اس ماہ کے او اخر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اپنا دوسرا عوامی بجٹ پیش کرے گی ۔چونکہ پچھلے کئی ماہ سے حکومت نے صنعتی گھرانوں کا پیٹ بھرنے کیلئے سماجی شعبوں میں جس طرح کٹوتیاں کی ہیں، اس سے بجٹ کے حوالے سے نئے خدشات پیدا ہونا فطری ہے۔ مزید یہ کہ وزیر خزانہ ارون جیٹلی بھی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ دوسرے مرحلہ کی اقتصادی اصلاحات کا سلسلہ شروع کردیا جائے گا ۔رواں سال کے تخمینے پر نظر ثانی کے بعد مودی حکومت نے صرف تعلیم کی مد میں ہی ایک کھرب دس ارب روپے کی کٹوتی کی ہے۔پنچایت راج، دیہی ترقی اور صحت و صفائی کے بجٹ میں تو25فی صدتک کی کمی کردی گئی ہے۔ صحت عامہ کے سالانہ بجٹ میں بھی 20فی صد یعنی چھ ارب روپے کی تخفیف کردی گئی ہے۔ اس کا منفی اثر دارالحکومت دہلی میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں سوائن فلو کے پانچ سو سے زائد کیس سامنے آئے ہیں اور راجستھان سمیت دیگر کئی ریاستیں اس بیماری کی زد میں ہیں یہاںتک کہ سابق وزیر اعلی اشوک گہلوت بھی اس مرض کا شکار بنے ۔نسبتاً ترقی یافتہ صوبے راجستھان کے کئی اضلاع سے خبریں آرہی ہیں، کہ پچھلی حکومت کے ذریعے شروع کی گئی مفت دوائیوں کی ترسیل روک دی گئی ہے۔
اسی طرح غریبوں کو روزگار فراہم کرنے کی سب سے بڑی سکیم ، مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی یعنی منریگا کے بجٹ میں بھی 45 فی صد کٹوتی کی گئی ہے ۔رواں مالی سال میں حکومت نے ابتک اس سکیم کے لئے ریاستوں کو فقط ایک کھرب 36ارب روپے ہی جاری کئے ہیں۔ اس سکیم کے تحت دیہی علاقوں میں حکومت کو فی شخص سودن کا روزگار دینے کاپابند کردیا گیاتھا۔سال 2012-13 ء کے بجٹ میں منریگا کے لئے 3کھرب روپے فراہم کئے گئے تھے جس کے نتیجہ میں دیہی علاقوں کے چار کروڑ اسی لاکھ خاندانوں کو روزگار ملا ۔ نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن کے ایک جائزہ کے مطابق اس پروگرام کے تحت دیہی علاقوں کے کل خاندانوں میں مزید 19 فی صد خاندان روزگار حاصل کرنا چاہتے تھے مگر انہیں کام نہیں ملا۔ فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے بارے میں ایک سرکاری کمیٹی نے اس کا دائرہ کار 67فی صد سے کم کرکے 40فی صد کرنے کی سفارش کی ہے۔عوامی فلا ح و بہبود سے تعلق رکھنے والے دیگر کئی شعبوں میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے ۔یعنی موجود حکومت کے بر سر اقتدار آنے کی صورت میں جن خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا وہ درست ثابت ہو رہے ہیں۔اور تو اور جہاں اس وقت دنیا میں تیل کی قیمتیں تیزی سے نیچے آئی ہیں۔بھارت میں اس کا فائدہ عام صارفین تک ابھی بھی نہیں پہنچا۔ ہاں اس کا فائدہ ہوائی کمپنیوں کو ضرور منتقل کیا گیا۔ دنیا میں بھارت اس وقت واحد ملک ہوگا ، جہاں جیٹ پٹرول 46روپے اور عام استعمال میں آنے والا ڈیزل 52روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ جیٹ فیول کی قیمتوں میں مودی حکومت نے پچھلے سات ماہ میں چار بار کمی کی ہے۔اس تخفیف کے باوجود ہوائی کمپنیوں نے کرایوں میں کوئی کمی نہیں کی۔ سول سوسائٹی کے نمائندوںکے مطابق بھارت میں سرکاری بجٹوں کی تیاری میں کئی نامعلوم مشکلا ت اور عوامل سد راہ بنے ہوئے ہیں ۔ گزشتہ 15 سالوں میں مرکزی اور صوبائی حکومتوںنے جو مالی پالیسی اختیار کی اس میں سماجی شعبہ کے متعلق بجٹ مختص کر تے وقت غیر مستقل اور وقتی نوعیت کے فیصلہ کئے گئے تاکہ سرکاری اخراجات کا حجم اگر بڑھنے لگے تو ان شعبوں کے بجٹ کو کم کیا جاسکے۔چنانچہ ا س کا فلاحی سکیموں پر منفی اثر پڑا ۔ معاشرے کے کمزور طبقات جیسے دلت ، قبائل ، اقلیتیں، بچے ، اور معذور افراد کی ٖفلاح اور ترقی کی سکیمیں کاغذوں پرنظر آتی ہیں۔ شمولیاتی ترقی کا نعرہ محض سراب بنا ہوا ہے۔
تیسری دنیا کے اکثر ملکوں کی طرح بھارت میں بھی ٹیکس نظام بڑا کمزور ہے ۔ اس سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو کل مجموعی پیداوار یا جی ڈی پی کا فقط 17.9 فی صدحاصل ہوتا ہے۔ برازیل میں یہ تناسب 35 فی صد ، چین میں 25 فیصد ، جنوبی افریقہ میں 28فی صد اور روس میں 35فی صد ہے۔ یہ تمام ممالک برکس گروپ کے رکن ہیں جس کا بھارت بھی رکن ہے ۔ ہر سال بھارت میں حکومت اس کے باوجود صنعتی گھرانوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دیتی ہے، مگر مڈل کلاس کا گریبان پکڑنے میں اسے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔ سال 2013-14ء میں ٹیکس رعایت ، معافی اور دیگر مراعات کی شکل میں بڑے بڑے صنعتی گھرانوں اور کارپوریٹ گروپوں کو تقریباً57کھرب 29ارب روپے کی ہوشربا چھوٹ دی گئی، جو جی ڈی پی کے پانچ فی صد سے بھی زیادہ ہے ۔ اس طرح کی ٹیکس کی چھوٹ یا معافی معمول بن گیا ہے ۔ مالی سال 2014-15ء کا بجٹ نئی حکومت کا پہلا بجٹ تھا ۔ بجٹ پیش کرنے سے قبل اس نے کئی نئی پالیسیوں کا اعلان کیا تھا جس میں دفاعی شعبہ میں راست بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت ، اور ماحولیاتی ضابطوں میں تبدیلی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ا س سال کا بجٹ 17کھرب 94ارب تک جاسکتا ہے ۔ اس میں سے د و تہائی بجٹ مرکز اور ریاستوں کے درمیان طے شدہ منصوبوں اور ایک تہائی بجٹ سود کی رقم اور روز مرہ کے مصارف پر مشتمل ہے۔ مسلمان ،ملک کی تمام اقلیتوں کا 70فی صد سے زائدہیں ۔ لیکن ان کی سماجی اور معاشی حالت دیگر تمام فرقوں اور طبقات کے مقابلے میں میں سب سے خراب ہے ۔ اس کی تصدیق سچر کمیٹی اور مشرا کمیشن دونوں نے کی ۔مگر انتہا یہ ہے کہ رواں سال کے بجٹ میں قبائلی امور کی وزارت کے لئے44ارب 98 کروڑ روپے ، سماجی انصاف کی وزارت کو 62ارب 13کروڑ روپے جبکہ اقلیتی امور کی وزارت کو فقط 37ارب 34کروڑ روپے فراہم کیے گئے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف بھارت چاند اور مریخ پر کمندیں ڈال رہا ہے اور جدید تریں دفاعی ہتھیاروں پر پانی کی طرح رقوم بہارہا ہے،لیکن دوسری طرف عام آدمی کی فلاح و بہبود کے لیے بہت کم رقوم مختص کی جارہی ہیں۔ ملک میں میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں مطلوبہ وزن سے کم بچوں کا تناسب بہت زیادہ ہے ۔ بڑی وجہ غذائیت کی قلت ہے، غلہ کی خرید ،اس کی ذخیرہ اندوزی اور ناقص تقسیم کا نظام اس کا براہ راست ذمہ دار ہے۔بچوں کے بارے میں جو جائزے سامنے آئے ہیں ان کے مطابق نچلے طبقات کے بچے کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہیں ۔ بچوں کی مربوط نشوونما کے متعلق پروگرام ICDSکے مشن موڈ میں بچوں کی مجموعی ترقی اور نشوونما کے لئے آئندہ مالی سال میں28ارب 45 کروڑ روپے کا تخمینہ پیش کیا گیا ہے ۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق شہری علاقوں کی کچی اور گندی بستیوں میں ایک کر وڑ 37 لاکھ خاندان رہتے ہیں ۔ اسی طرح خط افلاس کے نیچے رہنے والوں کی حقیقی حالت کا پتہ لگانے کے لئے ملکی سطح پر سروے کرانے کی ضرورت ہے، کیونکہ ماضی میں اس طرح کے جائزے شکوک و شبہات کا شکار ہوتے آرہے ہیں۔ غیرجانبدارانہ سروے سے معلوم ہوگا کہ شہری علاقوں میں رہنے والے غریبوں کی مجموعی حالت کس قدر خراب ہے ۔ بھارت میں صحت کے شعبہ میں افرادی قوت کا بڑا فقدان ہے ۔ تقریبا 76فی صد ڈاکٹروں اور 52فی صد نرسوں کی کمی پائی گئی ہے۔ بھارت میں علاج پر اخراجات کا مالی تخمینہ کل صحت بجٹ کا 58فی صد ہے ۔ اس میں سے 60 فی صد رقم دوائوں پر صرف ہوتی ہے ۔ سال 2010-12ء میں زچہ میں شرح اموات ایک لاکھ پر 178تھی۔ چنانچہ زچہ بچہ کی صحت کے پروگرام کے بجٹ میں اضافہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس وقت پورے ملک میں سرکاری سکولوں میں 9لاکھ چالیس ہزار اساتذہ کی قلت بھی ہے۔ مودی حکومت نے سوچھ بھار ت یعنی صفائی مہم کے تحت دیہی علاقوں میں فی بیت الخلاء تعمیر کے لئے 12ہزار روپے اور شہری علاقوں میں یہ رقم پانچ ہزار 333روپے دینے کی تجویز رکھی ہے، جو بہت ہی کم ہے ۔جہاں تک پینے کے پانی کاتعلق ہے، 2011ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں 56 فیصد آبادی ، کنویں ، ہینڈ پمپ اور دیگر ذرائع سے پانی حاصل کرتی ہے ۔ دیہی علاقوں کی صرف 18فی صد اور شہری علاقوں کی 62فی صد آبادی کو صاف کیاگیاپانی نلوں کے توسط سے ملتا ہے ۔