"IGC" (space) message & send to 7575

میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن

بھارتی دارالحکومت دہلی سے متصل نوئیڈا کی فلم سٹی میں موجود میرے دفتر میں چند روز قبل جنوبی بھارت کے دو صنعت کار مجھ سے ملنے آئے۔ سونے کی انگوٹھیوں اور چینوں سے لدے ان صنعت کاروںکا شان نزول یہ تھا کہ ممبئی سے دہلی آتے ہوئے جہاز میں انہوں نے ڈی این اے اخبار میں آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کے دورے سے متعلق میرا مضمون پڑھا تھا اوراس خطے سے متعلق ان کو مزید معلومات درکار تھیں۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ مضمون کے ساتھ جو تصویر شائع ہوئی ہے، کیا وہ واقعی مظفر آباد کی ہے؟ کیا واقعی مظفر آباد میں سڑکیں، یونیورسٹی، پاور پلانٹ اورہسپتال ہیں؟ ایک مشہور نیوز چینل کے اینکر نے تو یہ میسج کیا کہ سرینگر اور دہلی میں مقیم کشمیری صحافیوںکو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی، مظفر آباد کے دھوکے میں کہیں اور لے گئی تھی، آزادکشمیرکی جو تصویر یہ صحافی بیان کررہے ہیں، یہ اس کی کیسے ہوسکتی ہے؟ صنعت کاروں کے سوالات اور اس اینکر کے میسج نے مجھے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ سرحدکے دونوں طرف ساٹھ برسوں کے پراپیگنڈے نے کس حد تک ذہنوںکو پراگندہ کردیا ہے۔ آزاد کشمیر کے بار ے میں، بھارت میں تاثر یہ ہے کہ یہاں کے لوگ خط افلاس سے نیچے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ بھارت کی کرم فرمائیوں کی بدولت وادی کشمیر، سرینگر اور اس کے اطراف کے علاقے خاصے ترقی یافتہ ہیں۔
کچھ دیر ان صنعت کاروں سے باتیں کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ ان کی حیرت کی وجہ یہ تھی کہ 2005ء کے زلزلے سے متاثرہ اوڑی کے علاقے میں انہوں نے حکومت سے ایک گائوں اپنے حوالے کرنے کی درخواست کی تھی جسے وہ ازسرنو جدید لوازمات کے ساتھ تعمیرکرانا چاہتے تھے، مگر دہلی اور سرینگرمیں دفتروں کے چکرکاٹنے کے بعد ان کو بتایا گیا، چونکہ یہ علاقہ لائن آف کنٹرول کے پاس ہے، اس لئے سکیورٹی وجوہ کی بنا پر ان کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ یا تو وہ رقوم فوج کے پاس جمع کروادیں یا ان کی نگرانی میں فوج کے منتخب گائوں میںکام شروع کریں۔ انہیں حیرت تھی کہ لائن آف کنٹرول کی دوسری طرف آخرکیسے متحدہ عرب امارات، ترکی، سعودی عرب، چین وغیرہ بلاروک ٹوک کام کر رہے ہیں۔
کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز، سینٹر فار پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ ریفارمزاور کشمیر انیشی ایٹوگروپ (Kashmir Initiative Group)کی دعوت پر جب میں سرینگر کے گیارہ صحافیوں کے ہمراہ رائزنگ کشمیرکے گروپ ایڈیٹر شجاعت بخاری کی قیادت میں دہلی سے لاہوراور اسلام آباد کے لئے روانہ ہوا توکسی کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھاکہ یہ گروپ تاریخ کا ایک باب رقم کرنے والا ہے۔ نہ صرف یہ نوجوان کشمیری صحافیوں کا پہلا گروپ تھا جو ساٹھ برس میں مظفر آباد وارد ہوا بلکہ آزاد کشمیرکے مقتدر صحافیوں کے ساتھ دودن کی عرق ریزبات چیت کے بعد اطلاعات کے تبادلے کا ایک میکانزم بھی تشکیل دینے میں کامیاب ہوا۔ امید ہے، دوسرے مرحلے میں سرینگر اور آزادکشمیرکے دو مقتدراخبارات ایک قرارداد مفاہمت کو حتمی شکل دیںگے، جس کے تحت وہ خبریں اورصحافتی مواد ایک دوسرے کو فراہم کیا کریںگے تاکہ پراپیگنڈے کا توڑکیا جاسکے، نیزدونوں خطوںکے عوام بھی ایک دوسرے کے قریب آسکیں۔
آزاد کشمیرکا دورہ واقعتاً نوجوان صحافیوں کے لئے ایک منفرد تجربہ تھا۔ وادی کشمیر کی وہ نسل جو1947ء کے بعد پیدا ہوئی،کنٹرول لائن کی دوسری طرف کا جنت نظیر خطہ دیکھنے کا خواب آنکھوں میں سجائے رکھتی ہے۔ مجھے یاد ہے،اپنے بزرگوں سے ان علاقوںکی کہانیاں سن کرہم رومانوی دنیا میں پہنچ جاتے تھے۔چنانچہ مظفر آباد کا دورہ میرے لئے بھی خوشیوں سے بھرپور یادگار تجربہ تھا، جس نے ناقابل بیان درد سے بھی آشنا کیا۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ میں اس تقسیم شدہ وطن میں موجود ہوں جس کی تہذیب، ثقافت ، زبان ، رسوم و رواج سب کچھ سری نگر جیسا ہی ہے اور جہاں آنے کے لئے مجھے ہزاروں میل کا سفر طے کرنا پڑا جبکہ میں اپنے آبائی گھر سوپور سے محض سترکلومیٹر دور تھا۔ مظفر آباد میں بہنے والی دریائے جہلم کی رَو چند روز قبل ہی میرے گھر کے قریب سے گزری ہوگی۔ سوپور میں میر سید علی ہمدانی کی خانقاہ کی سیڑھیوںکو چوم کر ہی یہ آگے کے سفر پر روانہ ہوئی ہوگی۔ مظفر آباد کی سڑکوں پرگھومتے ہوئے جب میں نے ایک دکاندار سے اردو میں میر واعظ یوسف شاہ کے مقبرے کا راستہ دریافت کیا تو اس نے قدرے ناراض ہوتے ہوئے کہا،کیا آپ کوکشمیری زبان نہیں آتی؟ ایک لمحے کے لئے مجھے یہ یقین کرنا دشوار ہو رہا تھاکہ میں اپنے ہی وطن میں اپنے ہی لوگوںکے درمیان ہوں۔ آزاد کشمیرکے سابق وزیراعظم اور اب اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق حیدرکی رہائش گاہ پر جب ہم گرما گرم کشمیری نون چائے اور باقر خوانی کے مزے لے رہے تھے، اچانک میرے ذہن میں اس خیال کی لہرکوندگئی کہ یہ باقرخوانی تو سوپوراور بارہ مولہ کی روایت ہے۔ اس کا مزہ بھی ویسا ہی ہے اور بارہ مولہ تو یہاں سے صرف پچاس کلومیٹر کے قلیل فاصلے پر ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے قریب لیکن سیاسی اعتبار سے بہت دور! سیاسی تقسیم نے ان دونوںخطوںکو دوالگ الگ سیاروں میں تبدیل کردیا ہے۔
مظفرآبادکی سڑکوں پر ٹہلتے ہوئے ایک بوڑھے شخص نے ہمیں وہاںآنے والے ٹورسٹ سمجھ کر پہاڑوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے سمجھانے کی کوشش کی:''اس پہاڑ کے پاس کپواڑہ ہے،اس دوسرے پہاڑکے پار اوڑی اور بارہ مولہ۔۔۔‘‘۔ جب ہم نے اسے بتایا کہ ہم انہی علاقوں کے رہنے والے ہیں تواس کی آنکھوں میں ایک عجب طرح کی چمک آگئی۔ بارہ مولہ قصبے کا رہنے والا یہ شخص اپنے والدکے ساتھ مظفرآباد کے قریب ایک دکان لگاتا تھا۔1947ء کے واقعات پیش آنے کے بعد سے وہ ان پہاڑوںکو
مسلسل دیکھتا رہتا ہے اوردیکھتے دیکھتے اپنے آبائی قصبے کی یادوں میںکھو جاتا ہے۔ وہ بارہ مولہ کے محلوں اور اپنے بچپن کے دوستوںکے نام یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس پر عجب طرح کی سرمستی طار ی ہوگئی۔ یہی کیفیت اس شام بھی محسوس ہوئی جب مقامی پریس کلب میں ہمارے وفدکے اعزاز میں تقریب منعقدکی گئی جس میں نوعمرگلوکارہ بانو رحمت نے کشمیری اوراردو میں نغمے گا کرسامعین پر سحر طاری کردیا اور آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ میںمظفرآباد کے چوراہے پرٹھیک اس جگہ کھڑا تھا جہاں نیلم اور جہلم گھل مل جاتے ہیں۔ یہاںایک سائن بورڈ لگا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ سری نگر یہاں سے 179کلومیٹر، تاشقند578 کلومیٹر،کابل 393 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہی وہ شاہراہ ہے جسے میرے آباء واجداد لاہور، امرتسر اور دہلی جانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ تقسیم سے پہلے یہی راستہ کشمیرکو دنیا کے دیگر علاقوں سے جوڑتا تھا۔ یہ سائن بورڈ علامتی ہی سہی، مگر اس نے گروپ کو جذباتی کردیا۔ ان جذبات کی تہہ میں وہ درد چھپا تھا کہ نصف صدی قبل جو خطہ پوری دنیا کے ساتھ مربوط تھا، جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان پل کا کا م کرتا تھا، آناً فاناً وسیع و عریض جیل میں تبدیل ہوگیا۔ اب یہ خطہ تجارتی قافلوں کو راہداری دینے اوران کا استقبال کرنے کے بجائے فوجی بوٹوںکی دھمک سے لرز رہا ہے۔ 
مظفر آباد کا سری نگر سے، جسے جنوبی ایشیا میں وارانسی کے بعد دوسرا قدیم ترین شہر کہا جاتا ہے، موازنہ کرنا درست نہیں ہوگا؛ البتہ مظفرآبادکا موازنہ جموں وکشمیر کے ضلع ڈوڈا سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات، جو ہمیں اکثر بتائی جاتی ہے کہ مظفرآباد کا یہ علاقہ ترقی یافتہ نہیں بالکل درست نہیں ہے۔ یہاں نسبتاً زیادہ پرائمری سکول ہیں اور پاکستان کے مقابلے میں پرائمری کی شرح خواندگی بھی زیادہ ہے؛ البتہ اعلیٰ تعلیم اور تعلیمی معیارکے لحاظ سے یہ کافی پیچھے ہے۔ شہر سے کوئی 50کلومیٹر دور بودھوں اورہندوئوں کے تاریخی مندر شاردا کے کھنڈرات ہیں۔کسی زمانے میں یہ برصغیر میں تعلیم کا اہم مرکز تھا۔ یہ سنسکرت کے عظیم سکالرزاورکشمیری پنڈتوںکا مرکزہواکرتا تھا۔آثار قدیمہ کی ماہر ڈاکٹر رخسانہ خان جنہوں نے شاردا تہذیب کے متعدد رازوں سے پردہ اٹھایا‘ بتارہی تھیں، ایک عرصے سے گائوںکے مقامی مسلمان ہی ان کھنڈرات کی دیکھ بھال کرتے آ رہے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ چند سال قبل جب کشمیر یونیورسٹی نے ڈاکٹر رخسانہ خان کو شاردا کے کھنڈرات اور نوادرات پر لیکچر دینے کی دعوت دی تو بھارتی حکومت نے انہیں ویزا دینے سے انکارکردیا۔ ڈاکٹر خان کہتی ہیں، مجھے مجبوراً اسکائپ جیسے جدید مواصلاتی رابطہ کا سہارا لینا پڑا۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں،گو ماہرین نے ان کے لیکچرکی کافی پذیرائی کی؛ تاہم ان سے براہ راست ملاقات نہ ہونے کا قلق انہیں اب بھی ہے۔
2004ء میں وزیر اعظم واجپائی اور صدر پاکستان پرویز مشرف کے مشترکہ اعلامیہ کے نتیجے میںاور ڈاکٹر من موہن سنگھ کے ذریعے شروع کی گئی بس سروس اور تجارتی رابطے کنٹرول لائن کے دونوں طرف رہنے والے کشمیریوں کے لئے جذباتی علامت بن چکے ہیں؛ حالانکہ امرتسر اور لاہورکے تاجروںکے دبائوکی وجہ سے دونوں ملکوں کی حکومتوں نے تجارتی رابطوںکو اپنے طور پر ختم کرنے کی بھر پورکوشش کی تاہم کسی نہ کسی طرح ابھی تک اس کی سانسیں چل رہی ہیں۔ لوگوں کوامید ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی اور بے گانگیاں شائد اُسی طرح ختم ہو جائیں جیسے 1990ء کے بعد بہت سے یورپی ملکوں میں ہوا۔ جب ہم اسلام آباد اورلاہورکے راستے دہلی واپس لوٹ رہے تھے، ہمارے ساتھی صحافی محمودالرشید نے کوہالہ پل پارکرتے ہوئے کہا:''کہ باہمی فاصلوں کو قربت میں بدلنے کے لئے تخلیقی قوت ارادی کی ضرورت ہے اور یہ ہر ایک کے لئے چیلنج ہے‘‘۔ لگتا تھا پل کے نیچے جہلم کی لہریں، بانو رحمت کا وہ نغمہ مختصر سے رد و بدل کے ساتھ گا رہی ہیں۔۔۔۔۔''میرے وطن تیری جنت میں آئیںگے اک دن‘‘۔ اور ہم ان لہروںکے سُر کے ساتھ سُر ملارہے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں