمار ، جہاں اس وقت فوجی ڈکٹیٹر شب کا راج تھا، کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے، اوباما نے شکایت کی تھی کہ ایک طرف بھارت عالمی منظر پر اونچے درجہ پر نشست حاصل کرنے کا خواہاں ہے، وہیں دوسری طرف اپنے پڑوسی ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے اقوام متحدہ میں امریکہ اور اس کے حلیفوں کی حمایت سے کتراتا ہے۔
یہ دورہ اس لحاظ سے بھی معنی خیز رہا ، کہ اوباما کی روانگی کے ایک دن بعد ہی مودی نے سیکرٹری خارجہ سجاتہ سنگھ کو برطرف کرکے اپنے بھروسہ مند افسر سبرامنیم جے شنکر کو اس عہدہ پر فائز کر دیا۔سجاتہ سنگھ کی مدت اس سال جولائی میں ختم ہورہی تھی، جبکہ جے شنکر ، جو امریکہ میں بھارت کے سفیر تھے،31 جنوری کو ریٹائر ہورہے تھے۔بھارت میں چند کلیدی عہدوں فارن، دفاع ، داخلہ اور کیبنٹ سیکرٹریوں کیلئے دو سال کی مدت کا ر ہوتی ہے۔سجاتہ سنگھ کی برطرفی کی جو وجوہ چھن چھن کر باہر آرہی ہیں،اس کے مطابق وزیراعظم مودی سیکرٹری خارجہ کی روایتی ناوابستگی انداز فکر سے خاصے نالاں تھے۔جولائی میں برازیل میں منعقد برکس چوٹی کانفرنس کے اعلامیہ کے متن میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف ایک پیراگراف شامل کرنے سے وزیر اعظم کا دفتر خاصا نالاں تھا۔ یہ ناراضگی دوچند ہوگئی جب اس کے فورا بعد بھارت نے اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا۔گو کہ ان سبھی معاملات میں سیکرٹری خارجہ کو وزیر خارجہ سشما سوراج کی بھر پور تائید حاصل تھی، مگر وزیراعظم اور وزارت خارجہ کے درمیان اختلافات تو اسی وقت چھلک کر سامنے آگئے تھے جب کئی اہم دوروں پر مودی نے وزیر خارجہ کو وفد کا حصہ نہیں بنایا۔ ستمبر میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات بھی وزارت خارجہ کے بجائے وزیر اعظم کے دفتر میں قومی سلامتی کے مشیر نے ترتیب دی تھی۔حال ہی میں مودی کے اپنے صوبہ گجرات نے ایک عالمی اقتصادی کانفرنس منعقد کی ، جس میں ڈنمارک کی وزیراعظم کو بھی مدعو کیا گیا تھا،مگر وزارت خارجہ نے ان کی آمد کو یہ کہہ کر رکوادیا، کہ ڈنمارک کی طرف سے بھارت میں مطلوب ایک اشتہاری ملزم کم ڈیوی کے خلاف کاروائی نہ کرنے کی وجہ سے اس ملک کے ساتھ اعلیٰ سطحی تعلقات پچھلی حکومتوں نے منقطع کئے ہیں۔کچھ عرصے قبل بھارت کے دفاعی تحقیقی ادارے ڈی آر ڈی او کے سربراہ اونیش چندرا کو بھی جب برطرف کیا گیا، کچھ اسی طرح کی وجوہ اس وقت بھی سامنے آگئی تھیں۔چندرا، جو بھارت میں کئی دہائیوں سے میزائل پروجیکٹ کے سربراہ رہ چکے ہیں، اسرائیلی ٹیکنالوجی کو ملک میں لانے کا سخت خلاف تھے۔
بہر حال اوباما کی طرف سے مذہبی رواداری کی زوردار وکالت سے یہاں گرما گرم بحث چھڑ گئی ہے۔ اوباما نے بھارتی آئین کی دفعہ 25 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں تمام لوگوں کو اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہے ۔ امریکی صدر کا یہ تبصرہ کچھ ہندوتوا تنظیموں کے متنازعہ تبدیلی مذہب اور''گھر واپسی‘‘ پروگراموں پر واضح چوٹ تھی۔غور سے دیکھا جائے تو ملک میں گذشتہ کچھ عرصے سے مذہبی منافرت میں اضافہ ہوا ہے اور 'گھر واپسی‘ کے نام پر مذہب کی تبدیلی ایک انتہائی متنازع سماجی اور سیاسی مسئلہ بنا ہوا ہے۔اس موضوع پر وزیر اعظم نریندر مودی اب تک خاموش رہے ہیں۔بھلے ہی اوباما نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی رکنیت کے حصول کیلئے بھارت کی حمایت کا اعلان کیا تاہم جس طرح انہوںنے مذہبی انتہا پسندی کا تذکرہ کیا ،وہ اپنے آپ میں وزیراعظم مودی کیلئے کھلا پیغام تھا کہ وہ ملک میں اقلیتوں کاعرصہ ٔحیات تنگ کرنے کا سلسلہ بند کرائیں۔دراصل ملک میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد جس طرح ہندو سخت گیر جماعتیں سرگرم ہوگئی ہیں ،وہ یقینی طور پر باعث تشویش ہے۔ ایک جانب وزیر اعظم نریندر مودی سب کا ساتھ سب کا وکاس(ترقی) کی بات کرتے ہیں دوسری جانب انہی کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی حامی جماعتوں کے افراد اور ذمہ د اران بھارت کی سیکولر شبیہ کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔مرکزی وزیروں نے تو یہ تک عندیہ دیا ہے کہ حکومت تبدیلی مذہب کو روکنے اور کسی مذہب کی ترویج پر پابندی لگانے کیلئے قانون سازی پر غور کررہی ہے۔ ہندو مذہب کو اس سے مبرا رکھا جائے گا، کیونکہ ہندو لیڈروں کے بقول یہ تبدیلی مذہب کے بجائے گھر واپسی کے زمرے میں آتا ہے۔
اوباما کے دورہ کے آخری دن کے لیکچر سے قطع نظر حکومت اور بی جے پی، اعلامیہ میں نیو کلیر معاہدے سے لے کر لشکر طیبہ،حقانی گروپ اور Dکمپنی کے متعلق امریکی صدر کے تاثرات کو کامیابی گر دانتی ہے۔ مگر بعض سیاستدان، تجزیہ نگار ، دانشور اور صحافی ایسا تاثر دے رہے ہیں، جیسے اوباما نے پاکستان نہ جا کر بھارت پر کوئی بہت بڑا احسان کیا ہو۔ دلی کا استدلال ہے کہ ماضی قریب تک امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا حلیف رہا ہے اور اب بدلتے ہوئے عالمی وعلاقائی جیو پولٹیکل حالات میں امریکیوں کو بھارت کی کلیدی اہمیت کا احساس ہورہا ہے ۔ امریکی اگر کسی کے غلام در غلام ہیں تو وہ ان کے اپنے عزیز مفادات ہیں۔ ان مفادات کی خاطر کبھی کبھی ریاستوں کو کمزور کرنے کیلئے سرکاروں کے مخالف باغی ایجاد کر کے ا نہیں زیر زمین کارروائیاں کرنے کے لئے اسلحہ ،روپیہ اور ہر طرح کی لاجسٹک ضروریات فراہم کرتے ہیں اورکبھی اپنی ہی ہاتھوں پر وان چڑھی ان زیر زمین تحریکوں کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہیں اور کبھی ثالثی کارول نبھا تے ہیں۔ پوری دنیا کو جمہوریت کا سبق پڑھانے اور بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لئے مبارک بادیاں دینے والے امریکہ نے کس طرح مصر میں اخوان المسلمین اور فلسطین میں حماس کی جمہوری طور
منتخب حکومتوں کو اولین فرصت میں ختم کر کے ہی دم لیا۔اگربی جے پی حکومت اس با ت پر جشن منا رہی ہے کہ امریکیوں کے لئے اب پاکستان کی کوئی اہمیت نہیںرہی تو اس کے پاس اس کی کیا ضمانت ہے کہ کل بھارت کے ساتھ بھی امریکہ پاکستان جیسا سلوک نہ کرے گا؟ ظاہر ہے موجودہ حالات میںامریکیوں کے لئے اس موافق ماحول میں بھارت سے زیادہ فائدہ مند دوست ملنا قدرے دشوارہے ،پھر بدقسمتی یہ بھی ہے کہ دلی سرکار کی ترجیح اپنے ملک کے فائد ے یا نقصان سے زیادہ پاکستان کو نیچا دکھانا ہوتی ہے۔ساتھ ہی امریکہ کو خطے میں چین کو قابو میں رکھنے کے لئے بھی بھارت سے بہترین معاون نہیں مل سکتا ۔ غرض امریکہ جو بھی جنوبی ایشیا میں کر رہا ہے محض اپنے نجی مفادات کے لئے کر رہا ہے۔۔ اگر چہ اس بات پربغلیں بجائی جاسکتی ہیں، کہ امریکہ نے لشکر طیبہ، حقانی گروپ اور چند دیگر تنظیموں پر پابندی عائد کردی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرکے مسائل کا حل نکلنا ممکن ہے؟زیر زمین تنظیمیں کہیں بھی ہوں اور ان کا مقصد کچھ بھی ہو ،ا نہیںویسے بھی اپنی سرگرمیاں چلانے کیلئے کسی کے اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان سے نپٹنے کے لئے شاید دوہی طریقے موزوں ہوسکتے ہیں :ایک تو انہیں مکمل طور سے میدان جنگ میں پسپا کیا جائے جیسے سری لنکا میں ایل ٹی ٹی ای کا حشر ہوا،ا ور اس کے ساتھ ساتھ ان حالات کا بھی احاطہ کیا جائے ، جن حالات میں یہ پنپتی ہیں۔اگر بھارت، پاکستان یا دوسرے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ سارے معاملات باہمی اشتراک اور عدل و انصاف کی بنیاد پر حل کرنے میں سنجیدگی دکھائے تبھی امریکی دوستی کے بھی اچھے ثمرات سمیٹے جاسکتے ہیں۔ ورنہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ بھارت کے ساتھ مختلف معاملات طے کرتے وقت ا سے اپنی فطرت کے مطابق بلیک میل بھی کرے گااور تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ضرور کر ے گا۔