"IGC" (space) message & send to 7575

پاکستان اور بھارت کی داخلی سیاست

بین الاقوامی سیاسی اور سفارتی آداب کے ابتدائی تقاضوں میں درج ہے کہ کسی بھی ہائی پروفائل میٹنگ کی تاریخوں کے اعلان سے پہلے ایجنڈا اور دیگر امور سے متعلق ممکنہ ہم آہنگی قائم کرنے کے لئے سفارتی بیک چینل کا ایک نیٹ ورک کام کرتا ہے۔ مگر حیرت ہے کہ بھارت اور پاکستان کے قومی سلامتی مشیروںکی میٹنگ کی تاریخوں کے اعلان کے بعد اور پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیزکی دہلی آمد سے صرف 48گھنٹے قبل، کشمیری لیڈروں کے ساتھ روایتی میٹنگ کے حوالے سے ایسا واویلا برپا ہوا کہ میٹنگ ہی منسوخ کرنا پڑی۔ آخر، تاریخوں کے اعلان سے پہلے بیک چینل کے ذریعے ان امورکو کیوں نہیں نمٹایا گیا؟خارجہ امور کے اکثر ماہرین حیران ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کشمیری لیڈروں کی پاکستانی حکمرانوں اور افسروں سے ملاقاتوں پر قدغن لگا کرآخرکیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ تجزیہ کاروں کا خیال ہے، اکتوبر،نومبر میں بھارت کے دوسرے بڑے صوبہ بہار میں ہونے والے صوبائی انتخابات کے پیش نظر وزیراعظم مودی پاکستان کو سخت پیغام دینا چاہتے ہیں۔ملکی سیاست میں پاکستان کے نام پر ووٹروں کو لام بند کرنا اور سخت گیر دھڑوں کی واہ واہ لُوٹنا، بھارتی سیاست دانوںکا پرانا اور آزمودہ کھیل رہا ہے، مگرواقعات گواہ ہیںکہ ترپ کا یہ پتہ ہمیشہ کامیاب نہیں ہوا۔
اپریل2007ء میں پاکستان کے سیکرٹری دفاع کامران رسول سیاچن پر ایگریمنٹ کو حتمی شکل دینے کے لئے دہلی آئے تھے۔ان کی ملاقات سے پہلے سارک سربراہ اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم من موہن سنگھ اور ان کے پاکستانی ہم منصب شوکت عزیزکے درمیان طے پایا گیا تھا کہ پاکستان سیاچن پر بھارتی پوزیشنزکی توثیق ایک منسلک ڈاکومنٹ میں کرے گا۔اس سے قبل بھارت کا اصرار تھا کہ فوجی انخلا سے پہلے پاکستان ایگریمنٹ کے متن میں ہی بھارت کی زمینی پوزیشنزکی توثیق کرے۔ سربراہان مملکت کے ایما پر اور ان کے درمیان طے پانے والی یقین دہانیوں کی بنیاد پر پاکستانی وفد دہلی وارد ہوا مگر اچانک بھارتی وفد نے پھر وہی پرانی پوزیشن دہرائی، جس سے ناراض ہوکرکامران رسول کمرے سے باہرچلے گئے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ملاقات سے ایک دن پہلے کانگریس پارٹی کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا۔ یہ اجلاس اتر پردیش میں ہونے والے صوبائی انتخابات کی حکمت عملی طے کرنے کے لئے بلایا گیا تھا۔کانگریس کے کئی مقتدر لیڈر من موہن سنگھ پر برس پڑے کہ ایسے وقت جب اتر پردیش کے انتخابات سر پر ہیں،انہوں نے پاکستان کے ساتھ ایسا وعدہ کیسے کیا جس کو مخالف پارٹیاں ان کے خلاف الیکشن میں کیش کریں گی۔پارٹی صدر سونیا گاندھی کی تجویز پر طے ہوا کہ صوبائی انتخابات کے اختتام تک ایگریمنٹ کو لٹکایا جائے۔ پاکستانی سیکرٹری دفاع کو اسلام آباد واپس بے رنگ بھیجنے کے باوجود کانگریس اتر پردیش کا صوبائی الیکشن بری طرح ہارگئی۔اسے 403 رکنی ایوان میں صرف 22 نشستیں ملیں۔ بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایا وتی کے سر پر صوبائی قیادت کا تاج سجا جو 2012ء تک ان کے سر پر رہا۔
یہی حال مودی کا بہار میں ہے۔اس سال فروری میں دہلی اسمبلی کے انتخابات میں شرمناک شکست کے بعد وزیر اعظم نے اپنی ساری توجہ حکمرانی کے بجائے بہار اسمبلی کے انتخابات پر مرکوزکردی ہے کیونکہ یہ الیکشن بی جے پی سے زیادہ مودی کے لئے ایک سخت امتحان کی حیثیت رکھتے ہیں۔اگر انتخابی نتائج توقع کے خلاف آتے ہیں تو ان کی حکومت اور پارٹی پرگرفت کمزور ہوجائے گی اور پارٹی کے اندر ان کے مخالفین کو توانائی مل جائے گی۔ گزشتہ سال جب اسمبلی کے ضمنی انتخابات ہوئے تھے تو ان میں لالو پرساد یادو اور نتیش کمار نے ہاتھ ملالیا تھا جو اس سے قبل ایک دوسرے کے سخت حریف تصورکئے جاتے تھے۔اب حکمراں جماعت جنتادل (متحدہ) اور لالو پرساد کی راشٹریہ جنتادل کے درمیان جس خوشگوار انداز میں انتخابی مفاہمت ہوئی ہے اس نے مودی کو اس خوف میں مبتلا کردیا ہے کہ بہار میں بھی بی جے پی کا وہی حشر نہ ہو جو دہلی میں ہوا تھا۔ایک اور عنصر بھی قابل ذکر ہے۔ گزشتہ سال کے پارلیمانی انتخابات کے بعد سے جہاں بھی اسمبلی انتخابات ہوئے بی جے پی کے ووٹوںکا تناسب روبہ زوال رہا کیونکہ رائے دہندگان مودی حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہوچکے ہیں ۔2014 ء کے پارلیمانی انتخابات میں زبردست ہزیمت نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور یادو کو ماضی کی تلخیاں بھلا کر متحد ہونے پر مجبور کردیا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو اپنا سیاسی وجود کھو بیٹھتے۔ان انتخابات میں بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے نے ریاست کی 40 نشستوں میں سے31 پر قبضہ جمایا تھا حالانکہ جنتادل اورکانگریس کا مشترکہ ووٹ تناسب 46فیصد تھا۔اس کے برعکس این ڈی اے کو صرف 36 فیصد ووٹ ملے تھے۔اس سے سبق لیتے ہوئے اب ان تینوں جماعتوں نے عظیم تر اتحاد قائم کیا ہے۔ بہارکی سیاست میں ذات پات کا غلبہ ہے اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیںکرسکتا کہ وہاں کے رائے دہندگان مسائل سے زیادہ اپنی اپنی ذات(caste)کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مودی کو محض نام نہاد ترقی کے نعرے کی بنیاد پر ووٹ نہیں ملا تھا بلکہ بی جے پی نے ریاست میں انتہائی پسماندہ طبقات اور دلتوںکا اتحاد قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ بہرحال، اگر 'ذات‘ کی صف بندی کے حوالے سے دیکھا جائے تو آج بھی جنتادل اتحاد کو این ڈی اے پر سبقت حاصل ہے۔2011ء کی مردم شماری کے مطابق بہار کی آبادی میں مختلف ذاتوں اور فرقوں کا تناسب کچھ اس طرح ہے: پسماندہ طبقات(OBC/EBC) 51 فیصد ( ان میں یادو 14 فیصد) انتہائی پسماندہ طبقات یا EBC کا تناسب 24 فیصد، مسلمان 17فیصد، مہا دلت 10 فیصد، دلت 6 فیصد اور پیدائشی مراعات یافتہ اعلیٰ طبقات 15فیصد۔ بی جے پی کی پہچان اونچی ذاتوں یا اعلیٰ طبقات سے ہے مگر اس نے اپنی اس شبیہ کو بہترکرنے کی غرض سے بہاراور یوپی میں پسماندہ فرقوںکو زیادہ سے زیادہ نمائندگی دینے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ 
اگر ریاست میں دو رخی مقابلہ ہوتا ہے، جس کا روشن امکان نظر آرہا ہے تو یہ چیزجنتا دل اتحاد کے لئے سود مند ثابت ہوگی ۔ اسی طرح مسلمانوں کا ووٹ بھی اب سیکولر جماعتوں میں منقسم ہونے سے محفوظ رہے گا۔اس کے علاوہ این ڈی اے کے حامیوں کی ایک قابل ذکر تعداد، نیتش کمار کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے اسے پسند کرتی ہے۔ گزشتہ پندرہ مہینوں میں مودی حکومت کی جو کارکردگی رہی ہے وہ عام رائے دہندگان کو راغب نہیں کر سکے گی۔ ہوشربا مہنگائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ کرپشن کے یکے بعد دیگرے سکینڈل منظر عام پر آئے لیکن وزیراعظم اور پارٹی قیادت اپنے مبینہ بدعنوان ارکان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے کتراتی رہی۔اس کے علاوہ بی جے پی کی ایک اور پریشانی یہ ہے کہ وہ کوئی ایک نام وزیراعلیٰ کے امیدوارکے طور پر پیش نہیںکرسکتی۔اگر سوشل کمارکا نام اچھالا جاتا ہے تو اعلیٰ ذاتیں ناراض ہوسکتی ہیںکیونکہ ان کا تعلق پسماندہ طبقے سے ہے۔دلتوں کے ساتھ سیاسی صف بندی کے باوجود ریاست میں ذات پات کا جو منظر نامہ سامنے ہے اس کی بنیاد پر جنتادل اتحاد کو بی جے پی پر واضح سبقت نظر آتی ہے۔آزادی کے بعد پہلی مرتبہ کرائی گئی ذات شماری Census) (Casteکی رپورٹ نہ شائع کرکے مودی حکومت نے جنتادل اتحاد کو ایک اہم انتخابی موضوع دے دیا ہے۔اگرچہ بی جے پی کو پارلیمانی الیکشن کے بعد مہاراشٹر، جموںوکشمیر ، جھاڑکھنڈ اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی ملی لیکن ان ریاستوں میں کانگریس یا اس کی حلیف جماعتیں برسر اقتدار تھیں اور لوگوں میں کانگریس کے خلاف جذبات پائے جاتے تھے۔ بہار میں ایسا معاملہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں تحویل اراضی بل کے مسئلے نے بی جے پی کے حوالے سے یہ تاثر قوی کردیا ہے کہ یہ کارپوریٹ گھرانوں اور دولت مندوںکی حکومت ہے۔چونکہ بہارکی بیشتر آبادی کا انحصار زراعت پر ہے اس لئے اس کا اثرانتخابات پر پڑے گا۔ بی جے پی کا فرقہ وارانہ چہرہ بھی اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ان عوامل کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ مودی اور بی جے پی بہار میں ہندو ووٹروں کو جمع کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس صوبے میں روزکہیں نہ کہیں فرقہ وارانہ کشیدگی کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ 
پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی منسوخی اورکشمیری لیڈروں کی نظر بندی نے مودی کی ہندو سخت گیر شبیہ ایک بار پھرابھار ی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کس حد تک بہار میں اس کی کشتی کو بچا سکتی ہے۔ بہار میں ہونے والے انتخابی نتائج کا اثر اگلے سال ہونے والے تامل ناڈو اور مغربی بنگال کے انتخابات پر بھی پڑے گا۔ ناکامی کی صورت میں بی جے پی کے صدر امیت شاہ کے بارے میں بہترین حکمت ساز ہونے کا امیج بھی ملیامیٹ ہو گا اور مودی کی حکومت اور پارٹی دونوں پرگرفت ڈھیلی پڑسکتی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں