غالباً 1994-95ء کی بات ہے۔ بھارت کے مغربی صوبہ گجرات میں نرمدا ندی پر بہت بڑے ڈیم ''سردار سرور‘‘ بند کی تعمیر کا سلسہ شروع ہوچکا تھا، جس سے وسطی بھارت کا ایک دور افتادہ مگر سر سبز و زرخیز علاقہ زیر آب آرہا تھا۔ قبائلیوں اور کسانوں کی زمینیںچھن رہی تھیں۔ آئے د ن اس علاقہ سے کشیدگی اور پولیس کے ساتھ ٹکرائو کی خبریں آتی رہتی تھیں۔اسی اثناء میں دارالحکومت دہلی کی انسانی حقوق کی چند تنظیموں نے فیصلہ کیا کہ ایک مشترکہ ''فیکٹ فائنڈنگ‘‘ مشن اس علاقہ میں بھیجا جائے۔ دہلی یونیورسٹی کے معروف سکالر پروفیسر موہنتی(جو بعد میں ایک شمال مشرقی صوبہ کے گورنر بنے) وفد کے سربراہ بنائے گئے ۔ میں نے بطور رپورٹنگ اور سیکریٹیریل کاموں کیلئے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔ وفد کے ایک اور رکن ماہر اقتصادیات پروفیسر اربندو گھوش تھے۔دہلی سے وسطی بھارت کے شہر اندور تک ٹرین اور بعد میں بس اور جیپ کے ذریعے دشوارگزار پہاڑی سفر کے بعد ہم آخر کار دو دن بعد سرسبز و شاداب نرمدا وادی پہنچے۔ دن بھر مختلف علاقوں کا دورہ کرنے باز آبادکاری اور دیگر امور کا جائزہ لینے کے بعد، ہم ایک اعلیٰ ذات کے پاٹل یا پاٹی دار برادری سے تعلق رکھنے والے مکھیا ( نمبردار )کے دیوان خانے میں پہنچ جاتے‘ جہاں ہماری رہائش، ناشتے اور رات کے کھانے کا انتظام ہوتا تھا۔ دیہاتی طرز کے اس دیوان خانے میں ہمیں تھالی میں کھانا پروسا جاتا تھا۔مکھیا کے نوکر سالن لا لا کر تھالی میں موجود چھوٹے کٹوروں کا پیٹ بھرتے تھے۔میر ے علاوہ وفد کے سبھی افراد ہندو تھے‘ حسب معمول ایک رات تھکے ہارے جب
ہم پاٹی دار کے دیوان خانے پہنچے، تو وہاں ماحول کچھ عجیب سا تھا۔ وہ معلوم کرنا چاہتے تھے، کہ کیا میں مسلمان ہوں؟ جب میں نے مثبت جواب دیا، توپہلے اندر کچھ کھسر پسر ہوتی رہی، بعد میں کھانا توآیا، دیگر افراد کیلئے حسب معمول تھالی بچھائی گئی، مگر مجھے کچھ دور ایک لکڑی کی کھاٹ پر بٹھا کر کیلے کے پتوں میں کھانا دیا گیا۔پروفیسر گھوش نے جب اس بے اعتنائی کی وجہ پوچھی، تو مکھیا نے برملا کیا، کہ ان کے گھر کی چوکھٹ آج تک کسی ماس (گوشت) اور مچھلی کھانے والے نے پار نہیں کی۔ ان کے دروازے کے اند اس حد تک کوئی مسلمان یا دلت ابھی تک نہیں آیا۔ گو کہ ان کے کھیتوں میں وہ کام کرتے ہیں، مگر ان کو گھر کے باہر ہی نپٹایا جاتا ہے۔ ان کا گھر ناپاک ہوچکا ہے۔ خاص طور پر یہ معلوم کرنے پر کہ گھر کی ایک تھالی کو مسلمان چھو گیا ہے، خواتین ماتم کناں ہیں۔ اب گھر پاک کرنے کیلئے اس کو گائے کے پیشاب اور بعد میں نرمدا ندی کے پانی سے دھونا پڑے گا۔ہمارے وفد نے بطور احتجاج فوراً اپنا بوریا بستر باندھا، ایک دھرم شالہ میں رات گزاری اور اگلے دن پاس کے ایک قصبہ میں ہوٹل ڈھونڈ کر وہاں ڈیرہ جمایا۔
قصہ مختصر، 21 ویں صدی میں امید تھی، کہ بھارت میں اب نو دولتیہ مڈل کلاس ان فرسودہ بندشوں سے اپنے آپ کو آزاد کرکے روشن خیالی کا ثبوت دے گی۔ مگر پچھلے سال مرکز میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ‘ان فرسودہ روایات کومزید مضبوط بنایا جارہا ہے۔ حال ہی میں ملک بھر میں بی جے پی کی زیر قیادت 9 صوبائی حکومتوں نے 9 دن تک گوشت کھانے اور اس کی فروخت پر مکمل پابندی کا حکم جاری کیا۔ اس سے قبل ملک کی سب سے ترقی یافتہ ریاست مہاراشٹر بیف یعنی بڑے جانور کے گوشت کے ذبیحہ اور اس کی فروخت پر حتمی پابندی عائد کر چکی ہے‘ اس کی تقلید کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی عدالت عالیہ نے ڈپٹی ایڈوکیٹ جنرل کی طرف سے دائر کردہ ایک غیر ضروری مفادِ عامہ عرضی پر اپنے عبوری حکم نامے میں ریاستی پولیس کو ہدایت کی ہے کہ ریاست میں بڑے گوشت پر پابندی کو نہ صرف یقینی بنایا جائے‘بلکہ پولیس سے کہا گیا ہے کہ ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے، جو بڑے گوشت کا کاروبار یا پھر اس کا استعمال کرتے ہوں۔حیران کن بات یہ ہے، کہ عدالت نے ایک ایسے قانون کو پھر لاگو کیا‘ جو ریاست میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ اس قانون کا اطلاق تقسیم سے عشروں قبل اس وقت ہوا تھا جب کشمیر پر سکھ اور ڈوگرہ مہاراجہ حکومت کررہے تھے۔عدالت کو عرضی خارج کرکے درخواست گزار کو یہ کہنا چاہئے تھا، کہ اگر اس کے علم میں کہیںبیف کا کاروبار ہورہا ہے، توجا کر پولیس میں رپورٹ درج کرائے۔
یہ بات سچ ہے، کہ کشمیر کی مخصوص ڈش یعنی وازہ وان کیلئے بھیڑکا ہی گوشت لازم ہوتا ہے، حتیٰ کہ نامی گرامی شیف بکرے کے گوشت سے وازہ وان کی ڈشیں تیار کرنے سے احترازکرتے ہیں۔ سرینگر اور اس کے اطراف یعنی وسطی کشمیر میں شاید ہی کہیں بیف یا بڑے گوشت کو کوئی استعما ل کرتا ہوگا۔ مگر جس طرح اس پابندی کا ڈھول پیٹا گیا، اس نے قدرتی طور پر وادی کے شمال و جنوب او رجموں کے خطہ چناب اور پیر پنچال میں احتجاجی لہر دوڑا دی۔ وہیں خطہ لداخ کے بدھ فرقہ میں بھی خاموش ناراضگی ہے، جو بنیادی طور پر بڑا گوشت استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ملک کی سب سے چھوٹی اقلیت جین طبقہ کے مذہبی جذبات کے احترام کے نام پر مہاراشٹر، راجستھان، چھتیس گڑھ، گجرات اور دیگر صوبوں میں بڑے گوشت کی فروخت پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ آخر اس طبقہ کے مذہبی جذبات کا خیال بی جے پی کو کیوں کر آیا؟بی جے پی کے لیڈران تو دیگر اقلیتوں کی آئے دن دل آزاری کرتے رہتے ہیں۔اس فیصلہ کے خلاف تو بی جے پی کی حلیف شیوسینا تک نے احتجاج درج کرایا ۔ کشمیر میں تواس قانون کے حامیوں اور اس کی بحالی کرنے والوں نے اسے قانون کی چادر میں لپیٹ کر پیش کیا ہے اور وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اس قانون کی
بحالی غیر سیاسی معاملہ ہے، اور ریاست کو صرف اْس قانون کا اطلاق کرنے کیلئے کہا جارہا ہے جو دہائیوں سے آئین میں شامل ہے ۔مگر لگتا ہے، کہ اس قانون کی بحالی کے پیچھے ایک بہت بڑا سیاسی منصوبہ کار فرما ہے۔یہ ایک ایسی پالیسی کے ساتھ میل کھاتی ہے جو بی جے پی پورے ملک میں لاگو کرنے کی خواہاں ہے۔ جس کے تحت یہ پارٹی بھارت کو ایک تنگ نظر ہندوتوا ریاست بنانا چاہتی ہے یا پھر ایسا بھی کہہ سکتے ہیں کہ بھاجپا ملک میں اکثریتی طبقہ کی ترجیحات کو دوسروں پر ٹھونسنا چاہتی ہے اور ساتھ ہی جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو بھی مسخ کرنا مرکز کے اس ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ متنازع قانون نہ تو کسی اتفاقِ رائے اور نہ ہی کسی قانونی زاویے سے لاگو کیا گیا تھا بلکہ یہ صرف وقت کے حکمرانوں کی خواہشات اور ایماء پر لوگوں پر جبری ٹھونسا گیا تھا۔بھارت میں بیف مسلمانوں سے زیادہ اس ملک کے اصلی باشندگان کی خوراک رہی ہے۔ مگر ان کو حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس ملک میں پچھڑے دلتوں کا صدیوں سے استحصال ہوتا آیا ہے۔ آج بھی اس ملک میں پچھڑے دلتوں کو مندر میں جانے سے سختی سے منع کیا جا تا ہے اگر وہ مندر میں جاتے ہیں تو مندر کو ناپاک سمجھ کر دھویا جاتا ہے۔ذرا ذرا سی بات پر ان کے گھروں کو آگ لگا دی جاتی ہے ان کی عورتوں کی عصمت سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔برہمن واد ہندو‘ ہندو بھائی کا نعرہ دے کر آپس میں نفرت پیدا کرتا ہے۔دلتوں کو ہندو کہہ کر ان کے جذبات کو ابھارتا ہے اور مسلمانوں سے لڑا دیتا ہے مگر جب ان کے حقوق کی بات آتی ہے تو انہیں انسان بھی نہیں سمجھتا ۔