"IGC" (space) message & send to 7575

جموں کی بے کس مسلم آبادی

جموں کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت کے پہلے تین ماہ عدم اعتماد، غیر یقینیت اور افراتفری سے پُر رہے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان وسیع نظریاتی اختلافات ہونے کے باعث تضادات ہونا لازمی تھے، مگر دہلی اور ہندو انتہا پسندوں کی شہ پر جس طرح اس خطے میں مسلم اکثریتی آبادی کو نیچا دکھانے اور انہیں احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، اس کا انجام مخلوط حکومت کے علاوہ ہ پورے خطے کے لیے خطرناک ہوگا، چاہے بھارتی آئین کی دفعہ 370 (کشمیر کی خصوصی پوزیشن) ختم کرنے کا مطالبہ ہو یا کشمیر کے قلب میں مخصوص ہندو بستیاں بسانے کا معاملہ‘ بی جے پی اور اس کے لیڈر اپنے بیانات اور عملی اقدامات کے ذریعے اکثریتی فرقہ کے سینوں میں میخ گاڑنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ یہ بات اب سرینگر میں زبان زد عام و خاص ہے کہ یہ وہ مفتی محمد سعید نہیں ، جنہوں نے2003ء اور 2005ء کے درمیان دہلی کے روایتی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کے بجائے ایک پر اعتماد اور کشمیری عوام کے مفادات اور ترجیحات کے ترجمان کے طور پر ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ حد یہ ہے کہ کشمیر میں ایک سپر اسپیشلیٹی ہاسپیٹل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزکا قیام بھی ہندوانتہا پسندو ںکوگوارا نہیں ہے۔ ابھی ان تنازعات کا واویلا ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ تشویشناک خبریں آنا شروع ہوئیںکہ جموں خطہ میں جنگلاتی اراضی سے قبضہ چھڑانے کی آڑ میں مسلمانوں کو جبراً اپنے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ جموں میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے مسلمان گوجروں اور بکر والوں کی بستیوں کو ٹھنڈی ، سنجواں ، چھنی ،گول گجرال ، سدھرا ، ریکا ، گروڑا اور اس کے گرد و نواح سے ہٹایا جا رہا ہے۔ یہ زمینیں مہاراجہ ہری سنگھ کے حکم نامہ کے تحت 1930ء میں ان لوگوں کو دی گئی تھیں۔ دراصل جموں کا پورا نیا شہر ہی جنگلاتی اراضی
پر قائم ہے اور صرف مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنانے کا مطلب مسلمانوںکو اس خطے سے بے دخل کرنا ہے، جہاں وہ پچھلے 60 برسوں سے حاشیہ پر چلے گئے ہیں۔ ایک طرف جہاں ان غریب اور بے کس مسلمانوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے، وہیں دوسری طرف مغربی پاکستان کے ہندو مہاجرین کی باز آبادکاری اور وادی میں پنڈتوں کی علیحدہ کالونیوںکے قیام کے لیے حکومت خاصی سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔ جموں کے دیگر مسلم اکثریتی خطوں‘ چناب ویلی اور پیر پنچال میں ایک دہائی سے زائد سکیورٹی ایجنسیوں کی شہ پر ویلج ڈیفنس کمیٹیوں (وی ڈی سی) نے اکثریتی طبقے کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ عسکریت سے نپٹنے کے لیے ان علاقوں میں سویلین افراد پر مشتمل فورس بنائی گئی، جو نہ سرکار کے تابع ہے اور نہ ہی کسی کو جوابدہ اور ان میں صرف ہندو اقلیتی افراد کو بھرتی کیا گیا ہے۔ ان خطوں میں اس فورس کے ذریعے ، اغوا، تاوان، زیادتیوں کی وارداتیں عام ہیں، اور ظاہر ہے کہ خمیازہ مسلم آبادی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
مسلم آبادی کو اور احساس محرومی کا شکار کرنے کے لیے اب تاریخ بھی مسخ کی جارہی ہے، تاکہ یہ باور کرایا جائے کہ جموں کے نجات دہندہ ڈوگرہ حکمران ہی تھے۔ اکھنور میں جیا پوتا کے مقام پرتو کئی سالوں سے مہاراجہ گلاب سنگھ کاجنم د ن منایا جا تا ہے۔ان کا ایک مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ شعوری طورپر کوشش کی جارہی ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ اوران کے جانشین راجگان کو تاریخ کا ہیرو بناکر پیش کیاجائے۔اس خطے کے ایک مقتدر لیڈر اور قلم کار کرشن دیو سیٹھی نے حال ہی میں اس روش کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ
جموں کے اصلی ہیرووں کی یادوں کو لوگوں کے ذہن سے محو کردینے کے مترادف ہے۔ یہ کوشش ڈاکٹرکرن سنگھ اوران کے کاسہ
بر دار متواتر کرتے رہے تاکہ ان کو ہیرووں کا وارث قراردے کر اس خطہ میں جاگیر دارانہ نظریات کااحیائِ نو ہو۔ یہ بھی کوشش ہو رہی ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے جنم دن 7 اکتوبر کو سرکاری چھٹی ڈیکلیئر کرائی جائے۔ مہاراجہ رنبیر سنگھ کے بت نصب کرنے کا بھی اقدام کیا جا رہا ہے۔ مہاراجہ ہری سنگھ کاجنم دن بھی منانے کی روش چل پڑی ہے۔ سیٹھی صاحب کے بقول اس خاندان کے مہاراجوں میں سے صرف مہاراجہ پرتاپ سنگھ کو باقی رکھا گیا ہے۔ معلوم نہیں کن وجوہ کی بنا پر ان کو چھوڑ کر باقی اس خاندان کے سارے مہاراجوں کو ہیرو قرار دیاجارہاہے اور انتہائی افسوس ہے کہ جموں کے باشعور سیاسی کارکنوں، سماجی تنظیموں‘ تاریخ کے ماہروں اور دانشوروں ، ترقی پسندوں، ادیبوں، شاعروں اور محققین نے تاریخ کو مسخ کرنے کے ان واقعات اور جاگیر دارانہ نظریات کے احیائِ نو پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جاگیردارانہ لوٹ کھسوٹ کرنے والے مہاراجوں، جبر وتشدد کرنے والے مطلق العنان راجواڑوں اورعوامی مفادات بیچ کر اقتدارحاصل کرنے والے حاکموں کو تاریخ ساز ہیرو قرار دینا تاریخ کے ساتھ سب سے بڑی بے انصافی ہے۔انہوں نے اس ریاست میں راج کن وسائل اور ذرائع سے حاصل کیا ،وہ تاریخ میںدرج ہے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے پہلے جموں کے عوام پھر لاہورکے سکھ دربار سے بے وفائی کرکے جبر وتشدد کے ذریعہ جموں و کشمیر کی ریاست میں اقتدار حاصل کیااوران کے لواحقین جانشین بن کر جاگیر دارانہ لوٹ کھسوٹ کرتے رہے توبھلاانہیں جموں کا ہیرو کیسے قرار دیا جاسکتاہے؟ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پیش قدمی کرکے جموں کو فتح کرنے کی کوشش کی تو جموں میں اس کی زبر دست مدافعت ہوئی۔ جموںمیں لاہور دربار کے خلاف زبر دست گوریلا لڑائی لڑی گئی، جس کی قیادت میاں ڈیڈو اوردوسرے کئی ڈوگرہ سرفروش کررہے تھے۔ راجہ گلاب سنگھ کے والد اور خود گلاب سنگھ نے ڈوگرہ سرفروشوں کو پیٹھ دکھ کر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازمت اختیار کرکے ڈوگرہ مدافعتی جنگ سے دامن بچایا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کاایجنٹ بن کرمیاں ڈیڈو اوردوسرے کئی ڈوگرہ جیالوں کو قتل کیا۔ڈوگرہ مدافعت کو کچلنے، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کو جموں میں وسعت دینے اورڈوگرہ سرفروشوں کو قتل کرنے کے عوض راجہ گلاب سنگھ کو جموں کی باجگذار ریاست عطا ہوئی۔لاہور دربار کو خوش کرنے کیلئے میاں ڈیڈو کے علاوہ جسروٹہ ، بلاور ، بسوہلی ،بھمبر، ٹکری، کرمچی ،کشتواڑ، بھدرواہ، سراج، کوٹلی، راجوری، پونچھ ، میر پور اور دوسرے علاقوں کے راجگان کے سرقلم کئے گئے،انہیں ملک بدرکیا گیا۔کھالوں میں بھوسہ بھر کردرختوں کے ساتھ لٹکایا گیا اور وحشت اور بربریت کا دور جاری کیاگیا۔لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جب سکھ سلطنت کا زوال شروع ہوا اورانگریزوں نے پنجاب پر چڑھائی کی تو جموں کے یہ ہیرو لاہورکے دربار سے غداری کرکے انگریزوں سے مل گئے ۔ اس خدمتِ خاص کے عوض اور75 لاکھ روپے نانک شاہی کی رقم جو انگریزوںنے تاوان جنگ ڈالا تھا‘ کی ادائیگی کرکے ''بیع نامہ امرتسر‘‘ کے ذریعہ کشمیر کا صوبہ راجہ گلاب سنگھ نے حاصل کیا۔ 1846ء سے 1947ء تک جموں کے ہیرووں کے اس خانوادے نے جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ تاریخ میں رقم ہے۔ کرشن دیو سیٹھی پوچھتے ہیں کہ ایک صدی تک اس قدر استحصال ، جبر اورظلم کرنے والاخانوادہ اوراس کے جانشین جموں کے ہیرو کیسے ہوسکتے ہیں؟ ان کا کہنا ہے کہ جموں کے اصل ہیرہ 'میاںڈیڈو، کیسری سنگھ‘ پونچھ کے را جہ علی خان، سبز علی خان، شمس خان‘ بھمبرکے راجہ سلطان خان وغیرہ اَن گنت لوگ ہیں جنہوں نے لاہور دربار کی توسیع پسند ی اور اپنی آ زادی کی حفاظت کے لئے جانیں قربان کردیں۔ انگریزوں کے خلاف لڑائی میںدھنونتری بھاگ مل وغیرہ بے شمار مجاہدین آزادی ہیں جنہوں نے زبردست کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ جدو جہد آزادی میں سردار بدھ سنگھ ، راجہ اکبر خان ،چوہدری غلام عباس وغیرہ کے نام آتے ہیں جنہوں نے راجواڑہ شاہی کے خلاف مجاہدانہ لڑائی لڑی۔ عوامی نکتہ نظر سے اس سے بھی پہلے باواجیتو کانام آتاہے جنہوںنے جاگیردارانہ ظلم وتشدد کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے جان قربان کردی۔ یہی لوگ تاریخ جموں کے ہیرو ہیں‘ مگر ہندو انتہا پسندی کی آڑ میں خطے میں جاگیردارانہ نظریات کے احیائے نوکی تحریک شروع ہوچکی ہے۔ راجگان کو تاریخ جموں کاہیرو ثابت کرنے کی مہم کاآغاز ہوچکاہے ، تاکہ جموں میں بسے مسلمانوں اور کشمیر کے اکثریتی فرقے کو ایک بار پھر بے طاقت اور سیاسی طور پر بے وزن کیا جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں