بھارت کے صوبہ مہاراشٹر میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کیلئے مختص کوٹہ کے خاتمہ، بڑے گوشت یعنی بیف پر پابندی اور ملک بھر میں ہندو تنظیموں کی طرف سے ''گھر واپسی‘‘ یعنی اقلیتوں کوہندو مذہب میں جبراً داخل کرنے کی مہم کے پیش نظر یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ مسلمان کل آبادی کا 15فیصد ہونے کے باوجود سیاسی طور پر اتنے بے وزن کیوں ہیں۔عام انتخابات کے موقعوں پر تجزیہ کار اعداد و شمارکا حوالہ دے کر بتاتے ہیں ، کہ ملک کی 545رکنی لوک سبھا کی 100سے زائد نشستوںپر مسلمان فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی مسلمان کسی پارٹی یا امیدوار کے حق میں متفق ہوکر ووٹ دیتے ہیں، تواکثریتی طبقہ یعنی ہندو بھی اکٹھے ہوکر اس کوشش کو ناکام بنادیتے ہیں۔پچھلے عام انتخابات اور حال ہی میں جموں و کشمیر کے انتخابات اس کی واضح مثال ہیں۔ ملک میں متعدد مسلمان رہنمائوں نے دلتوں اور دیگر پسماندہ ذاتوں کی طرز پر مسلم پارٹیاں بنانے کی کوششیں کیں، مگر جنوبی صوبہ کیرالا کو چھوڑ کر یہ سارے تجربے ناکام رہے ۔مثلا ًاگر کسی سیٹ پر مسلم ووٹ 15تا 30فیصد ہے، تو کسی دیگر طبقہ کے ساتھ اتحاد کی صورت میں ہی وہاں سے یہ سیٹ مسلم امیدوار سمیٹ سکتا ہے۔ مگر دیکھا گیا ہے کہ اگر ہندو قوم پرست بی جے پی بھی ایسی سیٹ سے کسی مسلم امیدوار کو میدان میں اتارتی ہے، تو ہندو متحد ہوکر اسے ووٹ دینے سے گریز کرتے ہیں، اس کی مثال راجستھان میں پچھلے سال کے ریاستی انتخابات ہیں، جہاں بی جے پی کی لہر کے باوجود اس کے ذریعے اتارے گئے مسلم امیدوار انتخابات ہار گئے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ گزشتہ9صدیوں سے مسلم حکمرانوں کی بعض غلطیوں کے باعث 'ہندو‘ لفظ مخصوص مذہب کی پہچان بن گیا ۔اسلام جو کہ ایک آفاقی سماجی نظام کا نقیب بن کر دنیا میں آیا۔ اس کے ماننے والوں نے بھارت میں کبھی بھی صدیوں سے دبے کچلے مظلوم طبقوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی اپنی حکومت اور طاقت کا استعمال کرکے ان طبقوں کو وسائل مہیا کرائے۔عہد قدیم میں بھارت میں الگ الگ مذاہب موجود تھے، جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیںتھا۔ مسلمان حکمرانوں نے ان سبھی کو ہندو کہنا شروع کیا۔ جبکہ ان کے عقائد میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ آہستہ آہستہ اس پوری آبادی نے اپنے آپ کو ہندو ماننا شروع کردیا۔ ورنہ بھارت میں ہندو طبقہ ایک طرح سے سناتن دھرم کے ماننے والوں تک ہی محدود تھا ۔ آج بھی یہ طبقہ ، جو اپنے آپ کواعلیٰ ذات کے ہندو کہتا ہے ، مجموعی آبادی کا صرف 15فیصد ہے۔
یہ 15فیصد طبقہ کس حد تک وسائل پر قابض ہے، اس کی ہلکی سی جھلک ایک سرکاری منڈل کمیشن رپورٹ میں درج ہے۔اس طبقہ کی نمائندگی سیاست میں 66فیصد، سروسز میں 87فیصد، تجارت میں 94فیصد اور 92 فیصد مالک اراضی ہیں۔ اگر اس رجحان کا مزید گہرائی سے جائزہ لیا جائے، تو اس رپورٹ کے مطابق براہمن جو آبادی کا محض3.5فیصدہیں، سیاست میں ان کا تناسب 41فیصد، سروسز میں 62فیصد ہے۔چھترذات 80فیصد مالک اراضی ہیں۔ویش ذات کا تناسب تجارت میں 60فیصد ہے۔ اس کے برعکس باقی 85فیصد آبادی جس میں دلت، قبائلی ، دیگر پسماندہ ذاتیں اور اقلیتیں آتی ہیں، سیاست میں 34فیصد، سروسز میں 13فیصد، تجارت میں محض 6فیصد اور اراضی مالکان میں ان کا تناسب صرف 8فیصد ہے۔ اقلیتی طبقوں کا حال تواور بھی برا ہے۔
اس پوری بحث کا مقصد یہ ہے کہ جب تک مسلمان وسائل سے محروم، دبے کچلے اور مظلوم طبقہ کے ساتھ اتحاد کرکے ان کی محرومیوں کے بھی نقیب بن کر کوئی سیاسی پلیٹ فارم بنانے کی کوشش نہیں کریں گے ۔ کوئی بھی خالص مسلم پارٹی نہ صرف ناکامی سے دوچار ہوگی ، بلکہ سیاست کو پولارائز کرنے کا بھی کام کرے گی۔ شمالی بھارت میں بعض مسلم رہنمائوں نے سیکولر پارٹیو ں کو سبق سکھانے کے لیے مسلمانوں کا متحدہ سیاسی پلیٹ فارم بنانے کی کئی کوششیں کیں۔ ان مسلم رہنمائوں کو شمال مشرقی بھارت کی ریاست آسام میں مسلمانوں کی زیر قیادت مختلف لسانی و مذہبی اقلیتوں کے محاذ یعنی آسام ڈیموکریٹک فرنٹ (AUDF) کی کامیابی سے نیا حوصلہ ملا ہے۔
بھارت کے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں یہ خیال راسخ ہورہا ہے کہ ہندو فرقے کے درمیانی طبقات (دیگر پسماندہ طبقات) نیز دلت فرقے اپنی سیاسی جماعتیں قائم کرکے کامیاب ہوسکتے ہیں تو مسلمان کیوں ایسا نہیں کرسکتے؟ ان مسلم رہنمائوں کی یہ بھی دلیل ہے کہ جب دونوں بڑی جماعتیں کانگریس اوربی جے پی بھی ذات اور فرقے کی بنیاد پر سیاست کرتی ہیں تو وہ کیوں نہیں کرسکتے۔ علاوہ ازیں سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی کی دلت بہوجن سماج پارٹی نے بھی انتخابات جیتنے کے بعد کئی مرتبہ بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ہے۔مگر کسی مسلم فرنٹ کے قیام سے ہندوئوں میں یہ خوف پیدا ہوگا کہ مسلمان متحد ہورہے ہیں اوراس کے نتیجہ میں ہندوبھی لازماًصف بندی کریں گے ۔ در ا صل بی جے پی کو جو سیاسی عروج ملا وہ مسلمانوں کے خلاف زبردست ہیجان انگیز ماحول پیدا کرنے کا نتیجہ تھا ۔ دلت کالم نویس چندر بھان
پرساد کا خیال ہے کہ اگر مسلمان کسی خالص مسلم پارٹی کے پرچم تلے جمع ہوتے ہیں تو اس سے بی جے پی کو ہی فائدہ ہوتا ہے ۔مگر دوسر ی طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ کانگریس اپنے اقلیتوں اور غریب طبقات کے تئیں ہمدردانہ موقف سے دور ہوتی جارہی ہے ۔ تیسری طرف علاقائی جماعتیں جیسے سماج وادی پارٹی وغیرہ مسلمانوں کی توقعات پر پورا اترنے میں قاصر رہی ہے ۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں میں ان جماعتوں کے بارے میں بد دلی کی کیفیت پائی جاتی ہے اور اس حوالے سے ان میں بے چینی او ر مایوسی بڑھتی جارہی ہے ۔ آسام میں UDF نے پچھلے اسمبلی انتخابات میں کل 126 نشستوں میں سے 65 پر مقابلہ کیا تھا اور اسے 10 نشستوں کے ساتھ نو فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔ خیال رہے فرنٹ نے صرف بنگالی مسلمان اقلیت کی تنظیموں کو ہی نہیں بلکہ قبائلی اور غیر مسلم اقلیتی تنظیموں کو بھی اس میں شامل کیا تھا جس کے قائد مولانا بدرا لدین اجمل ہیں جو دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل اور عطر کے بہت بڑے تاجرہیں ۔ بنیادی طور پر ان کا تعلق جمیعۃ علمائے ہند سے ہے تا ہم وہ کانگریس کے وزیر اعلیٰ ترون گوگوئی کی سیاسی بصیرت کے باعث بادشاہ گر کی حیثیت حاصل نہیں کرسکے جنہوں نے بودھ قبائل کی ایک علاقائی تنظیم سے اتحاد کرکے دوبارہ حکومت بنالی ۔بہر حال فرنٹ کی وجہ سے کانگریس کو کم از کم 30 نشستوں پر خسارہ اٹھاناپڑااور وہ معمولی اکثریت بھی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔