"IGC" (space) message & send to 7575

کشمیر: آئینی حیثیت کو درپیش چیلنج

پچھلے69 برسوں سے لگاتار دہلی حکومت کی وعدہ خلا فیوں اور مقامی آبادی کی شناخت کو ختم کرنے کی پس پردہ سازشوں نے کشمیر میں سیاسی بے یقینی کی فضا کو کافی حد تک پروان چڑھایا ہے۔ جو لوگ کشمیر میں بھارت کے ساتھ جنگ کو ایک طرح سے ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف سمجھتے ہیں اور بھارتی آئین کی حدود میں ہی حقوق کے لئے کوشاںہیں، حالیہ دو واقعات نے ان کے ذہنوں میں بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ایک تو بھارتی وزارت دفاع کی طرف سے سرینگر ایئرپورٹ کے پاس ایک وسیع رقبے پر سابق اور حاضر سروس فوجیوں کو بسانے کا منصوبہ اور دوسرا حکمران بی جے پی کی ایک ذیلی تنظیم کے طرف سے بھارتی سپریم کورٹ میں عرضداشت، جس میں بھارتی آئین کی دفعہ 35 اے کو رد کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ اس سال جب کشمیر میں مقامی پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ (پی ڈی پی) اور ہندو قوم پرست بی جے پی کے اتحاد سے مفتی محمد سعید کی حکومت تشکیل پائی تو بتایا گیا تھا کہ بی جے پی بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے تحت کشمیر کو دیئے گئے خصوصی اختیارات کو موضوع بحث نہیں لائے گی۔ بظاہر یہ وعدہ ایفا تو ہوا مگر چور دروازے سے بی جے پی کی مربی تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ ایک تھنک ٹینک نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی، جس میں دفعہ 370 کے بدلے دفعہ 35 اے کو نشانہ بنایا گیا اور عدالت نے یہ پٹیشن سماعت کے لئے منظور بھی کر لی ہے۔ اسی دفعہ کے تحت ریاستی قانون ساز اسمبلی کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں اور اسی قانون کی رو سے ہی جموں و کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کے نوکری حاصل کرنے، ووٹ دینے اور جائیداد خریدنے پر پابندی عائد ہے۔ اگر یہ دفعہ ختم کر دی گئی تو اس کے نتائج دفعہ 370 کے خاتمے سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ مسلم دشمنی اور متعصب ذہنیت کے حامل افراد کو بھارتی آئین کی اسی طرح کی اور شقیں نظر نہیں آتیں جو دیگر علاقوں یعنی ناگالینڈ، میزورم، سکم، اروناچل پردیش، آسام، منی پور، آندھرا پردیش اورگوا کو خاص اور منفرد حیثیت عطا کرتی ہیں اور وہاں بھی دیگر بھارتی شہریوںکو غیر منقولہ جائدادیں خریدنے پر پابندی عائد ہے یا اس کے لئے خصوصی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔
دراصل یہ قانون 1927ء میں ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے کئی عوامل کی وجہ سے لاگوکیا تھا۔ ایک وجہ کشمیری پنڈتوںکا اس بات پر احتجاج تھا کہ سرکاری نوکریوں میں پنجابی اور دیگر غیر ریاستی باشندوںکا غلبہ ہوتا جا رہا ہے‘ جس سے پنڈتوں کی نمائندگی پر اثر پڑ رہا ہے۔ کشمیری مسلمان عموماً ان پڑھ اور سرکاری ملازمتوں میں برائے نام ہی تھے، اس لئے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مشرقی پنجاب کے زمیندار، کشمیری لڑکیوں سے شادیاں کرکے زمینوں کے مالکانہ حقوق مانگتے تھے۔ وقا ئع نگاروں کے مطابق تیسری وجہ مہاراجہ کا یہ خوف تھا کہ کہیں برطانوی افسران کشمیر میں مستقل رہائش اختیار نہ کر لیں، کیونکہ کشمیر اور انگلینڈ کا موسم خاصی حد تک مماثلت رکھتا تھا۔
دفعہ 35 اے دراصل بھارتی آئین کی دفعہ 370 کی ہی ایک توسیع اور توضیح ہے۔ معروف قانون دان اے جی نورانی کے بقول آرٹیکل 370 گو کہ ایک عبوری انتظام تھا کیونکہ بھارتی حکومت کی 60 کی دہائی تک یہ پالیسی تھی کہ جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے سے کیا جائے گا۔ 1948ء میں جموں و کشمیر پر بھارتی حکومت نے ایک وائٹ پیپر جاری کیا تھا‘ جس میں سردار پٹیل کا یہ بیان موجود ہے: ''الحاق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت بھارت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اسے بالکل عارضی مانتی ہے جب تک کہ اس بارے میں ریاست کے لوگوں سے ان کی رائے نہیں معلوم کی جائے گی‘‘۔ نورانی کے بقول جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی نے‘ جن کا نام آرٹیکل 370 کی مخالفت کرتے وقت بی جے پی اچھالتی ہے‘ نے اس کی مکمل حمایت کی تھی۔ بی جے پی اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل کا نام بھی اس پروپیگنڈا کے لئے استعمال کرتی ہے کہ انہوں نے اس مسئلے پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی مخالفت کی تھی‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پٹیل نے بھی آئین کی اس دفعہ کی مکمل تائید کی تھی۔ نورانی کا کہنا ہے کہ کشمیر واحد ریاست تھی جس نے الحاق کے لئے اپنی شرائط پر حکومت سے مذاکرات کئے تھے۔ وہ بھارت میں ضم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس نے الحاق کیا تھا، اس لئے ان کے مطابق آرٹیکل 370 دونوں کے درمیان ایک مقدس معاہدہ ہے‘ جس کی کسی شق کو کوئی بھی فریق یکطرفہ ترمیم نہیںکر سکتا۔ نورانی اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ این گوپال سوامی نے 16اکتوبر 1949ء کو اس سلسلے میں پہلی
'خلاف ورزی‘ اس وقت کی جب انہوں نے یکطرفہ طور پر مسودے میں تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کی لابی میں حتمی شکل دی تھی۔ جیسے ہی شیخ عبداللہ اور مرزا افضل بیگ کو اس تبدیلی کا علم ہوا وہ دونوں ایوان کی طرف دوڑے لیکن تب تک یہ ترمیمی بل پاس ہو چکا تھا۔ بقول ان کے یہ ایک افسوسناک اعتماد شکنی کا معاملہ تھا جس نے بداعتمادی کو جنم دیا۔ اگر اصل مسودہ پاس کیا جاتا تو 1953ء میں شیخ عبداللہ کو اقتدار سے بے دخل کیا جانا ممکن نہ تھا۔ اس آرٹیکل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور اس کی حیثیت مجروح کرنے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ آئین کی دفعہ 249 کے تحت جاری کردہ صدارتی حکم نامہ‘ جس کا اطلاق کشمیر پر بھی کیا گیا‘ کا تعلق ریاست کی فہرست سے تھا۔ مرکز کے مقرر کردہ گورنر جگ موہن نے اس کی توثیق کر دی تھی۔ یہ چالاکی لا سیکرٹری کی مخالفت اور ریاستی کابینہ کی عدم موجودگی میں انجام دی گئی تھی۔1951ء میںکشمیر اسمبلی کے لئے جو انتخابات منعقد کئے گئے، ان سے بھارت کے جمہوری دعووں کی کشمیر میں قلعی کھل گئی۔ انتخابی دھاندلیوںکے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے گئے۔ تمام امیدوار 'بلامقابلہ‘ 'منتخب‘ قرار پائے۔ یہ وہی اسمبلی تھی جس نے ریاست کا دستور وضع کیا اور الحاق کے دستاویز کی توثیق کی تھی۔ اس اسمبلی کے جواز پر سوال کھڑا کیا جا سکتا ہے کیونکہ پانچ فیصد سے بھی کم لوگوں نے اس کی تشکیل میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔ یہ اسمبلی ریاست کی مستقبل گری اور اس کی حیثیت طے کرنے کے سلسلے میں دستور ساز اسمبلی کا درجہ رکھتی تھی۔ کشمیر کی اس آئین 
ساز اسمبلی کی حقیقت اور حیثیت کی قلعی خود اس وقت کے انٹیلی جنس سربراہ بی این ملک نے کھول دی۔ ان کے بقول ''ان امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کر دیا گیا‘ جو حزب مخالف کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے تھے‘‘۔ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ الحاق کی دستاویز کی توثیق اور کشمیر کے آئین کی منظوری کو کوئی عوامی تائید حاصل نہیں تھی۔ بہرحال پچھلے 69 برسوں میں بھارتی حکومتوں نے آرٹیکل 370 کو اس بری طرح سے مسخ کر دیا کہ اس کا اصلی چہرہ اب نظر ہی نہیں آتا۔ کئی مواقع پر خود کشمیری لیڈروں نے اپنی عزت نفس کا خیال نہ کرتے ہوئے ان آئینی خلاف ورزیوں کے لئے راہ ہموار کی۔ اگر ایک طرح سے کہا جائے کہ آئین کی اس شق نے کشمیریوں کو سیاسی گرداب سے بچنے کے لئے جوکپڑے فراہم کئے تھے، وہ سب اتر چکے ہیں اور اب صرف دفعہ 35 اے کی صورت میں ایک نیکر بچی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ فرقہ پرست عناصر اب اسی نیکر کو اتارنے، کشمیریو ں کی عزت نیلام کرنے اور ان کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے کے لئے ایک گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں، جس کے لئے عدالتی نظام کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ عدالت میں یہ معاملہ لے جا کر آر ایس ایس نے جموں و کشمیر کی آبادیاتی ساخت کی تبدیلی کی خاطر اپنے مکروہ عزائم واضح کر دیئے ہیں۔ کانگریس کے سابق ریاستی صدر اور سابق مرکزی وزیر سیف الدین سوزکا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے اس پٹیشن کو شنوائی کے لئے منظور کرنا ہی ان کے لئے باعث حیرت ہے۔ انہوں نے کشمیر میں دیگر مقامی پارٹیوں... نیشنل کانفرنس، حکمران پی ڈی پی اور ریاستی کانگریس کو مشورہ دیا ہے کہ اس عدالتی چلینج کا مل جل کر مقابلہ کیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں