"IGC" (space) message & send to 7575

بھارت : سرمایہ کاری کے نام پر نسل کُشی !

ایک سال کے قلیل عرصے میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس وقت اپنے 29 ویں بیرونی دورے پر امریکہ میں ہیں۔ اسی عرصہ کے دوران ان کی کابینہ کے رفقاء بھی 150 ممالک کے سرکاری دورے کرچکے ہیں۔ ان دوروں کا مقصد بھارت کو ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کے طور پر پیش کرنے سے زیادہ ملکی معیشت کو پٹڑی پر لانے اور انتخابی وعدے پورے کرنے کے لئے رقوم کی فراہمی کی خاطر غیر ملکی سرمایہ کاری کا حصول اور بیرون ملک مقیم صنعت کاروں کو بھارت میں ہی اپنے یونٹ کھولنے کی ترغیب دینا ہے تاکہ بے روزگاری پرکسی حد تک قابو پایا جاسکے۔ اس سال مئی میں مودی کے دورئہ چین کے بعد بیجنگ کی طرف سے 14بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ جاپان کی 3.5 ٹریلین ین، جنوبی کوریا کی 10 بلین ڈالر اور متحدہ امارات کی 75 سے 100 بلین ڈالر تک کی سرمایہ کاری کے وعدوں نے تو بھارتی مڈل کلاس اور صنعت کاروں میں مودی کو ایک اساطیری شخصیت بنا دیا۔ بی جے پی کے ترجمان اسے مودی کی مقناطیسی شخصیت کاکرشمہ بتاتے ہیں، مگر ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک اس سرمایہ کاری کے آثاردور دور تک دکھائی نہیں دے رہے، جس کی وجہ سے مودی کی دیو مالائی شخصیت کا بھرم ٹوٹ رہا ہے۔ نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاری کے وعدے ابھی تک کاغذوں اور اعلانات تک محدود ہیں بلکہ مودی تو اب ملکی صنعت کاروں سے بھی نالاں نظر آ رہے ہیں جس کا برملا اظہار انہوں نے حال ہی میں ملک کے بیس چنیدہ صنعت کاروں کے ساتھ میٹنگ میں کیا۔ وزیراعظم نے شکوہ کیا کہ اپوزیشن انہیںکارپوریٹ سیکٹر کے پٹھو اور 15لاکھ کا سوٹ پہننے والے جیسے القابات سے نوازتی ہے، مگر کوئی بھی صنعت کار، سہولتیں ملنے کے باوجود ملک میں سرمایہ کاری کا رسک لینے کو تیار نہیں، جس سے ان کی حکومت کی سبکی ہو رہی ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری نہ آنے اور ملکی صنعت کاروں کے لیت و لعل کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ بھارت میں صنعتی یونٹ لگانے کے لئے زمینیں حاصل کرنے کے قوانین خاصے پیچیدہ ہیں۔ مودی نے اصلاح کرنے کی کوششیں کی مگر اپوزیشن نے اسے ایوان بالا میں مسترد کردیا اور اسے کسانوں کے مفادکے خلاف قرار دیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نکسل باڑیوں یا بائیں بازو کے مسلح انتہا پسندوں نے ایسے علاقوں میں اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے جہاں پن بجلی اور دوسرے قدرتی وسائل کے ذخائر ہیں۔ اس صورت حال سے ملٹی نیشنل کمپنیاں خطرہ محسوس کر رہی ہیں۔ کئی برس قبل اس وقت کے امریکی سفیر ڈیوڈ سی ملفورڈ نے حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ اگر جنوبی یا وسطی بھارت میں نکسلی تشددکا سلسلہ جاری رہا تو امریکی سرمایہ کاری متاثر ہوسکتی ہے۔ حالت یہ ہے کہ 2015ء میں اب تک 320 افراد نکسلی تشدد کی نذر ہوچکے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں 6820 افراد ہلاک ہوئے۔ 1970ء کے اوائل میں شروع ہوئی نکسلی تحریک نے آج آندھرا پردیش‘ کرناٹک‘ بہار‘ مدھیہ پردیش‘ مہاراشٹر‘ اترپردیش اور مغربی بنگال سمیت دس ریاستوںکے کئی حصوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ سرکارکاکہنا ہے کہ نکسلی تنظیموں کے تانے بانے نیپال کی زیر زمین تنظیموںسے ملے ہوئے ہیں جو ایک ایسا Compact Revolutionary Zone قائم کرنا چاہتی ہیں جس کا دائرہ نیپال سے آندھرا پردیش تک پھیلا ہوگا۔ اس وسیع علاقے کو بائیں بازوکے انتہا پسندوں سے خالی کرانے اور صنعت کاروں کو سازگار ماحول فراہم کرنے کے لئے ان علاقوں میں آپریشن چل رہا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مائو نوازوں کے تشدد کو ختم کرنے کی آڑ میں حکومت خاموشی سے قبائلیوںکو ختم کر نے کے منصوبے پر عمل کر رہی ہے۔ پہلے گرین ہنٹ کے نام سے جس فوجی آپریشن کو عوامی دبائو پر سابق حکومت کو ملتوی کرنا پڑا تھا،اب یہ کسی نام کے بغیر جاری ہے۔ مشہور وکیل پرشانت بھوشن کہتے ہیں، خوف اس قدر ہے کہ مقامی اخبارات ریاستی دہشت گردی کے واقعات پر کچھ نہیں لکھتے۔ خود دہلی میں ان کی پریس کانفرنس کو چند اخبارات نے معمولی جگہ دی؛ حالانکہ اس میں رپورٹروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس سے میڈیا کا دوہرا رویہ بھی آشکار ہوتا ہے۔ پولیس کے تشدد کا نشانہ بنے والی خواتین سونی سوری،کواسی ہڑمے اورلنگا کوڈپی نے اس پریس کانفرنس میں دل دہلادینے والی داستانیں سنائیں۔ قبائلی یتیم لڑکی کواسی ہڑمے کو سات سال جھوٹے الزامات کے تحت جیل میں بند رکھنے کے بعد حال ہی میں باعزت رہا کیا گیا ہے۔ اسے 2008ء میں گرفتارکیاگیا جب اس کی عمر صرف15سال تھی اور قانوناً اسے گرفتار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ صرف اسی مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں کتنے بڑے پیمانے پر حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ ہڑمے نے بتایا کہ ان سات برسوںکے دوران اسے ٹارچر اور عصمت دری کا مسلسل نشانہ بنایاجاتا رہا جس کے نتیجے میں وہ مختلف امراض کا شکار ہوگئی۔ اب 22 سال کی عمر میں وہ ایام اسیری کی ابتلائوںکے سبب ایک معمر خاتون نظر آتی ہے۔ سونی سوری نے بتایا کہ گرفتاری کے بعد اس کے ساتھ انتہائی وحشیانہ سلوک کیا گیا، یہاں تک کہ اس کی شرم گاہ میں کنکر اور پتھر تک ڈالے گئے۔ انتہائی نازک حالت میں اسے دہلی لایاگیا جہاں کسی طرح اس کی جان بچائی گئی۔ یہ وحشیانہ فعل انجام دینے والے پولیس افسر انکیت گرگ کو تمغہ شجاعت سے نوازاگیا۔ سونی سوری نے دعویٰ کیا کہ کسی گائوں میں ایساکوئی واقعہ پیش آتا ہے تو پولیس غلط بیانی سے کام لیتی ہے، لیکن متاثرہ گائوںکا دورہ کرنے پر پولیس کا جھوٹ طشت ازبام ہوجاتا ہے۔ جو انتہا پسند خود سپردگی کرتے ہیں وہ واپس جاکر دیہاتیوںکو ڈراتے ہیں، انہیں بندوقیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ ان خواتین کا کہنا تھا کہ نکسلی مسئلہ قبائلیوں کی زمینیں اور وسائل چھینے کا محض ایک بہانہ ہے۔ چند دن پہلے پولیس نے ایک پورے گائوںکو نذر آتش کردیا تھا۔ لنگا نے اس واقعے کی ویڈیو بنائی تو اسے پولیس نے اغوا کرلیا۔ ہمانش کمار نے پولیس زیادتیوںکا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ضلع مہذب معاشرے اور جمہوری حکومت کا حصہ نہیں، جہاں قبائلیوں کی اس طرح نسل کشی کی جا رہی ہے جیسے امریکہ میں یورپی اقوام نے مقامی باشندوںکی کی تھی۔ 
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق وسطی صوبہ چھتیس گڑھ کی جیلیں کھچا کھچ بھری ہوئی ہیں۔ ایک ایک جیل میں گنجائش سے 261 فیصد زیادہ قیدی بند ہیں۔ ہیمانشو نے کمار نے کنکیر میں واقع ایک جیل کے بارے میں بتایا کہ اس میں قیدیوںکو سونے کے لئے باری کا انتظارکرنا پڑتا ہے۔کمیونسٹ پارٹی کی خاتون رہنما اینی راجا نے کہا کہ ان کی تنظیم کی کوششوں سے جب قبائلیوںکو راشن سے اناج ملا تو پولیس نے یہ لوٹ لیا اور انہیں یہ کہہ کر گرفتارکرلیا کہ وہ یہ غلہ مائو نوازوں کو پہنچا رہے ہیں۔ نامور ادیبہ اور سماجی کارکن ارون دھتی رائے نے کہا کہ دنیا میں کوئی ایسا علاقہ نہیں ہوگا جہاں لوگوںکو اس انداز سے نشانہ بنایا جارہا
ہو۔ چھتیس گڑھ پولیس کو فوج میں تبدیل کردیاگیا ہے۔ ارون دھتی نے یہ بھی کہا کہ بھارت کے اندر بین الاقوامی طرزکی سرحد کھینچ دی گئی ہے اور لوگوں کو یہ سرحد پار کرنے پر ہلاک کردیا جاتا ہے۔ نامور مصنفہ نے کہا، چھتیس گڑھ میں جوکچھ ہو رہا ہے اس کے پیچھے معاشی محرکات ہیں۔ صنعت کار اور سرمایہ دار قبائلیوں کی زمینوں اور وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور انہیں اپنے کارخانوں میں غلام بنانا چاہتے ہیں۔ حکومت نے مائو نوازوں کو خطرناک دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے کا نیا طریقہ وضع کیاہے۔ ان کے چہرے پر نقاب ڈال کر ہاتھوں میں بندوق تھمادی جاتی ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے معذور پروفیسر سائی بابا کوان زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے پرگرفتار کرلیا گیا۔ فلم ساز دیب رنجن پر سات مقدمات قائم کردیے گئے۔ اس کا قصور یہ ہے کہ اس نے چھتیس گڈھ کے سنگین حالات پر دستاویزی فلمیں بنائیں۔ 
دراصل ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک میں جمہوریت کی ''برکات‘‘چند مخصوص طبقات تک محدود ہیں، بیشتر عوام آئینی اور بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ عوام کا بڑا طبقہ زمین اورآمدنی کی غیر متناسب تقسیم‘ ذات پات پر مبنی تشدد‘ چھوت چھات‘ غربت اور افلاس سے دوچار ہے۔ اس وجہ سے ان علاقوں میں طاقت کے زور پر اپنا حق حاصل کرنے کے نکسلی فلسفے کو اپنانے والوںکی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حقوق انسانی کے لئے سرگرم تنظیم پیپپلز یونین فار سول لبرٹیزکا کہنا ہے کہ جب تک سماجی عدم مساوات کا خاتمہ نہیں ہوگا نکسلی تحریک کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا رہے گا۔ عدم تحفظ کا احساس لوگوں کو بائیں بازوکی انتہا پسند تنظیموں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ پولیس کے سابق افسر این سبرامنیم کا کہنا ہے کہ جب سکیورٹی کے دستے غریب قبائلیوںکو نشانہ بناتے ہیں توحکومت، اپوزیشن اور قومی میڈیا چپ سادھ لیتے ہیں جس سے ان قبائلیوں میں عدم تحفظ کا احساس شدت اختیارکر جاتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں