"IGC" (space) message & send to 7575

انڈیا اور بھارت میں بڑھتی دوریاں

یوں تو بھارت کے دیہی علاقوں میں غربت، تنگ دستی اور فصلوں کی بربادی سے تنگ آکر کسانوں کی خود کشیوں کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے، مگر جس طرح دارالحکومت دہلی میں پارلیمنٹ ہائوس سے محض 100 میٹر کی دوری پر ایک جلسہ کے دوران راجستھان کے ایک کسان نے پیڑ پر چڑھ کر اپنے گلے میں پھندا ڈال کر اپنی زندگی کا چراغ گل کردیا‘ اس سے نہ صرف وزیر اعظم نریندر مودی کا تاثر خراب ہوا بلکہ بین الاقوامی میڈیا اور ماہرین یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوئے کہ دہلی اور ممبئی کی چکاچوند ، ستاورں پر کمند ڈالنے اور سپر پاور بننے کے خواب کے پس پردہ بھارت کے وسیع و عریض خطے میں بے انتہا غربت کے دامن میں شدید عوامی بے چینی موجود ہے۔ شہری اور دیہی بھارت میں بڑھتے تفاوت کا یہ حال ہے کہ ایک طرف آکسفام کی رپورٹ کے مطابق بھارت دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں ارب پتیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، وہاں دوسری طرف سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1995ء سے2014 ء کے درمیانی عرصہ میں تقریباً تین لاکھ کسان ملک کے طول و عرض میں خود کشی کرچکے ہیں۔ اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت (جو دیہات میں رہتا ہے) اور انڈیا (شہری بھارت) اب دو الگ ممالک ہیں اور ان دونوں کی تقدیر ایک دوسرے سے متصادم ہے۔کانگریس پارٹی کے ایک ترجمان آر پی این سنگھ کے مطابق صرف پچھلے دو ماہ کے اندر بے موسمی بارشوں کی وجہ سے فصلوںکو ہوئے نقصان کی وجہ سے دوہزار کسان اپنی زندگیوںکا خاتمہ کر چکے ہیں اور ان میں اکثریت اقتصادی لحاظ سے خاصی ترقی یافتہ صوبہ مہاراشٹر کی ہے۔ اسی طرح ایک اندازے کے مطابق ہرآدھے گھنٹے میں ایک کسان نے خودکشی کی۔ ممبئی کے اندرا گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ ریسرچ کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے دس برسوں میں خودکشی کی شرح 15 فی ہزار کسان سے بڑھ کر 57 فی ہزار ہوگئی ہے۔ زرعی قرضوں سے متعلق ماہرین کی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 50 فیصد کسان ساہوکاروں سے قرض لیتے ہیں۔ کسان رہنما کشور تیواری کا کہنا ہے کہ سب سے بری حالت ایک ہیکٹر سے کم زمین والے کسانوں کی ہے جن کا 77 فیصد ساہوکاروں کے چنگل میں گرفتار ہے اورکانگریس کی قیادت والی سابق حکومت کی جانب سے قرض معافی کے اعلان سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کشور تیواری کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے غیرسرکاری تنظیموں نے عدالت سے لے کر انسانی حقوق کمیشن تک‘ ہردروازہ کھٹکھٹایا‘ لیکن اب تک کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
وزیر اعظم مودی کے پہلے عام بجٹ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ سماجی شعبوں میں ہوشربا کٹوتی کی گئی ہے۔ دوسری جانب دفاع، خلائی اور نیوکلیئر شعبوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ حکومت سے متعلق افراد کا ٹکا سا جواب ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت نے ٹیکس وغیرہ سے حاصل شدہ رقوم میں صوبوں کا حصہ32 فیصد سے بڑھا کر 42 فیصد کردیا ہے، اس لیے سماجی شعبوں پر رقوم کی فراہمی اب صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ مگر یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ مرکزی حکومت کے پاس مریخ اور خلائی مشن کے لیے تو رقوم کی کوئی کمی نہیں مگر اپنی رعایا کو پینے کا پانی، پاکیزہ ماحول، روٹی ، کپڑے جیسی بنیادی ضروریات کے لیے پیسہ نہیں ہوتا۔ مالی خسارہ کے حجم کو جی ڈی پی کے 4.1 فیصد کے ہدف تک محدود رکھنے کے لیے حکومت نے صحت ، زراعت اور تعلیم پر بڑے پیمانے پر نشترچلایا ہے۔ 60 سال قبل زرعی سیکٹر کا حصہ مجموعی قومی پیداوار میں 51 فیصد ہوتا تھا جو گھٹ کر محض14 فیصد رہ گیا ہے جبکہ اب بھی ملک کی 67 فیصد آبادی زراعت پر ہی گزر بسر کرتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمارکے مطابق بھارت کی 22 فیصد آبادی یعنی 260 ملین افراد صرف 33 روپے یومیہ (شہری علاقوں میں) اور27 روپے یومیہ (دیہی علاقوںمیں) کمانے کی استطاعت رکھتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آبادی کا بڑا طبقہ غذائی اجناس خریدنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتا۔ انتخابات سے قبل اس طبقے کے ووٹ بٹورنے کے لیے سابق حکومت نے فوڈ سکیورٹی قانون پاس کرا یا تھا جس کے تحت مستحقین کو فی کس ہر ماہ پا نچ کلو رعایتی نرخ پر چاول (تین روپے فی کلو ) گندم دو روپے کلو اور باجرا یا جوارایک روپے فی کلو کے حساب سے فراہم کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔ مستحقین کی شناخت کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں کی تھی‘ اس سے نہ صرف 22 فیصد خط افلاس سے نیچے والے لوگوں بلکہ ملک کی 67 فیصد آبادی کو بھی مستفید ہونا تھا مگر موجودہ حکومت اس قانون کومختلف حیلے بہانوں سے لاگو کروانے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔
ایم ایس سوامی ناتھن فائونڈیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی مشترکہ طور پر تیار کردہ ایک رپورٹ(The State of Food Insecurity in Urban India) میں بھی بتایا گیا تھا کہ بھارت کے غریب صوبوں میں ہی نہیں بلکہ امیر صوبوں جیسے آندھرا پردیش، گجرات، ہریانہ اورکرناٹک کے شہری علاقوں میں بھی غذا کا مسئلہ سنگین بنتا جارہا ہے۔ دیگر ترقی یافتہ ریاستوں جیسے پنجاب اور کیرالا میں بھی 2006ء کے بعد صور تحال خراب ہوئی ہے۔ ایک اور قومی سروے کے مطابق معاشی عدم مساوات اور تفاوت میں اضافہ ہوا ہے جس نے خوراک کے مسئلہ کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ حکومت کے ایک ادارے کی ہی ایک اور تازہ رپورٹ کے مطابق جہاں 10فیصد کی آبادی کی آمدن میں 35 سے40 فیصد کا اضافہ ہوا وہاں90 فیصد آبادی کی آمد ن میں محض تین سے چار فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے ہر شہری کی خوراک میں سات گرام کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اچھنبے کی بات یہ ہے کہ ان حقائق کے باوجود لاکھوں ٹن اناج سرکاری گوداموں میں نا مناسب اور ناکافی حفاظتی اقدامات اور سرکاری عملے کی لا پروائی کے سبب برباد ہو رہا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو حکم دیا تھا کہ اس ا ناج کو غریبوں میں مفت تقسیم کیا جائے مگر حکومت نے اس کی تعمیل نہیں کی۔
ملک میں ایک اندازے کے مطابق اناج کی مجموعی پیداوار241 ملین ٹن ہے جبکہ فوڈ سکیورٹی قانون کے اطلاق کے بعد اناج کی ایک چوتھائی پیداوار پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے لیے درکار ہوگی ۔ ملک میں اب بھی عام آدمی کی غذا کی مقدار نہ صرف بہت کم ہے بلکہ غذائیت کے اعتبار سے بھی اس کا معیارناقص ہے۔ اگر ایک عام بھارتی شہری غذا کے معاملے میں فرانس اور اٹلی تو دورکی بات چین کی بھی ہمسری کرنے لگے تواناج کی زبردست قلت پیدا ہوجائے گی۔ اسی لیے کانگریس کے مقتدر لیڈر ڈگ وجے سنگھ نے غربت کے پیمانے کو آ مدن کے بجائے غذائی قلت اور خون کی کمی سے جوڑنے کی وکالت کی ہے جس کا آسانی سے پتا لگایا جاسکتا ہے۔
بہر حال، دہلی کے قلب میں راجستھان کے کسان گجندر سنگھ نے خود کشی کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ کھیتی باڑی کرنے والا کسان شدید الجھن کا شکار ہے۔ زراعت اب مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ پہلے اس میں صرف سخت محنت درکار ہوتی تھی مگر اب بیج ، کھاد اور غلے کو منڈیوں تک پہنچانے کے لیے سرمایے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس پرموسم کا بدلتا مزاج اور کسانوں کے مسائل سے بے رخی، رہی سہی کسر پوری کردیتا ہے۔ پہلے بھی کسانوں کی فصلیں برباد ہوتی تھیں مگر اب اس پر قرض کی تلوار بھی لٹکی ہوتی ہے۔ حکومت اور سسٹم سے مایوس کسانوں کو آخر اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے میں ہی عافیت نظر آتی ہے۔ مزید برآں، معیشت پرسرمایہ داروں کی گرفت مضبوط کرنے کی غرض سے لائی گئی اقتصادی اصلاحات نے اس کو مزید ظلمتوں کے حوالے کردیا ہے۔ تفاوت میں بے انتہا اضافے نے یقیناً بھارت اور انڈیا میں ایک وسیع خلیج پیدا کردی ہے جس کو پاٹنا اب ایک چلینج بنتا جا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں