"IGC" (space) message & send to 7575

بھارت : گائے اور مسلمان

غالباً 1990ء کی دہائی کے اوائل میں جب بھارت میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی مہم عروج پر تھی، ویشوا ہندو پریشد نے گائو کشی کے خلاف بھی ایک مہم چھیڑی تھی اور اس کی آڑ میں مسلم کُش فرقہ وارانہ فسادات کروائے تھے۔کسی اخبار نے ایک کارٹون شائع کیا تھا جس میں ٹوپی پہنے ایک داڑھی والا مسلمان مصلے پر دو زانوں یہ دعا مانگ رہا تھا: ''یا اللہ مجھے گائے بنادے تاکہ کم از کم جان کی امان تو پاسکوں‘‘۔ اب لگتا ہے کہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور ایک سپر پاور بننے کا خواب دیکھنے والے اس ملک میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ دلتوں، اعتدال پسند غیر مسلم سکالروں کو بھی جان کی امان پانے کے لئے گائے کو حاصل حقوق میں حصہ داری کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ 
وزیر اعظم نریندر مودی کی امریکہ میں پذیرائی کے فوراً بعد ہی چار ایسے واقعات پیش آئے جن سے بھارت میں نام نہاد مہذب سماج کی سنگدلی بے نقاب ہوئی۔ یہ واقعات کسی دور دراز قبائلی یا جنگلی علاقے میں نہیں بلکہ شہروں میں پیش ہوئے اور ملزمان بھارت کے ابھرتے اور چہیتے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ہیں، جن پر مغربی ممالک کی خاص نظر ہے۔ سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کے صنعتی شہرکانپور میں ذہنی طور پر کمزور ایک شخص کو محض پاکستانی ہونے کے شبہ میں مار مار کر ہلاک کردیا گیا۔ ایک دن بعد اسی صوبہ کے حُمیر پور میں 90 سالہ دلت بزرگ کو زندہ جلایا گیا کیونکہ اس نے ایک مندر میں داخل ہونے کی جرأت کی تھی۔ بھارت کے جنوبی جدید ٹیکنالوجیکل دارالحکومت بنگلور سے منسلک ایک اسکالر ایم ایم کلبرگی کو قتل کیا گیا اس لئے کہ اپنی تصنیفات میں انہوں نے ویدک دھرم کی دیو مالائی کہانیوں اور بت پرستی کا مذاق اڑایا تھا۔ اس سے قبل اقتصادی دارالحکومت ممبئی کے اطراف میں اسی قبیل کے اسکالروں نریندر دابولکر اور گوند پانسرے کو بھی ہلاک کیا گیا۔ پولیس ابھی تک ان کے قاتلوں کو پکڑنے میں ناکام رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے قومی دارالحکومت دہلی سے تھوڑے فاصلے پر بھارتی فضائیہ کے ایک اہلکارکے والد 50 سالہ محمد اخلاق کو جس طرح پیٹ پیٹ کر ہلاک کیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرقہ واریت اور نفرت کا زہر بھارت میں کس قدر سرایت کر گیا ہے۔ اخلاق اور ان کے 22 سالہ بیٹے کو ہجوم نے ان کے گھر سے گھسیٹ کر صرف اس بنا پر سر عام ہلاک کر دیا کہ ان کو شک تھا کہ اہل خانہ نے اپنے گھر میں گائے کا گوشت سٹور کر رکھا ہے۔ وہ آخر دم تک ہجوم کو باورکراتے رہے کہ فرج میں رکھا گوشت قربانی سے آیا ہوا بکرے کا ہے مگر کسی نے ان کی ایک نہ سنی۔ حیرت یہ ہے کہ ملزمان کی اکثریت مقتول اخلاق کے پڑوسیوں کی تھی جو فسادیوں کے روایتی امیج کے برعکس ان پڑھ اور گنوارنہیں بلکہ کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے، سرکاری اور پرائیوٹ اداروں میں اچھی خاصی نوکریاں کرنے والے، اونچی ٹھاکر ذات سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔ اس سے بڑھ کر حکمران بی جے پی کے لیڈروںکے بیانات نے متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا۔ مرکزی وزیر اور علاقے کے رکن پارلیمان مہیش شرما کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایکسیڈنٹ تھا جس کے لئے ملزمان کو معاف کردینا چاہیے۔ ایک اور لیڈر نے تو متاثرہ کنبے کو ہی کٹہرے میںکھڑاکرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہندوئوں کے جذبات مجروح کرنے کے لئے بیف فرج میں رکھا تھا۔ بہرحال گوشت کو پولیس کے فورنزک جانچ کے لئے بھیجا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگرکسی نے بیف کھایا یا سٹور بھی کیا ہو توکیا اسے سر عام موت کے گھاٹ اتاردینا جائز ہے؟ قانون کی عملداری والے ملک اور طالبان یا داعش میں پھر کیا فرق رہ جاتا ہے؟
ادھر مسلم اکثریتی جموں و کشمیر کے ضلع راجوڑی میں عبدالحمید اور اس کی اہلیہ کو اس وقت چند شر پسندوں نے مار مار کے ادھ موا کر دیا جب وہ اپنے جانور چرا کر واپس گھر لوٹ رہے تھے۔ مغربی صوبہ گجرات میں اکتوبر کے وسط سے شروع ہونے والے نو دن کے گربا میلوں میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگائی گئی ہے۔گربا ایک طرح سے گجرات کا روایتی رقص ہے۔ اس سال اس میلے میں لازم ہے کہ جو اس میں شریک ہونا چاہتا ہے اسے گائے کے پیشاب کا چھڑکائوکروانا ہوگا اور ساتھ ہی تلک لگوانا بھی ضروری ہوگا۔
کنڑا زبان کے ممتاز ادیب یو آر اننت مورتی نے گزشتہ برس انتخابات سے پہلے ملک کے عوام کو خبردارکیا تھا کہ نریندر مودی کے بر سر اقتدار آنے کی صورت میں ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور تشدد کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ تجزیہ کار حیران ہیں کہ آیا مودی جان بوجھ کر ایک طرف فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف بیانات داغتے ہیں اور دوسری جانب پارٹی کے سخت گیر لیڈروں کو کھلی چھوٹ دے کر دونوں ہاتھوں سے لڈو بٹورنا چاہتے ہیں۔ لگتا ہے، مودی نے اپنی ایک ''سخت گیر ہندو قوم پرست‘‘ ہونے کا جو امیج بنایا ہے اسے برقرار رکھنے کے لئے ایسا کوئی قدم اٹھانا نہیں چاہتے جس سے ان کے حامی ناراض ہوں۔
اس سے قبل انہی کالموں کے ذریعے میں نے بھارت میں پڑھائے جانے والے نصابی مواد کے بارے میں خبر دار کیا تھا کہ بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی اور پاکستان کے خلاف نفرت کا اصل سرچشمہ یہی زہریلا نصابی مواد ہے۔ گجرات، کرناٹک، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، راجستھان اور دیگر ریاستوں کے نصاب میں فرقہ وارانہ جذبات کو مشتعل کرنے والا ایسا مواد شامل کیا گیا اور حقائق کو اس طرح مسخ کیا گیا ہے کہ کچے ذہنوںکا مسلمانوں اور پاکستان کا مخالف ہونا کوئی حیران کن بات نہیں ہو گی۔ مثال کے طور پر گجرات کے آٹھویں جماعت کی تاریخ کے نصاب میں درج ہے کہ دہلی کا قطب مینار ہندو بادشاہ سمندرگپت نے بنوایا تھا اور اس کا اصل نام ویشنو استھمب ہے۔ اسی طرح ایک سوالنامہ میں بچوں سے پوچھا گیا ہے کہ کتنے پیروکاروں نے رام مندرکو آزاد کروانے کے لئے 1528ء سے لے کر 1914ء تک اپنی جانیں نچھاورکیں؟ اس کا جواب ہے 35000۔ دوسرے صوبوں میں بھی تاریخی کتابوں میں علاقائی شخصیات کی''بہادری اور شجاعت‘‘ کو کچھ اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ اس سے ان کے ہمعصروںکی تذلیل ہوتی ہے۔ کتابیں ہندتوا خطوط پر مرتب کی گئی ہیں جس سے نئی نسل کے اذہان مسموم ہورہے ہیں۔ کرناٹک میں سکولوں کے نصاب کی ایک کتاب میں ذبیحہ گائے کے حوالے سے ایک مضحکہ خیز واقعہ بیان کیا گیا جس میں ایک شیر عہدکرتا ہے کہ وہ آئندہ کبھی گائے کا گوشت نہیں کھائے گا۔ 
مشہور مورخ ڈی این جھا نے اپنی کتاب میں ہندو مقدس کتابوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ویدک دھرم میں گائے کا ذبیحہ ممنوع نہیں تھا۔ ویسے آئینی طور پر ایک سیکولر ملک میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایک چھوٹے اور مخصوص طبقہ کے غیر مسلمہ جذبات کی خاطر کسی بھی مویشی کے ذبیحہ پر پابندی کس بنیاد پر لگائی جاسکتی ہے؟ جس کی کوئی مذہبی بنیاد بھی نہیں ہے۔ دوسری طرف ملک میں ویدک دھرم سے وابستہ قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ چھ ہزار سے زائد سکول سرکاری امداد پر چلتے ہیں، جن میں معصوم ذہنوں کو مسموم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں شیو مندر ہیں جہاں نوجوان نسل کی برین واشنگ کی جاتی ہے اور ان کے نصاب پر حکومت کا کوئی اختیار اور نگرانی نہیں ہے۔ ان سکولوں میں کس قسم کا تاریخی لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے، اس کی ایک ہلکی مثال یہ ہے: ''مسلمان حکمرانوں کا مقصد ہندوئوں کو ختم کرنا تھا۔ افغانستان میں تمام ہندوئوں کا قتل عام کیا گیا۔ جنوبی بھارت کی بہمنی سلطنت نے ہر سال ایک لاکھ ہندوئوں کو قتل کرنے کا ٹارگٹ مقررکیا تھا۔ اس عہد میں ہندو آبادی 80 ملین تک کم ہوئی جس کو تاریخ کی بدترین نسل کشی بتایا گیا ہے‘‘۔ اب ان اداروں سے فارغ ہونے والے اور اس طرح کا لٹریچر پڑھنے والے بچے متعصب ذہن نہیں ہوںگے تو اورکیا ہوںگے؟ یہی بچے آگے چل کر مختلف میدانوں میں تعصب پھیلاتے ہیں، اس کے مظاہر میڈیا میں بھی صاف نظرآتے ہیں۔ جب تک اس طرف خصوصی توجہ نہیں دی جاتی اور اقدامات نہیں کئے جاتے اس وقت تک بھارت میں فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ سیاست ختم نہیں ہوگی۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بے محل نہیں ہوگا کہ کانگریس پارٹی نے 2003ء میں شملہ میں اپنے چنتن بیٹھک میں فیصلہ کیا تھا کہ وہ ملک سے فرقہ وارانہ مواد ختم کرنے کے لئے کام کرے گی، لیکن دس سال تک اقتدارکے مزے لوٹنے کے باوجود وہ اپنا ہی کیا ہوا فیصلہ بھول گئی۔ ملک میں آئے دن مذہبی جلوسوںکی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسی یاترائیں نکالی جا رہی ہیں جن کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ مذہبی جلوسوں میں ہاتھوں میں ہتھیار لے کر چلنے کی روایت عام ہو رہی ہے۔ اس بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کے اصل سرچشمہ کا سدباب صرف یہ کہ نصابی کتابوں میں بھرے زہریلے مواد کی تطہیر کی جائے اور صحیح تاریخ کو شامل نصاب کیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں