"IGC" (space) message & send to 7575

بھارت میں دو مسلمانوں کی اموات کا احوال

کیا ستم ظریفی ہے کہ گزشتہ ہفتے جہاں بھارت کے ایک انتہائی جنوبی قصبہ رامیشورم میں بھارت کے سابق صدر عبدالکلام کی پورے سرکاری اور فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین کی جا رہی تھی، وہیں ملک کے اقتصادی مرکز ممبئی میں 1993ء کے بم دھماکوں کے مجرم یعقوب میمن کو سزائے موت دینے کے بعد ایک ہجوم کی موجودگی میں لحد میں اتارا جا رہا تھا۔ اگرچہ دونوں اشخاص کا موازنہ کرنا بے جا ہو گا، مگر دونوں کا آخری سفر، ملک بھر میں سیاسی گفتگو کا محور رہا۔ عبدالکلام جہاںعالی مرتبی کی ایک مثال اپنے پیچھے چھوڑ کر گئے، میمن نے انصاف کے طریقہ کار پر کئی سوال کھڑے کئے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ عبدالکلام بھارت کے عام آدمی کے صدر تھے، تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ شاید اس آئینی عہدے پر فائز ہونے والے پہلے ایسے فرد تھے، جن سے عام آدمی، خاص طور پر بچے اور طالب علم خاصا انس رکھتے تھے۔ منکسرالمزاج اور حلیم الطبع کلام گو سائنسی میدان کے بہت بڑے شہسوار نہیں تھے، راکٹ سائنس کو چھوڑ کر باقی شعبوں میں ان کی مہارت معمولی ہی تھی، مگر ان کے ذاتی صفات اور جونیئر سائنسدانوں کے لیے ان کے طریقہ رہنمائی نے ان کو ممتاز کیا۔ خلائی تحقیقی ادارہ انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) اور دفاعی تحقیقی ادارہ، ڈیفنس ریسرچ ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او)کی سربراہی اور دیگر شعبوں کے ہیڈ ہوتے ہوئے انہوں نے سائنسی تحقیق کیلئے ایک شفاف اور آزادانہ ماحول فراہم کرایا اور اپنی ریسرچ جونیئروں پر تھوپنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ وہ پرتھوی میزائل میں ٹھوس ایندھن کا استعمال چاہتے تھے، مگر ان کے جونیئر مائع ایندھن کے حق میں تھے۔ بجائے ان سے الجھنے کے انہوں نے مائع ایندھن سے پرتھوی کو داغنے کی ہامی بھری۔ ایک سائنسدان وی کے سراسوات کے بقول جب میزائل کئی بار آزمائشی اڑان بھرنے میں ناکام رہا، توگروپ نے کلام کی تجویزکو اپنایا۔ 
مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ 2002ء میں اس وقت کی ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت کی نظر التفات ان پر صرف اسی لیے پڑی کہ فروری مارچ 2002ء میں گجرات میں ہوئے مسلم کش فسادات کی وجہ سے مسلمانوں کی اشک شوئی کی غرض سے اور بین الاقوامی طور پر اپنے سیکولر امیج کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے کسی نمائشی مسلمان کی ضرورت تھی۔ کئی افراد کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا، آخر قرعہ فال عبدالکلام کے نام نکلا۔ بی جے پی کے ایک مسلم وزیر نے مجھے اس وقت بتایا تھا کہ بھارت میں چاہے کانگریس ہو یا بی جے پی، ان کو نمائشی مسلمان عہدوں کیلئے درکار ہوتے ہیں، جن کا کمیونٹی کے ساتھ دور کا بھی ربط نہ ہو، اور جو اپنی کمیونٹی کیلئے پاور میں حصہ داری کے لیے کوشاں بھی نہ ہو۔ عبدالکلام ان صفات پر پورے اترتے تھے۔ ممکن ہے بچپن میں عسرت و تنگدستی کی وجہ سے یا جنوبی بھارت کے اس دور افتادہ قصبہ میں ماحول کی وجہ سے کلام اسلامی تعلیمات کا باضابط مطالعہ نہیں کر پائے ہوں۔ ان کی فہم قرآنی سورہ فاتحہ سے آگے نہیں بڑھی تھی، اور اسی کے ترجمہ کو وہ اکثر موقع محل کی مناسبت سے تقریروں یا گفتگو میں استعمال کرتے تھے‘ مگر اس سے قطع نظر وہ عملی زندگی میں سادگی کی عبارت تھے۔ مجھے کئی بار ان کی معیت میں دورں کے مواقع حاصل ہوئے، دیگر وی وی آئی پی حضرات کے برعکس ایئر انڈیا ون کے دیوپیکر جہاز میں اپنے چیمبر میں مقید رہنے کے بجائے وہ پروٹوکول کے حصار کو توڑ کر صحافیوں کیلئے مخصوص حصہ میں آ کر خاصی دیر تک گفتگو کرتے تھے۔ سکیورٹی سے متعلق افراد کے لئے مخصوص حصہ میں جا کر ان کی خیریت دریافت کرنے کے بعد ہی اپنے چیمبر میں مراجعت کرتے تھے۔
خلائی تحقیقی ادارے کے کسی شعبہ کی سربراہی کے دوران ان کے ایک ماتحت سائنسدان نے ان سے ایک بار گزارش کی کہ وہ پانچ بجے چھٹی کرنا چاہتا ہے، کیونکہ اس کے بیوی بچے بنگلور میں واقع ادارہ کے وسیع و عریض احاطہ میں لگی ایک نمائش دیکھنا چاہتے ہیں۔ کلام نے ہامی بھری‘ مگر یہ سائنسدان اس کے بعد ایک تجربہ میں ایسا غرق ہوا کہ شام آٹھ بجے کام ختم کرنے کے بعد ہی اس کو اپنی فیملی سے کیا گیا وعدہ یاد آیا‘ مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ ڈرتے، کانپتے جب وہ اپنے گھر پہنچا، تووہا ں جشن جیسا ماحول تھا، افراد خانہ نہ صرف نمائش دیکھ کر آئے تھے، بلکہ تحفے تحائف سے لدے پھندے تھے۔ پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ آپ کے دفتر کے منیجر (عبدالکلام) پانچ بجے آئے تھے اور ہم سب کو نمائش دکھائی اور بعد میں شاپنگ بھی کروائی۔ اسی طرح غالباً میں 2006ء میں جرمن ریڈیو ڈوئچے ویلے کیلئے میں بھارت اور یورپی یونین کے سائنسدانوں کی ایک کانفرنس کور کر رہا تھا۔ اس میں کئی نوبل انعام یافتہ سائنسدان بھی شریک تھے۔ بطور صدر عبدالکلام خطبہ دینے والے تھے‘ مگر سٹیج پر آتے ہی انہوں نے اعلان کیا کہ ان کی تقریر کا متن جو تقسیم کیا گیا تھا، پڑھا ہوا مانا جائے، اس کے بدلے انہوں نے اپنا لیپ ٹاپ کمپیوٹر آن کرکے ایک پاور پوائنٹ پریزنٹیشن دکھانی شروع کی، جس میں سامعین میں موجود 10 نوبیل انعام یافتہ اور دیگر سائنسدانوں کی تحقیق اور زندگیوں کا احاطہ کیا گیا تھا۔ ان کے ایک سٹاف ممبر نے بعد میں مجھے بتایا کہ انہوں نے یہ پریزنٹیشن خود رات بھر جاگ کر، اور بغیر کسی کی مدد کے خود تیار کی تھی۔ اس کے ایک سال بعد جب پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کیلئے بھارت کے دورہ پر تھے، تو سفارتی رسم ادا کرنے کی غرض سے 'کال آن‘ کیلئے وہ بھارتی صدر سے ملنے ایوان صدر (راشٹرپتی بھون) پہنچے۔ ملاقات شاید 10 منٹ کیلئے مخصوص تھی کیونکہ پاکستانی وفد کی بھی کچھ اور مصروفیات تھیں اور کچھ اور سربراہ مملکت بھی سفارتی رسم نبھانے کیلئے قطار میں تھے‘ مگر عبدالکلام نے پاکستانی وفد کو بٹھا کر اپنا کمپیوٹر کھول کر انہیں ایک پریزنٹیشن دکھائی‘ جس کا نام 'دیہی علاقوں میں شہری سہولیات فراہم کرنا‘ تھا۔ اس سے قبل 2005ء میں صدر کلام نے یہ پریزنٹیشن پاکستان مسلم لیگ (ق) کے قائد چودھری شجاعت حسین اور ان کے ہمراہ وفد کو بھی دکھائی، اور کہا تھا کہ چونکہ بھارت اور پاکستان کے دیہی علاقوں کے مسائل تقریباً یکساں ہیں، اس لئے یہ تجاویز دونوں ملکوں میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں‘ مگر بھارت میں کسی حکومت نے ان کے اس پروگرام کو قابل اعتنا نہ سمجھا اور یہ ان کے کمپیوٹر تک ہی محدود رہا۔ اپنے پانچ سالہ دور صدارت میں ایک بار ایک ہفتہ کیلئے ان کے برادر اکبر اور ان کی فیملی ان کے ساتھ ایوان صدارت میں رہنے کیلئے آئی۔ کلام نے ان کی خوب خاطر مدارت کی‘ مگر ان کے جانے کے بعد ان کے کھانے اور ٹرانسپورٹ پر ہوئے خرچ کی ایک ایک پائی خزانہ میں جمع کروائی۔
ستم ظریفی یہ رہی کہ عبدالکلام کی وفات کے موقعہ پر ان کے کارناموں کو یاد کرکے ان کو بھارتی مسلمانوں کے آئیڈیل کے بطور پیش کرنے کی کوششوں پر ممبی بم دھماکوں کے مجرم یعقوب میمن کی پھانسی نے پانی پھیر دیا۔ اگرچہ کشمیری افضل گورو کے برعکس میمن کو تمام تر ممنکہ عدالتی اور قانونی چارہ جوئی کے بعد ہی تختہ دار پر لٹکایا گیا، مگر اسی دن سپریم کورٹ نے آنجہانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے تامل قاتلوں کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی صادر کیا۔ 1994ء میں ایک پُرہجوم پریس کانفرنس میں جب اس وقت کے وزیر داخلہ یہ اعلان کر رہے تھے کہ پولیس نے دہلی کے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم سے میمن کو مشتبہ حالت میں گھومتے ہوئے گرفتار کیا ہے، تو مجھے یاد ہے کہ ہال میں قہقہہ بلند ہوا۔ کوئی یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھا کہ میمن کسی ڈیل کے بغیر حکومت کے ہاتھ آیا ہو۔ حال ہی میں بھارت کی خفیہ ایجنسی کے ایک سابق اہلکار بی رمن نے اس ڈیل کا انکشاف کیا۔ مگر رمن کا یہ آرٹیکل ان کی موت کے بعد شائع کیا گیا۔ معاملہ میمن کو سزا دیے جانے سے زیادہ یکساں انصاف کا ہے۔ حیدر آباد کے ممبر پارلیمان اسدالدین اویسی کا کہنا ہے کہ یعقوب میمن کے ساتھ مسلمان ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک ہوا۔ ان کی بات میں وزن ہے کیونکہ ابھی تک 1984ء میں سکھوں کا قتل عام کرنے والوں میں کسی کو سزائے موت نہیں ملی، بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ داروں کو معمولی سی سزا بھی نہیں ملی۔ بم دھماکوں کے محرک ممبئی میں ہوئے 1992ء اور 1993ء کے بدترین فسادات کے کسی مجرم کو سزا نہیں ملی۔ اور تو اور حکومت سمجھوتہ ایکسپریس اور دیگر معاملات میں ملوث ہندو دہشت گردوں کے خلاف مقدمے کمزور کروا کر ان کو راحت پہنچا رہی ہے۔ یہ بات ذہن نشین ر کھنی چاہئے کہ انصاف ایک ایسی ٹرین کی مانند ہے، جس کے سبھی پہیے ایک ہی رفتار سے دوڑنے چاہئیں۔ صرف ایک پہیے کی حرکت سے گاڑی حرکت نہیں کر سکتی ہے، بلکہ اس کے الٹنے کا احتمال ہوتا ہے۔ شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مر ی بات۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں